Friday, September 26, 2014

مذہب کا استعمال؟

بہت سے لوگوں کی طرف سے یہ اعتراض سامنے آتا ہے کہ ہم اسلام کے نام پر سیاست یا اسلام کو "استعمال" کررہے ہیں۔ ان سب کیلئے چند استعمال یا نام پر سیاست کی مثالیں دینا ضروری سمجھتا ہوں تاکہ بخوبی فرق واضح ہوجائے۔
١، ایم کیو ایم کا تعصب پر مبنی پارٹی ہونے کے باوجود "مہاجر" کا لفظ استعمال کرنا اور اس ہجرت کو اسلام کیلئے ہجرت کے طور پر بیان کرنا اور ایسا بنا کر پیش کرنا کہ گویا وہ اسلام کی خدمت کررہے ہیں۔
٢، تحریک انصاف کی جانب سے بیشتر نعرے جن میں "ایاک نعبد و ایاک نستعین" والا نعرہ جس موقع پر لگایا جاتا ہے اس وقت بیک گراؤنڈ میں موسیقی چل رہی ہوتی ہے۔ خود کو ایک سیکیولر پارٹی کہنے کے باوجود اپنے فائدہ کیلئے اسلامی اقدار کا سہارا لینا۔
٣، مسلم لیگ کی پنجابی قوم پرستی کے باوجود اپنے علاقائی سیاسی فائدہ کیلئے کالعدم مذہبی جماعتوں سے تعلقات رکھنا۔
٤، اے این پی کا ایک نیشنلسٹ پارٹی اور سرخ انقلاب کے دعوے دار ہونے کے باوجود رمضان میں چاند کے معاملے میں ٹانگ اڑانا اور اس پورے conflict کو اپنی سیاسی بقا کیلئے استعمال کرنا۔
٥،پیپلز پارٹی، لبرلزم کی نمائندہ جماعت ہونے کے باوجود فیصل رضا عابدی کو خود کو ایک مذہبی رہنما کے طور پر سامنے لانا اور اس مذہبی طریق کو اپنی سیاست میں مکمل اس طرح استعمال کرنا کہ مذہبی شناخت ہٹ جائے تو سیاسی کیریئر صفر پر آجائے۔
کیا یہ ہنسنے کا مقام نہیں؟ کہ مذکورہ تمام افراد جو اپنی اپنی بساط پر ایک طرف مذہب کو سیاست سے الگ سمجھتے ہیں اور سیکیولرزم کے دعوےدار ہیں (علاوہ مسلم لیگ) اور دوسری جانب جہاں موقع ملے اپنے سیاسی عزائم کی تکمیل کیلئے اسلام کا استعمال ناگزیر سمجھتے ہیں اور مقصد پورا ہونے کے بعد اپنی اجتماعی زندگیوں میں مذہب کا راستہ روک دیتے ہیں۔ اس طرح کے افراد کو کیا یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ جماعت پر تنقید کریں جب کہ ہم کھلے عام اسلام کا سیاست میں عمل دخل ضروری سمجھتے ہیں اور اپنے ہر ہر انفرادی اور اجتماعی معاملے میں اسلام کی شمولیت کو ضروری سمجھتے ہیں اور اس کے بغیر اپنی تحریک کو نامکمل سمجھتے ہیں، میرا خیال ہے اب "دین کو اساسِ کل سمجھنا" اور "دین کے استعمال" کا فرق واضح ہوگیا ہوگا۔


ابنِ سیّد

Tuesday, September 23, 2014

پارلیمنٹ کی دیوار سے ٹیک لگاۓ بوڑھا

امی امی یہ پارلیمنٹ کی دیوار سے ٹیک لگاۓ بوڑھا کون ہے؟ کہیں جاتا کیوں نہیں ۔۔۔
بیٹا بہت سال پہلے سنہء ٢٠١٤ میں ہمارے ملک میں ایک شخص نے انصاف کا نعرہ لگایا تھا۔۔ ایک نیا پاکستان بنانے کیلئے دھرنا دیا تھا ۔۔۔ یہ وہی شخص ہے۔۔۔
لیکن انصاف کا مطالبہ ۔۔۔ یہ تو اچھی بات ہے پھر اس کیساتھ ایسا کیا ہوا؟ آج یہ اس حال میں کیوں ہے؟
(مسکراتے ہوئے) ۔۔۔ بیٹا اپنی گاڑی تو لاؤ ۔
دیکھو بیٹا۔۔ یہ ایک گاڑی ہے اس میں چار پہیے لگے ہوں تو چلتی ہے۔ اب اگر میں اس کے پہیّے نکال دوں تو کیا یہ چل پائے گی؟
نہیں!
چلو اب ان پہیوں کی جگہ میں پتھر لگا دوں۔۔ کیا اب چل پائے گی؟
بالکل نہیں!
چلو ایک اور تجربہ کرتے ہیں ۔۔ ان پہیوں کی جگہ چار مزید گاڑیاں لگا دیتے ہیں اب تو اس کی رفتار تیز تَر ہوجائے گی۔۔۔ ہیں ناں؟
ہاں! ضرور۔
لیکن اگر ان چاروں گاڑیوں کی سمت الگ کردوں۔۔ اب؟
پھر تو ایک قدم بھی نہ چل پائے گی۔۔۔
بس بیٹا! یہی وجہ تھی۔۔۔ یہ شخص ایک مخلص انسان تھا، اس کیساتھ گاڑی کے پہیوں کی مانند مخلص ٹیم تھی جو اس کا ساتھ دیتی تھی اس کو آگے بڑھاتی تھی، عوام کی خدمت کیلئے ہسپتال بنائے، کالج بنائے، سیاسی جماعت بنائی ۔۔۔ لیکن پھر تیز رفتاری کے شوق میں ان پہیوں کو نکال باہر کیا اور ان کی جگہ بھاری بھرکم گاڑیاں لگالیں، پھر کیا ہونا تھا ان تمام بڑی گاڑیوں نے الگ الگ سمت دوڑنے کی کوشش کی اور اس سعی میں کہیں بھی نہ جاسکیں۔ سمجھے؟
جی امی!
بیٹا سیانے کہتے ہیں "اِسپیڈ تھِرلز، بَٹ کِلز!"
ابنِ سیّد
Top of Form


پلیز کَم ہیئر

ایک بچّے نے اسکول میں سیکھا
کسی کو بلاتے ہیں تو کہتے ہیں: پلیز کَم ہیئر
گھر گیا، ماں کو کہا:  مما ! پلیز کم ہیئر۔۔۔۔۔۔
ماں بہت خوش ہوئی، کہنے لگی  واہ شاباش ۔۔۔۔  
پھر کہا :  اچھا اب اگر تمہیں مجھے کہنا ہو کہ ممّا کمرے سے باہر جائیں تو کیسے کہو گے؟
بچہ نے سوچا سوچا سوچا پھر کمرے سے باہر جا کر بولا:  مما ! پلیز کَم ہیئر  ۔۔۔۔۔۔

تحریک انصاف کی گو نواز گو تحریک بھی اس ہی طرح لگنے لگی ہے۔۔ لاہور میں کہو گو نواز گو، اسلام آباد میں کہو گو نواز گو، مگر کراچی میں آکر کیا کہنا چاہیے؟ گو نواز گو؟ یا۔۔۔۔۔۔

ممّا ! پلیز کَم ہیئر۔۔۔۔۔!


ابنِ سیّد

Friday, September 19, 2014

لاپتہ۔۔۔۔

ٹھاہ!! زناٹےدار تھپڑ کی آواز سنتے ہی کمرے میں سنّاٹا چھا گیا۔ مارنے والا خود چونک پڑتا ہے۔۔۔
"بتا!!!!! کس کے کہنے پر آیا تھا یہاں؟؟؟" ۔۔۔ "کسی کے نہیں جناب" آگے سے گھگھیاتی روتی ہوئی آواز آتی ہے ۔ "تو ایسے نہیں مانے گا" ایک اور زناٹےدار تھپڑ پڑتا ہے۔
"سر جی انہوں نے اپنے کئی سپاہی بھی زخمی کردیے سر۔۔۔" پیچھے سے ایک اور لقمہ دیتا ہے "سر جی کئی ایک تو آئی سی یو میں ہیں" ۔۔۔ "تو شرافت کی زبان نہیں سمجھے گا!!!" اس کیساتھ سب اس پر پل پڑتے ہیں۔ اور چینخوں کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ کہیں سے تھپڑ تو کہیں سے لاتیں تو کہیں سے گھونسے، گالیاں اور بپھتیاں بونس میں۔ "چل ڈھیٹ ہڈی بتادے کس نے بھیجا، لے اپنے کیپٹن کا نام، تجھے کچھ نہیں کہیں گے، چل شاباش ۔۔۔۔ ۔ فر فر بول۔۔۔ ہاں حوالدار، بیان لکھ اس کا"۔۔۔ روتے، ہکلاتے ہوئے اس نے کہا "مجھے بھیجا ہے۔۔۔" سب بغور سننے لگے۔۔۔ "مجھے۔۔۔ مجھے میرے پیٹ نے بھیجا ہے، چار دن فاقے کرنے کے بعد جب مجھ سے بھوک برداشت نہ ہوئی، بچوں کے رونے کی آوازوں نے مجھے نکلنے پر مجبور کیا۔۔میں نے سوچا جلسے میں جاؤںگا تو کچھ کھانا ہی مل جائے گا۔ ۔۔۔ بس اس ہی لئے ادھر آیا تو یک دم لاٹھی چارج شروع ہوگیا۔۔۔ سر میں تو بس۔۔ بھوک سے مجبور تھا سر۔۔۔ "۔۔۔
سب سر جھکے ہوئے تھے۔ وہ اٹھ کے جانے لگا، کسی نے روکا نہیں۔
باہر جلسے کے اسٹیج سے اعلان ہورہا تھا۔۔۔پولیس ہمارے افراد کو فوراً رہا کرے ، سینکڑوں ساتھی لاپتہ ہیں، احتجاج جاری رہیگا، دھرنا ہوگا، دھرنا ہوگا۔۔۔
ابنِ سیّد

Friday, September 12, 2014

ناکام عشاق کے نامراد اسٹیٹس

فیس بک پر آج کل بعض لوگوں کا مشغلہ اپنی ناکام محبت کے بارے میں اسٹیٹس پوسٹنا اور اپنا یہ کینسر دوسروں تک منتقل کرنا ہے. یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کوئی بندہ خودکشی کا خط جسے (suicide note) بھی کہتے ہیں اس کی فوٹوکاپیاں کرکے بانٹنا شروع کردے. یہ دوسروں تک اپنا بلڈ پریشر منتقل کرنے کی ایک ناکام کوشش ہوتی ہے اور کم ہی یہ تیر نشانے پر بیٹھتا ہے. ان دِل جلوں کہ اسٹیٹس کچھ اس طرح ہوتے ہیں جیسے کہ "آج پھر یاد آئی" "آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کیلئے آ" یا پھر پروین شاکر اور وصی شاہ کی بعض ڈپریشن زدہ نظمیں. اکثر اوقات اپنی فرینڈ لِسٹ میں موجود "ایک آدھ" خاص شخص کو مذکورہ اسٹیٹس پڑھانے کیلئے باقی سب کے منہ کا ذائقہ خراب کرنا ضروری سمجھتے ہیں. توجہ کے متلاشی aww aww ٹائپ کے کمنٹ کا شدت سے انتظار کرتے ہیں. جیسے آپ کو پتا ہے کہ زہر کو زہر مارتا اور لوہا ہی لوہے کو کاٹتا ہے، اس کا بہترین حل یہ ہے کہ جیسے ہی اس طرز کا پھپھوندی لگا اسٹیٹس دیکھیں، آپ بھی کمنٹ کی صورت میں بےتحاشا زہر اگل دیں، پھر یا تو آپ انفرینڈ ہوجائیں گے یا پھر اگلا سدھر جائے گا : Pٹرائی شرط ہے.

ابنِ سیّد

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...

Facebook Comments