Monday, July 20, 2015

عید تو بچوں کی ہوتی ہے !


عید تو بچوں کی ہوتی ہے !

تحریر: ابنِ سید (سید اویس مختار)

 

مجھے یاد ہے کہ اس دن کافی گہما گہمی تھی، سارے بچے گھروں سے باہر نکلے گلی میں کھیل کود رہےتھے سب نے صاف اور پیارے پیارے کپڑے پہنے ہوئے تھے ، ہم نے بھی اچھے اچھےکپڑے پہنے  اور لگے اپنی گلی میں کھیلنے، چونکہ امی نے نئے کپڑے پہنائے تھے لہذا سختی سے تاکید کی تھی کہ کپڑے خرا ب نہ ہوں اس ہی لئے زیادہ کھیلے بِنا ہی فوراً گھر واپس آگئے۔ امی سے پوچھا کہ آج ایسا کیا ہے سب اتنا اچھا  کیوں ہے  تو امی نے بتایا کہ آج عید الفطر کا پہلا دن ہے ، دریافت کیا کہ کتنے دن ہوتے ہیں تو معلوم ہوا کہ یہ سب تو اگلے تین دن تک جاری رہیگا ۔۔ ۔ مگر اگلے دن اُٹھے تو سب غائب، نہ گلی میں غبارے والا تھا نہ مکئی بھننے والا، نہ ہی بچوں  کا کھیل کود اور نہ ہی گہما گہمی، یوں ہماری عید تمام ہوئی۔

ہر بچے کی طرح عید کے دن کی سب سے اچھی بات ہمیں بھی عیدی ہی لگتی تھی ، سب بڑوں سے جُھک جھک کر ملنا سر پر ہاتھ پھِروانا اور پھر ان کی جانب تقاضے سے بار بار دیکھنا ، عیدی ملتے ہی اس کو بٹوہ میں جوڑ جوڑ کر رکھنا اور پھر وقفے وقفے سے بار بار رقم گننا کہ کتنے پیسے ہوگئے ، اور پھر گننے کے بعد اپنی بہن اور دوسرے کزن سے پوچھنا کہ اُن کے پاس کتنے جمع ہوئے۔ کم ہونے پر ہاتھ ملنا اور زیادہ ہونے پر اَکڑ دِکھانا۔ کبھی تو ایسا بھی ہوتا کہ کم عیدی ہونے پر پوچھا پاچھی کرتے کہ کِس نے کِس کو کتنی عیدی دی تاکہ یہ بھی پتا چلتا رہے کہ کون کون عیدی دینے سے رہ گیا ۔ اور پھر وہ پیسے کئی کئی مہینے ایسے ہی سینت سینت کر رکھے جاتےیا پھر امی کے پاس رکھوا دئے جاتے تاکہ کسی خاص موقع پر استعمال کئے جائیں! اور تو اور دھوکے بازی بھی کس قدر معصوم ہوا کرتی تھی جب دیکھتے تھے کہ ہم کسی سے عیدی کی ریس میں ہار رہے ہیں تو وہ چینی سے بنے گُڑیا کے رنگ برنگے بال  ہوتے ہیں نا میٹھے میٹھے بس اس کے پیکٹ میں موجود لال نیلے نوٹ بھی اپنی ملکیت بنا لیتے اور پھر سب کو ساتھ گنتے ۔۔۔ ہاں ! مگر جب کام ختم ہوجاتا تو احتیاط سے ان پیسوں میں سے وہ پیسے الگ کر لئے جاتے جس پر "بچوں کو عید مبارک " لکھا ہوا کرتا تھا۔

کیا کبھی کسی نے محسوس کیا کہ عام دنوں میں بننے والا شیر خُرمہ کبھی وہ ذائقہ نہیں لا سکتاجو عید پر بنتا ہے، شاید یہ عید کا ذائقہ پورے ماحول میں رَچا بسا ہوتا ہے جب ہی تو عید کے کھانے اور شیرخرمہ الگ ہی مزہ لئے ہوتا ہے۔ عام دنوں میں شاید دوستوں اور رشتہ داروں سے میل ملاقات میں بھی وہ مزہ نہیں آتا جو کہ عید والے دن آتا ہے۔

عید کارڈ بھی کیا اچھی روایت تھی، پیارے سے دوست کیلئے اپنے ہاتھ سے خریدے، سجائے اور لکھے گئے عید کارڈ کا بھی الگ ہی سواد ہوا کرتا تھا۔ پہلے تو عید کارڈ کے اسٹال سے عید کارڈ کا حُصول ہی ایک بڑا مَعرکہ ہوا کرتا تھا جہاں سب بَڑے لڑکے لڑکیوں کا رَش ہو وہاں ہَماری باری نہ جانے کَب آتی، ہم ایک پیارا سارنگین کارڈ خریدتے پھر دکان دار سے اپنی مَعصومیت کا پورا فائدہ اُٹھا کر قیمت میں چند سِکے کَم کروا کر ایک شانِ بے نیازی سے واپس ہوتے، یہ معرکہ سَر کرنے کے بعد دوسرا معرکہ اس کی تزئین و آرائش ہوا کرتا تھا جو کہ پہلے سے ہی ہماری دراز میں موجود ڈھیر سارے رنگارنگ اسٹیکر زسے ہوجاتا تھا ، پھر اس پر شعر لکھنا ، اُس دور کے چند مشہور شعراء کے شعر پیشِ خدمت ہیں۔۔۔

روتے روتے نیند آگئی  - صبح اٹھ کے دیکھا تو عید آگئی

سَویاں پکی ہیں سَب نے چکھی ہیں –تُم کیوں روتے ہو ، تمہارے لئے بھی رکھی ہیں!

عید آئی ہے زَمانے میں- میرا یار گِر پڑا غُسل خانے میں

ڈَبے میں ڈبا ، ڈَبے میں کیک – میرا پیارا دوست لاکھوں میں ایک

آم کے رَس کو جوس کہتے ہیں –جو عید پر دعوت نہ دے اُسے کنجوس کہتے ہیں!

کچھ شعر میں ہم دوستوں کا نام بھی استعمال کرتے تھے جیسے۔۔۔

ڈَبے میں ڈَبا ، ڈَبے میں کیک –اویس مختار لاکھوں میں ایک (واہ! کیا حقیقت پر مبنی شعر ہے!)

 

آج پلٹ کر ماضی میں نظر دوڑائیں تو نظر آتا ہے کہ سب کچھ تو تھا ان بچپن کی عیدوں میں ہاں بس نہیں تھا تو یہ بناوٹ، تصنع، نمائش، خودغرضی! نہ اس وقت یہ فکر ہوتی تھی کہ کون سے برانڈ کا سوٹ پہننا ہے اور نہ ہی مہنگے سے مہنگے کپڑے خریدنے اور پہننے کی دوڑ تھی، آج کل تو گردن کے پچھلی جانب جھانک کر جب تک ایک دوسرے کے برانڈ کا ٹیگ نہ دیکھ لو تو شاید عید پوری نہیں سمجھی جاتی۔ اُس وقت مساجد کے لاؤڈ اسپیکر صرف اَخوت کا درس دیتے نظر آتے تھے مگر آج یہ بھی ندارد، ان دنوں عید کے سارے دن رشتہ داروں میں ملتے ملاتے گزرتے تھے، مگر آج تو عید کے دنوں میں کچھ اس طرح بےسُدھ سوتے ہیں کہ نہ کسی سے ملنے کا ہوش ہوتا ہے نہ ہی کسی بات کی پرواہ۔

اپنی بچپن کی عید جب بھی یاد کرتا ہوں تو آنکھوں سے چند آنسو نکل پڑتے ہیں، کبھی خوشی سے ان یادوں کو یاد کرکےاور کبھی اُن کے غم میں جو اَب ہم میں نہیں رہے اور ہم اپنائیت سے ان کے گلے میں بانہیں ڈال کر ان سے عید ملنے سے محروم ہیں!

 

اِبنِ سید (اویس مختار)

--------------

نوٹ: اس تحریر میں جناب شعیب صفدر گُھمّن صاحب ، محترمہ نورین تبسم صاحبہ اور جناب  سعد مقصود بھائی ٹیگ ہیں۔ صاحبان اور صاحبہ سے گزارش ہے کہ  اس موضوع پر اظہار خیال کرکے اردو بلاگر میں تحریک برپا رکھیں۔ ان حضرات کو ٹیگ کرنے کا یہ بھی مقصد ہے کہ اس طرز کی سرگرمی جب شروع ہوگئی ہے تو جاری و ساری رہے۔ جزاک اللہ –ابن سید  (سید اویس مختار)

Wednesday, July 15, 2015

ایک بےنام سی تحریر


کالے آسمان ہر تارے کچھ اس طرح سے چمک رہے تھے جیسے کسی نے مخملی کپڑے پر ستارے ٹانک دئے ہوں، رات کا سناٹا گہرا ہوتا جا رہا تھا، کبھی تو ایسا لگتا کہ یہ خاموشی کہیں میرے کانوں کے پردے ہی نہ پھاڑ دے ۔۔ ماحول میں رچی بسی ٹھنڈک اور ہوا میں ہلکی سی تیزی تھی، میرے قدموں پر جب خشک پتے چُرمُرا کر احتجاج کرتے تو ایسا معلوم ہوتا کے جیسے اپنی موجودگی کا احساس دلا رہے ہوں اور یوں اس سناٹے میں اس لمحے ایک خوشگوار احساس پیدا ہو جاتا کہ جیسے میں یہاں اکیلا نہیں کوئی اور بھی میرے ساتھ ہے، مگر پھر رکتے قدم کیساتھ ہی پھر وہی سناٹا ۔۔ یہ خوشگوار لمحہ ایک قدم سے دوسرے قدم کی خاموشی کا فاصلہ طے کرتا ۔۔ مگر۔۔ آخر کب تک ۔۔ مسلسل کب تک چلوں ۔۔ مجھے رُکنا ہی پڑا ۔۔ اور رُکتے ہی پھر وہی خاموشی میرے حواس پر طاری ہونے لگی ۔۔ مجھے ایسا لگا کہ جیسے میں کسی اندھے کنویں میں گِر رہا ہوں، لمحہ بہ لمحہ نشیب کی جانب سفر کرتا ہوا میرا جسم ۔۔ پھر میں نے حالات کے دھارے پر خود کو چھوڑ دیا اور کہیں دور نشیب میں خود کے گرنے کا انتظار کرتا رہا ۔۔ مگر۔۔ انتظار ہی کرتا رہا، انتظار طویل ہوتا گیا مگر وہ فاصلہ ۔۔ وہ طے نہیں ہوا۔۔ ماحول کی پُراسراریت ہر گزرتے لمحے کیساتھ بڑھتی جارہی تھی ۔۔ ہوا میں ٹھنڈک اب خنکی کی جانب سفر شروع کرچکی تھی ۔ اندھیرا دبے پاؤں چلتا ہوا اطراف کے ماحول سے اب میرے دل پر طاری ہو رہا تھا۔ ایک انجانا سا خوف میرے رک و پے میں سرایت کرنے لگا۔۔ ۔مگر ۔۔
پھر نہ جانے کیوں ایسے لگا جیسے کسی نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا ہو، مجھے میرا نام لے کر پُکارنے والا یہ کون تھا، مجھے لگا یہ آواز تو میرے بالکل قریب سے آرہی ہے، برف جیسے پگھل رہی تھی، ماحول سے ٹھنڈک غائب ہو رہی تھی۔۔ میرے اطراف کی تاریکی میں جیسے چاروں طرف روشنی کی کرنیں اپنا رقص کرنے لگیں، میں نے غور کیا میں اپنے پیروں پر کھڑا ایک جانب سفر شروع کر چکا تھا، ماحول کے سناٹے کو ایک مدھم سی مسلسل آواز ختم کررہی تھی، مجھے لگا ۔۔ میں بھی شاید مسکُرانے لگا تھا۔۔

ایک بےنام سی تحریر
از اِبنِ سَیّد (اویس مختار)



Photo By Dr Scott

Tuesday, July 7, 2015

کیسا تھا میرا پہلا روزہ (خدارا نہ ٹیگو کہ مجھے نہیں یاد!)


کیسا تھا میرا پہلا روزہ  (خدارا نہ ٹیگو کہ مجھے نہیں یاد!)

 اردو بلاگران کے اندر ٹیگا ٹیگی چل رہی ہے سب اپنے اپنے پہلے روزے کا حال سُنا رہے ہیں اور پھر کسی دوسرے بلاگر کو ٹیگتے ہیں کہ وہ بھی یہ عمل دہرائے ورنہ انجام کا ذمہ دار خود ہوگا لہذا دوسری جانب سے بھی یہی حرکتیں ہوتی ہیں،ادھر ہم اس ہی شش و پنج میں ہیں کہ آیا پہلا روزہ رکھا تھا بھی کہ نہیں یا سیدھا دوسرا یا پھر تیسرا روزہ ۔ہاں! مگر اتنا ضرور یاد ہے کہ ایک دن اسکول میں شدید پیاس سے بےحال ہو کر بھاگ کر کُولر کی جانب گئے ،جی بھر کر ٹھنڈا پانی پیا اور مست ہو کر کلاس کی جانب آ رہے تھے کہ اچانک یاد آیا کہ ہمارا تو روزہ تھا،  یہ بتانا ضروری نہیں کہ یہ واقعہ کئی بار (بلکہ ایک ہی دن میں کئی کئی بار) ہو جاتا تھا۔ اب بھی حال یہ ہے کہ بہت سی باتیں ، یادیں اور لوگ بھول جاتے ہیں مگر روزہ یاد رہتا ہے، نہ جانے کیوں!

کئی دفعہ ایسا ہوا کہ گھر میں افطاری پر سارا سامان سجا ہوا ہے اور ہم کہیں سے باہر سے ٹہلتے ہوئے آئے اور آتے ہی کوئی چیز اُٹھا کر منہ میں ڈال لی کہ اتنے میں اَمی نے ڈانٹ کر باور کرایا کہ روزہ ہے تو لَگے گھبرا کر خوخو خاخا کرنے مگر جو پیٹ میں اُتر چکا وہ کیاخاک باہر آتا۔

شرارتی تو بچپن سے ہیں اور اب بھی ہیں، بچپن سعودی عر ب میں گزرا، پاکستان اور سعودی عرب کا  روزہ کھُلنے میں غالباًایک گھنٹے کا فرق ہوتا تھا، ایک دفعہ اَمّی دسترخوان سیٹ کرکے کچن میں پکوڑے تَل رہیں تھیں، میں نے ٹی وی کھولاپاکستان میں روزہ کھُل چکا تھا اور پی ٹی وی پر اذانِ مغرب نشر ہورہی تھی، آوز بڑھا دی، امی نے آواز سُنی تو سمجھیں شاید روزہ کھُل چکا ہے لہذا بھاگ کر آئیں اور کھجور منہ میں نہ صرف رکھی بلکہ ہمیں بھی کہا کہ روزہ کیوں نہیں کھول رہے ، ہم نے جواباً کہا کہ روزہ تو کھُلا ہی نہیں! آگے کیا ہوا، نہ پوچھئے!

تراویح کا پورا وقت باہر ہی گزرتا تھا، چاہے تراویح پڑھیں یا نہ پڑھیں، یعنی شیڈیول کچھ یوں ہوتا تھا کہ عشاء کی نماز ہوئی اور ہم فرض پڑھ کر باہر آ گئے ، اب دوستوں کے پاس گئے کبھی فٹبال کھیلا کبھی کچھ اور کھیل کھیلا یہاں تک کہ نماز وتر کا وقت ہوگیا تو بھاگم بھاگ واپس آئے وتر ادا کی اور گھر کو چل دئے! یوں ہم ایک بھی تراویح نہیں چھوڑتے تھے ! بچپن میں کسی طرح پتا چل گیا کہ تراویح نفل ہے لہذا اس کی طرف سے غفلت برت جاتے تھے۔

سال تو مجھے یاد نہیں ، ہاں اتنا یاد ہے کہ پہلے سال تین روزے، دوسرے سال دس روزے اور پھر تیسرے سال الحمدللہ پورے روزے رکھے اور یوں روزے باقائدگی سے رکھنے شروع کئے۔ سحری روزے افطار اور تراویح ایک ساتھ ہی رکھتے تھے، یعنی یہ شغل بھی ہوا کہ جس دن روزہ نہیں اس دن نہ سحری کی نہ افطار کیا اور نہ ہی تراویح ۔۔۔

اتنا ضرور یاد ہے کہ دوسرے لڑکوں سے پہلے ہی روزہ رکھا کیوں کہ جب ہمارا پہلے پہل کا روزہ تھا اس وقت باقی سب کھا پی رہے ہوتے تھے لہذا یہی قیاس ہے کہ ہم نے عمر سے پہلے روزہ شروع کردیا تھا۔

ا س سب کے باوجود آج جب مُڑ کر ماضی میں جھانکتا ہوں تو نہ جانے کیوں وہ اپنا معصوم ساروزہ اور تراویح بہت پیاری نظر آتی ہے۔ گردش ایام اور دنیا کی بھاگ دوڑ ، معاش کی ریس نے اس بہت مصروف کردیا کہ سحری میں آنکھ کھُلنے کے وقت بھی بدن ٹوٹ رہا ہوتا ہے اور رات سونے سے قبل بھی ۔بس جب امی کی آواز سحری کے وقت کانوں میں آتی ہے ، "اویس! اُٹھ جاؤ وقت ہوگیا "، تو نہ جانے کیوں دل یہ کرتا ہے کہ جب اویس اُٹھے تو وہی ننھا مُنا سا پلنگ سے چھلانگ مارتا ہوا، جلدی جلدی سحری کرتا اور نمازِ فجر کے لئے بھاگتا ہوا۔۔۔اے کاش!

 
ابنِ سید (اویس مختار)

اس پوسٹ میں میں زید عفّان، ذہین احمق آبادی اور تفہیم احمد (تفہیمِ سحر) کو ٹیگ کررہا ہوں، اب آپ حضرات اپنا احوال سنائیں!

Photo By: Nasir Khan
Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...

Facebook Comments