Saturday, May 21, 2016

Download Complete Quran Audio Arabic/Urdu - مکمل قرآن آڈیو اردو عربی ڈاؤنلوڈ کریں

سب سے پہلے نیچے دئے گئے لنک پر کلک کریں
 
Link1 OR Link 2
 
آپ کے سامنے یہ اسکرین آئے گی
سائن ان پر کلک کریں
 
اپنا آئی ڈی اور پاسورڈ ڈالیں اور سائن ان کریں
 


اس کے بعد اس بٹن پر کلک کریں تاکہ فائل آپ کی ڈرائیو میں آجائیں


 
پھر اس مینو کو اوپن کرکے ڈاؤنلوڈ پر کلک کریں، ڈاؤنلوڈ شروع ہوجائے گا

Tuesday, September 1, 2015

میٹرک کلاس کے دو بچوں کی خودکشی ۔ لمحہ فکریہ


نوروز حامد اور صبا بشیر
 

(تحریر: ابن سید – اویس مختار)

اسکول کی سیٹ پر بکھرا خون، اسکول یونیفارم میں لاشیں، کنپٹی اور ماتھے پر گولیوں کے نشان

یا الہی، یہ تو نہ تھے ہمارے کھلونے، میٹرک کلاس کے بچوں کی خودکشی، کوئی کہہ رہا ہے انڈین فلموں کا اثر تو کوئی کہہ رہا ہے کہ فحش ناولوں  اور انٹرنیٹ کا اثر۔۔۔

مگر کب تک حقیقت کو جھٹلائیں گے؟ کب تک منہ چھپا کر ذمہ داری میڈیا اور فلموں پر ڈالیں گے

ان بچوں نے جو کچھ کیا اس کے ذمہ دار ان کے والدین ہیں، ان کے قاتل کوئی اور نہیں ان کے ماں باپ ہیں

میں انہیں برملا کیوں نہ کہوں کہ ، "سنبھال نہیں سکتے تو پیدا ہی کیوں کرتے ہو؟"

ہمیں اس بات پر سوچنا پڑیگا کیا وجہ تھی کہ بچوں نے اپنی بات اپنے والدین سے شیئر نہیں کی؟ کیا وجہ تھی کہ انہوں نے خود ہی سب کچھ فیصلہ کر لیا؟ اگر انہوں نے گھر میں کچھ اس طرح کا ذکر کیا بھی تھا تو کیا وجہ تھی کہ والدین نے انہیں وہ اعتماد نہیں دیا وہ بھروسہ نہیں دیا کہ انہیں یہ انتہائی قدم اٹھانا پڑا۔۔۔

میں مانتا ہوں کہ معاشرہ خراب ہے، میڈیا خراب ہے، نوجوانوں کو جو دیگر ذرائع سے مواد میسر ہے اس میں بہت کچھ خراب ہے۔۔

مگر کیا ان تک رسائی کو روکنا والدین کی ذمہ داری نہیں؟ کیا انہیں نہیں پتا کہ ان کا بچہ کیا کر رہا ہے؟ کس سے ملتا ہے ؟ کن سرگرمیوں میں ملوث ہے؟

اگر نہیں پتا تو ان سے بڑا کوئی لاپرواہ نہیں! اور اگر پتا ہے تو ان سے بڑا بےشرم  اور ڈھیٹ کوئی نہیں!

اب یہ سنجیدگی سے سوچنا پڑے گا، اس جنریشن گیپ کو ختم کرناہوگا!

والدین کو اپنی نوکری کی مصروفیات، اپنے موبائل/لیپ ٹاپ/ٹیبلٹ سے ،اپنی آپس کےلڑائی جھگڑوں سے باہر نکل کر بچوں کی تعلیم و تربیت پر توجہ دینی پڑیگی۔

اور یہ تربیت، تشدد سے نہیں، پیار و محبت واور ان سے دوستی سے کرنی ہوگی۔

اگر ہم اپنی آئندہ نسلوں کو بچانا چاہتے ہیں تو ان کو دوست بنانا ہوگا! اب یہ قدم اٹھانا ہوگا!

 

والسلام!

ابن سید (اویس مختار)

 

Monday, August 24, 2015

پروفیشنل گداگری اور حکومتی اقدامات


پروفیشنل گداگری  اور حکومتی اقدامات
(میرا یہ فیچر آپ جسارت سنڈے میگزین کی اگست 2015 کی اشاعت میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔ شکریہ)

(سید اویس مختار)

وہ اتوار کی شام تھی ہم کچھ مختلف این جی اوز کے نمائندگان اور سوشل ورکرز کراچی کے ایک معروف شاپنگ مال صائمہ مال کے فوڈ کورٹ میں جمع ہوئے، ہمارے جمع ہونے کا مقصد یہ تھا کہ نت نئے آئیڈیاز پر بات کی جائے ۔دورانِ گفتگو ہم نے اس پر بات کی کہ کس طرح جو افراد بھیک مانگتے ہیں چاہے وہ مانگنے کے عادی ہیں یا مستحق ہیں انہیں قومی دھارے میں شامل کیا جائے، ان سے بھیک کی عادت چھڑوا کر انہیں عزت دار پیشے دلائے جائیں تاکہ وہ ایک باعزت شہری کی حیثیت سے ملک و قوم کی خدمت کرسکیں۔ اس دوران ایک دوست کی فون کال آئی وہ اُٹھا اور دور جاکر بات کرنے لگا کہ ایک ننھی منی سی بچی جس کی عمر تقریباً  سات آٹھ سال ہوگی اس کے پاس آئی اور اس کو اپنی مجبوری بیان کرنے لگی اس نےجیب سےایک نوٹ نکال کر اس کے حوالے کیا اور دوبارہ فون پر مصروف ہوگیا، کچھ دیر بعد ہمارے پاس واپس آیا اور کہنے لگا کہ ایک چیز نوٹ کرو، ہمارے پوچھنے پر بتانے لگا کہ اپنے اطراف میں ان دو ننھی منی بچیوں کی حرکات دیکھتے رہو، ہم نے دیکھنا شروع کیا، اور ان بچیوں کی پھُرتی دیکھ کر حیران رہ گئے ایک لمحہ وہ ایک ٹیبل پر دکھائی دیتیں تو دوسرے ہی لمحے وہ دوسری ٹیبل پر کسی کو اپنی مجبوری بیان کررہی ہوتی،غالباً دس سے پندرہ منٹ میں انہوں نے اندازاً پندرہ سو روپے جمع کرلئے تھے،ہم نے اندازہ لگایا کہ اگر پندرہ منٹ میں پندرہ سو روپے تو ایک گھنٹے میں تو چھے سات ہزار روپے اور اس ہی انداز میں رات گئے بارہ بجے تک محنت لگن سے کام کیا جائے تو صرف چھے گھنٹوں کی کمائی مبلغ چھتیس ہزار  بنتی ہے۔ ہم اپنی جگہوں سے اُٹھے اور چند لوگوں کے پاس جاکر سروے کیا جس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ وہ بچیاں ہر ٹیبل پر جاکر ایک ہی بات کرتیں کہ ہم نے کھانا نہیں کھایا اور ہمیں کھانے کے پیسے چاہئے کیوں کہ ایک شاپنگ مال کا فوڈ کورٹ تھا لہذا کھانے کی ضرورت بیان کرنا کسی کا بھی دل پسیجنے کیلئے کافی ہوتی ہے اور دھڑا دھڑ وہ اپنی جیبوں کے منہ ان کیلئے کھول رہے تھے۔ ابھی یہ صورتحال جاری ہی تھی کہ ایک بڑی لڑکی کی انٹری ہوئی جس کی عمر غالباً ستائیس سے تیس سال کی ہوگی اور دونوں بچیاں اس کیساتھ جاکر ناصرف بیٹھ گئیں بلکہ اپنے کارناموں کا احوال بھی سُنانے لگیں ، بس یہی وقت تھا کہ ہمارے دوستوں کا پارہ ہائی ہوگیا اور ہم اپنی ٹیبل سے اُٹھ کر ان کے پاس جا پہنچے ، وہاں جا کر ہم نے کہا کہ یہ کیا ہورہا ہے جس پر پہلے تو انہوں نے صاف انکار کیا کہ ہم نے کسی سے کوئی پیسے نہیں لئے لیکن ہمارے زور دینے پر اور مال کے سیکیورٹی گارڈ کو بُلانے پر اپنی سیٹ سے اُٹھ کر باہر کی جانب لپکیں لیکن ہمارے پیسے حرام کے نہیں تھے لہذا ہم نے اس سے اپنے پیسوں کا تقاضا جاری رکھا۔ اس دوران مال انتظامیہ بیچ میں آگئی اور اس نے گروپ لیڈر ، دونوں بچیوں اور ہمارے دو نمائندوں کو اپنے آفس میں بُلا لیا۔ آفس میں پہنچ کر حیرت انگیز طور پر انتظامیہ اور گروپ لیڈر کے دوران بےتکلف گفتگو جاری رہی۔اس دوران انتظامیہ نے واجبی سی سرزنش کے بعد کہا کہ اِن صاحب کے پیسے اِن کو واپس کریں  اور سیکیورٹی گارڈز سے کہا کہ ان کو نیچے چنچی تک چھوڑ آئیں ہمارے نمائندے بھی ان کیساتھ نیچے تک گئے جہاں نام نہاد چنچی دراصل ایک برانڈ نیو کلٹس گاڑی تھی!

ہم نے اس تمام واقعہ کے حوالے سے جب مختلف افراد سے رائے لی تو بیشتر افراد کا کہنا یہ تھا کہ ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ مال انتظامیہ بےخبر ہو ، اس قسم کے تمام معاملات میں انتظامیہ براہ راست ملوث ہوتی ہےجس کے اشیرباد کے بغیر یہ سب ہونا تقریباً ناممکن ہے، جو بھی پیسہ جمع ہوتا ہے اس کا کچھ حصہ مال انتظامیہ کو بھی جاتا ہے جس کی وجہ سے اس طرح کے گداگر گروپوں کو انتظامیہ مال میں کھُلی چھوٹ دیتی ہے۔ اس طرح کے اسپاٹ جہاں زیادہ بھیک ملنے اور زیادہ آمدنی موقع ہو اس کے باقائدہ ٹھیکےدئے جاتے ہیں ۔

جب ہم نے لوگو ں سے دریافت کیا کہ کیا حکومت اس سلسلے میں اقدامات کرسکتی ہے تو لوگوں نے کہا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس حوالے سے پارلیمنٹ کے ذریعہ کوئی قانون پاس ہو تاکہ پیشہ ور گداگری کا مکمل سد باب کیا جاسکے۔مگر اس کے ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ یہ ہوتا بظاہر ممکن نظر نہیں آتا کیوں کہ جو گروپ اس گداگری کے گھناؤنے کام میں ملوث ہیں ان کے ہاتھ مضبوط کرنے والے یہی لوگ ہیں جنہیں ہم لوگ منتخب کرکے پارلیمنٹ بھیجتے ہیں۔ایک صاحب نے اس بات کا بھی خیال ظاہر کیا کہ ، اس کاروبار میں بڑے بڑے نام شامل ہیں جن میں انڈر ورلڈ اور سیاست دان بھی ملوث ہیں، زیادہ کمائی والے بعض علاقوں کی باقائدہ خرید و فروخت ہوتی ہے۔یہ افراد جن جگہوں پر اپنی ڈیوٹیاں سرانجام دیتے ہیں ان کے سرپرست ان کی مکمل نگرانی کرتے رہتے ہیں جو کہ کسی بھی مسئلہ کی صورت میں فوراً ردعمل ظاہر کرتے ہیں اور مار پیٹ سے بھی گریز نہیں کرتے، علاقہ پولیس بھی ان کے ساتھ ملی ہوتی ہے لہذا ان معاملات میں پولیس سے شکایت بھی مؤثر ثابت نہیں ہوتی۔

بعض افراد کا کہنا تھا کہ ہم نے مال میں جو کچھ کیا اس کا کوئی خاطر خوا ہ نتیجہ برآمد نہیں ہوا اس لئے ہمیں اس معاملہ میں ہاتھ ڈالنا نہیں چاہئے تھا اور اگر معاملہ شروع کیا تھا تو اس کو مکمل کرنا چاہئے تھا۔ان کا کہنا تھا کہ مال میں موجود لوگوں کی مدد سے پولیس کو اس سارے معاملے میں شامل کیا جاتا تاکہ اس واقعہ کی مکمل تحقیقات ہوتیں اور ذمہ داران کا تعین ہوپاتا تاکہ ان کے خلاف کوئی مؤثر کاروائی کی جاسکتی ، مگر چونکہ یہ سب نہ ہوسکا لہذا ان کے نزدیک یہ سب بےسود رہا۔

جہاں کچھ لوگوں نے اس جانب بات کی وہیں کچھ افراد نے بالکل ہی نئے پیرائے پر اظہار خیال کیا، ان کا کہنا تھا کہ جب حکمران ہی دوسرے ممالک کے آگے بھیک مانگیں گے تو آپ کیسے اس کلچر کو نیچے اترنے سے روک سکیں گے۔ ایک دوست نے ان الفاظ میں اظہار خیال کیا کہ، " میں نے تو حرم پاک کے عقب میں روڈ پر بھی اپنی ہی قوم کے افراد کو بھیک مانگتے دیکھا اور سارا وقت اس بات کی حسرت ہی رہی کے کسی اور قومیت کے بھکاری کی شکل دکھائی دے، اللہ ہی اس قوم کی بھوک دور کرے ، نہ تو اس کے حکمران کھا کھا کر سیر ہوئے اور نہ ہی یہ قوم"، ایک اورصاحب نے بھی کچھ ایسا ہی کہا کہ جہاں تمام سفیر اپنے اپنے درجے پر دوسرے ممالک سے بھیک مانگتے ہیں وہاں ایک انفراد ی شخص کے بھیک مانگنے پر تعجب نہیں ہونا چاہئے۔ ایک اور صاحب نے کہا کہ "وہ قوم جو خود آئی ایم ایف کے قرضے اور ڈبلیو ایچ او کے صدقے پر چلتی ہو ان کو اتنی راست گوئی زیب نہیں دیتی"۔

کوئی بھی اٹھایا گیا انفرادی قدم اس وقت تک مؤثر ثابت نہیں ہوسکتا جب تک اس کو قانون کی شکل دے کر حکومت کی جناب سے نافظ نہ کیا جائے ، جیسے شادیوں میں خرچے کم کرنے کی نصیحت کی جاتی رہی لیکن جیسے ہی حکومت کی جانب سے ون ڈش کا قانون پاس ہوا سب راہ راست پر آگئے تھے بالکل اس ہی طرح شادی ہالوں کی رات بارہ بجے کے بعد بندش کا معاملہ ہے، بالکل ایسے ہی جب حکومت اس گداگری کے مسئلے کو سنجیدگی سے لے گی اور اس کو ایک قانون کی شکل دے کر اس کو بزور ِقوت نافذ کرے گی اور ذمہ داران کا تعین کرکے اس پر ایکشن لے گی تو بہت ممکن ہے کہ یہ قصہ کچھ ہی عرصہ میں ماضی کا حصہ بن جائے۔

(سید اویس مختار)

Wednesday, August 5, 2015

جہیز

(میرا یہ فیچر آپ جسارت سنڈے میگزین کی 2 اگست 2015 کی اشاعت میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔ شکریہ)
 
 
 
جہیز! (تحریر: سید اویس مختار)
کمپیوٹر پر مختلف آنلائن شاپنگ ویبسائٹ پر سر کھپاتے دیکھ کر بالآخر میں نے اس کا کاندھا تھپتپا کر پوچھ ہی لیا۔۔۔ "کیا تلاش رہے ہو بھائی؟" اُس نے کہا، "بیڈسیٹ اور مختلف گھریلو اشیاء۔۔۔" وجہ پوچھی تو جواب ملا: "عنقریب شادی ہے!"
"تو۔۔۔ جہیز؟" بالآخر میں نے بھی یہ سوال کرلیا۔۔۔ اس نے سکون سے میری جانب دیکھا اور کہا: "جہیز کی تو کہانی ہی نہیں کرنی یار! کیا میں اِس قابل نہیں ہوں کہ یہ چیزیں خود خرید سکوں؟"
اُس لمحے اس کی سوچ پر بہت رشک آیا۔ دل چاہا اس مرد مجاہد کو سُلوٹ پیش کروں۔ مانا یہ سوچ بہت اچھی ہے ۔۔۔ مگر افسوس اُتنی ہی نایاب ہے!!
سوچتا ہوں بڑے بزنس مین، اعلیٰ کلاس کے پروفیشنلز، پوش علاقوں میں لاکھوں کڑوڑوں روپے کے گھروں میں رہنے والوں کے پاس جب ٹرک بھر کر مانگے کے جہیز کی صورت میں ایک لعنت آتی ہوگی تو کیسا لگتا ہوگا؟ مردانگی کا تقاضا تو یہی ہے کہ چُلو بھر پانی میں ہی شرم سے ڈوب مرا جائے، مگر کم ہی ایسا ہوتا ہے!
حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ جب قبل اَز شادی اکثر نوجوانوں (باتوں کے شیروں) سے رائے لی جائے تو جہیز کی شدید مخالفت کرتے نظر آتے ہیں مگر جب وہی جہیز جِسے لعنت سے تشبیہ دیتے نہیں تھکتے انہیں دیا جاتا ہے تو اس لعنت کو اپنے ماتھے کا جھومر بناتے انہیں شرم نہیں محسوس ہوتی۔
وہ تو پھر الگ ہی موضوع ہے جہاں جہالت کی بنیاد پر نہ صرف جہیز مانگا جاتا ہے بلکہ کم ملنے پر رشتے ریجیکٹ اور بعد از شادی لڑکی کو اذیتیں دی جاتی ہیں۔ یہ تو موضوعِ گفتگو نہیں اس وقت یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ وہ کیا وجوہات ہیں جِن کی بناء پر ایک پڑھا لکھا، اَپر مِڈل کلاس اور مالی طور پر مستحکم لڑکا جہیز لینے پر شرم محسوس نہیں کررہا؟
جب میں نے یہ سوال سماجی رابطوں کی ویبسائٹ پر اپنے دوستوں اور رابطے میں رہنےوالوں سے کیا تو میرا سامنا متفرق خیالات کے افراد سے ہوا، کئی باتیں اور جہتیں نئی پتا چلیں جنہیں آپ سے بیان کرتا چلوں۔
ہم نے صحافت سے وابستہ مڈل کلاس سے تعلق رکھتے چند افراد سے رابطہ کیا جن کا خیال تھا کہ ، ہمارے یہاں کچھ مڈل کلاس فیمیلیز ایسی بھی ہوتی ہیں جو اپنی بیٹیوں کو خود جہیز دینا چاہتی ہیں اور جب لڑکے یا اس کے گھر والوں کی جانب سے جہیز کے لئے منع کیا جائے تو بجائے اس کا خیرمقدم کرنے کے اُلٹا ناراض ہوجاتے ہیں جس کہ وجہ وہ کچھ یوں بیان کرتے ہیں کہ " ہم کوئی گِرے پڑے لوگ نہیں نہ ہی ہماری دُختر کوئی یتیم لڑکی ہے!" اور اگر اس سب صورتحال میں لڑکا اگر اپنی جانب سے سختی کرے تو اُسے اَکھڑ مزاج اور سخت طبیعت کا سمجھا جانے لگتا ہے۔ یہ دراصل ایک مائینڈ سیٹ ہے جسے تبدیل ہونے کی ضرورت ہے اور یہ کوشش دونوں خاندانوں کی جانب سے ہونی ضروری ہے۔
پیشے کے لحاظ سے صحافت سے وابستہ ایک متوسط گھرانے کے فرد نے بیان کیا کہ انہوں نے اپنی شادی میں اس بات پر پورا زور لگایا تھا کہ کسی بھی قسم کا جہیز نہ لیا جائے، ان کا موقف یہ تھا کہ لڑکی کو گھر والوں نے پڑھا لکھا دیا اب جبکہ وہ لڑکے کے گھر جارہی ہے توپھر اُس کی ساری ذمہ داری لڑکے کے ذمہ ہے۔ان کی کوششوں سے شادی سادگی سے ہوئی مگر اس دوران دونوں گھرانوں میں مکمل ذہنی ہم آہنگی ہونے کے باوجودسسرال "عجیب سے احساس " کا شکار رہا۔ معلوم یہ ہوتا ہےکہ ایسی تمام رسموں میں سماجی دباؤ اس قدر زیادہ ہے کہ چاہتے نہ چاہتے ہوئے بھی ایک فرد اس میں ملوث ہوجاتا ہے ، اور بہت بات ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ اپنی سی کوشش کرنے کے بعد ہار کر اپنے آپ کو حالات کے دھارے پر چھوڑ دیتا ہے ۔
جہاں کچھ افراد کی یہ رائے تھی وہیں کچھ افراد کا خیال ہے جہیز ایک لعنت نہیں بلکہ مانگ کر اور خواہش کرکے لینے والا جہیز ایک لعنت ہے۔کم اور مناسب جہیز دینا تو ہمارے پیارے نبیﷺ سے ثابت بھی ہے۔ لیکن اگر لڑکی والے ہی جہیز دینے پر بضِد ہوں تو اِس کو مجبوری سمجھ کر مان لیا جائےتاکہ سارے معاملے میں کسی کی دِل آزاری نہ ہو۔
اس سلسلے میں ہمارے ایک دوست نے ایک دلچسپ واقعہ سنایا، کہتے ہیں کہ انکے ایک دوست نے اپنی پوری کوشش کرکے لڑکی والوں کو جہیزنہ دینے پر رضامند کرلیا تھا ، شادی کے کچھ دن بعد ان کے گھر ایک فریج کا پارسل آیا، بڑے حیران ہوئے کیوں کہ انہوں نے آرڈر نہیں کیا تھا خیرجب اس کو کھولا گیا تو اس پر لگی پرچی پر لکھا تھا کہ ، "خالہ کی جانب سے اپنی بھانجی کیلئے تحفہ پُرخلوص"۔جب بیگم سے دریافت کیا تو انہوں نےبھی کہہ دیا کہ انہیں اس بارے میں علم نہیں۔اس کےبعد کیا تھاہر دوسرے دن کسی کی جانب سے تحفہ آ جاتا اور یوں دو ہفتے میں ہی جہیز پورا ہو گیا۔
جہاں کچھ افراد نے اس قسم کے واقعات سُنائے وہیں ایک دوست نے اپنی رائے کا اظہار کچھ یوں کیا کہ خود فرمائش کرکے جہیز کے نام پر من پسند چیزوں کا حصول اور اس کیلئےضد اور اختلاف کرکے روایتی لڑکے والے ہونے کا ثبوت دینا انکے نزدیک ایک نہایت شرمناک فعل اور سراسر ظلم ہے! غیروں کی اندھی تقلید اس رسم کو پھیلانے اور اس کو مضبوط کرنے کی ایک بڑی وجہ ہے ۔ یہ ہمارے اجتماعی جاہلانہ طرز عمل کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ لڑکے والوں کی جانب سے جہیز کی ڈیمانڈ نہ ہونے کے باوجود بھی لڑکی والے اپنے دِل میں نہ صرف خوف رکھتے ہیں بلکہ بہت کچھ دے دلا کر اپنی تَسلّی مکمل کرتے ہیں! اس کا حل یہ ہے کہ سب سے پہلے تو لڑکا خود اپنے اندر اور اپنے گھر والوں میں شعور پیدا کرے، پھر لڑکی والوں کو یہ بات پیار سے سمجھائی جائے اور اس بات کا یقین دلایا جائے کہ جہیز نہ لینے کی وجہ سے کبھی بھی اس ازدواجی تعلق میں دراڑ نہیں ڈالی جائیگی۔لڑکی اپنے باپ کی شہزادی ہوتی ہے اور گھر والوں کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اس کو ایسے تحفے دیں جو کہ دیر پا ہوں تاکہ وہ اس کو آئندہ زندگی میں استعمال میں لا سکے، اس لئے اگر وہ اپنی خوشی سے ضروری اشیا ء دینا چاہیں تو ضرور دیں مگر اس کو شادی کا ایک اہم جُز بنا دینا یا اس سلسلے میں لڑکی والوں کو مجبور کرنا سراسر ایک ظلم ہے۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ہم جہیز تو خوب دیتے ہیں مگر لڑکی کےجائیداد میں اصل حق میں ڈنڈی مار جاتے ہیں حالانکہ جہیز فرض نہیں بلکہ جائیداد میں حق دینا ایک فرض عمل ہے مگر رسم و رواج میں جکڑے معاشرے میں یہ پُکار نقار خانے میں طوطی کی آواز سمجھی جاتی ہے۔
اِن آراء سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہےکہ ایک بڑی تعداد یہ بات جانتی ہے کہ بھاری جہیز لینا اور دینا نہ صرف ایک غلط روایت ہے بلکہ یہ لڑکی والوں پر شادی کے اخراجات کے علاوہ ایک اضافی بوجھ اور رقم ہے جوکہ دینا ناگزیر سمجھا جاتا ہے۔اس ادراک کے باوجود اس مسئلہ کو سمجھنے اور تدارک کیلئے آج کا نوجوان کوئی ٹھوس اور عملی قدم اُٹھانے پر تیار نہیں اور نہ اس سلسلے میں کسی تلخی کو جھیلنے کیلئے راضی ہے بلکہ وہ اس رسم کو قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کرتا ہے۔ یوں یہ روایت ہر گزرتے سال کے ساتھ نہ صرف مزید پُختہ ہوتی جارہی ہے بلکہ اس میں جدت ، نمود و نمائش ، فضول خرچی بھی جَڑ پکڑتی جارہی ہیں جس کا نتیجہ مزید مسائل کی صورت میں نکل رہا ہے۔
جب مضبوط کردار کا حامل ایک لڑکا اس بات کا عہد کرلے کہ وہ کسی بھی قبیح رسم کا حصہ نہیں بنے کا تو پھر اس کو نہ معاشرہ کی فرسودہ روایات اپنے موقف سے ہٹا سکتی ہیں اور نہ ہی کسی کی زور زبردستی ، ہاں یہ ضرور ذہن میں رکھا جائے کہ معاشرے میں اس رسم کو سُدھارنے کا بیڑا جب بھی آپ اُٹھائیں گے تو راستے میں رُکاوٹوں کا آنا ناگزیر ہے لیکن مردانگی کا ثبوت یہی ہے کہ ان تمام رُکاوٹوں کا بہادری کیساتھ مقابلہ کیا جائے۔
سید اویس مختار

Monday, July 20, 2015

عید تو بچوں کی ہوتی ہے !


عید تو بچوں کی ہوتی ہے !

تحریر: ابنِ سید (سید اویس مختار)

 

مجھے یاد ہے کہ اس دن کافی گہما گہمی تھی، سارے بچے گھروں سے باہر نکلے گلی میں کھیل کود رہےتھے سب نے صاف اور پیارے پیارے کپڑے پہنے ہوئے تھے ، ہم نے بھی اچھے اچھےکپڑے پہنے  اور لگے اپنی گلی میں کھیلنے، چونکہ امی نے نئے کپڑے پہنائے تھے لہذا سختی سے تاکید کی تھی کہ کپڑے خرا ب نہ ہوں اس ہی لئے زیادہ کھیلے بِنا ہی فوراً گھر واپس آگئے۔ امی سے پوچھا کہ آج ایسا کیا ہے سب اتنا اچھا  کیوں ہے  تو امی نے بتایا کہ آج عید الفطر کا پہلا دن ہے ، دریافت کیا کہ کتنے دن ہوتے ہیں تو معلوم ہوا کہ یہ سب تو اگلے تین دن تک جاری رہیگا ۔۔ ۔ مگر اگلے دن اُٹھے تو سب غائب، نہ گلی میں غبارے والا تھا نہ مکئی بھننے والا، نہ ہی بچوں  کا کھیل کود اور نہ ہی گہما گہمی، یوں ہماری عید تمام ہوئی۔

ہر بچے کی طرح عید کے دن کی سب سے اچھی بات ہمیں بھی عیدی ہی لگتی تھی ، سب بڑوں سے جُھک جھک کر ملنا سر پر ہاتھ پھِروانا اور پھر ان کی جانب تقاضے سے بار بار دیکھنا ، عیدی ملتے ہی اس کو بٹوہ میں جوڑ جوڑ کر رکھنا اور پھر وقفے وقفے سے بار بار رقم گننا کہ کتنے پیسے ہوگئے ، اور پھر گننے کے بعد اپنی بہن اور دوسرے کزن سے پوچھنا کہ اُن کے پاس کتنے جمع ہوئے۔ کم ہونے پر ہاتھ ملنا اور زیادہ ہونے پر اَکڑ دِکھانا۔ کبھی تو ایسا بھی ہوتا کہ کم عیدی ہونے پر پوچھا پاچھی کرتے کہ کِس نے کِس کو کتنی عیدی دی تاکہ یہ بھی پتا چلتا رہے کہ کون کون عیدی دینے سے رہ گیا ۔ اور پھر وہ پیسے کئی کئی مہینے ایسے ہی سینت سینت کر رکھے جاتےیا پھر امی کے پاس رکھوا دئے جاتے تاکہ کسی خاص موقع پر استعمال کئے جائیں! اور تو اور دھوکے بازی بھی کس قدر معصوم ہوا کرتی تھی جب دیکھتے تھے کہ ہم کسی سے عیدی کی ریس میں ہار رہے ہیں تو وہ چینی سے بنے گُڑیا کے رنگ برنگے بال  ہوتے ہیں نا میٹھے میٹھے بس اس کے پیکٹ میں موجود لال نیلے نوٹ بھی اپنی ملکیت بنا لیتے اور پھر سب کو ساتھ گنتے ۔۔۔ ہاں ! مگر جب کام ختم ہوجاتا تو احتیاط سے ان پیسوں میں سے وہ پیسے الگ کر لئے جاتے جس پر "بچوں کو عید مبارک " لکھا ہوا کرتا تھا۔

کیا کبھی کسی نے محسوس کیا کہ عام دنوں میں بننے والا شیر خُرمہ کبھی وہ ذائقہ نہیں لا سکتاجو عید پر بنتا ہے، شاید یہ عید کا ذائقہ پورے ماحول میں رَچا بسا ہوتا ہے جب ہی تو عید کے کھانے اور شیرخرمہ الگ ہی مزہ لئے ہوتا ہے۔ عام دنوں میں شاید دوستوں اور رشتہ داروں سے میل ملاقات میں بھی وہ مزہ نہیں آتا جو کہ عید والے دن آتا ہے۔

عید کارڈ بھی کیا اچھی روایت تھی، پیارے سے دوست کیلئے اپنے ہاتھ سے خریدے، سجائے اور لکھے گئے عید کارڈ کا بھی الگ ہی سواد ہوا کرتا تھا۔ پہلے تو عید کارڈ کے اسٹال سے عید کارڈ کا حُصول ہی ایک بڑا مَعرکہ ہوا کرتا تھا جہاں سب بَڑے لڑکے لڑکیوں کا رَش ہو وہاں ہَماری باری نہ جانے کَب آتی، ہم ایک پیارا سارنگین کارڈ خریدتے پھر دکان دار سے اپنی مَعصومیت کا پورا فائدہ اُٹھا کر قیمت میں چند سِکے کَم کروا کر ایک شانِ بے نیازی سے واپس ہوتے، یہ معرکہ سَر کرنے کے بعد دوسرا معرکہ اس کی تزئین و آرائش ہوا کرتا تھا جو کہ پہلے سے ہی ہماری دراز میں موجود ڈھیر سارے رنگارنگ اسٹیکر زسے ہوجاتا تھا ، پھر اس پر شعر لکھنا ، اُس دور کے چند مشہور شعراء کے شعر پیشِ خدمت ہیں۔۔۔

روتے روتے نیند آگئی  - صبح اٹھ کے دیکھا تو عید آگئی

سَویاں پکی ہیں سَب نے چکھی ہیں –تُم کیوں روتے ہو ، تمہارے لئے بھی رکھی ہیں!

عید آئی ہے زَمانے میں- میرا یار گِر پڑا غُسل خانے میں

ڈَبے میں ڈبا ، ڈَبے میں کیک – میرا پیارا دوست لاکھوں میں ایک

آم کے رَس کو جوس کہتے ہیں –جو عید پر دعوت نہ دے اُسے کنجوس کہتے ہیں!

کچھ شعر میں ہم دوستوں کا نام بھی استعمال کرتے تھے جیسے۔۔۔

ڈَبے میں ڈَبا ، ڈَبے میں کیک –اویس مختار لاکھوں میں ایک (واہ! کیا حقیقت پر مبنی شعر ہے!)

 

آج پلٹ کر ماضی میں نظر دوڑائیں تو نظر آتا ہے کہ سب کچھ تو تھا ان بچپن کی عیدوں میں ہاں بس نہیں تھا تو یہ بناوٹ، تصنع، نمائش، خودغرضی! نہ اس وقت یہ فکر ہوتی تھی کہ کون سے برانڈ کا سوٹ پہننا ہے اور نہ ہی مہنگے سے مہنگے کپڑے خریدنے اور پہننے کی دوڑ تھی، آج کل تو گردن کے پچھلی جانب جھانک کر جب تک ایک دوسرے کے برانڈ کا ٹیگ نہ دیکھ لو تو شاید عید پوری نہیں سمجھی جاتی۔ اُس وقت مساجد کے لاؤڈ اسپیکر صرف اَخوت کا درس دیتے نظر آتے تھے مگر آج یہ بھی ندارد، ان دنوں عید کے سارے دن رشتہ داروں میں ملتے ملاتے گزرتے تھے، مگر آج تو عید کے دنوں میں کچھ اس طرح بےسُدھ سوتے ہیں کہ نہ کسی سے ملنے کا ہوش ہوتا ہے نہ ہی کسی بات کی پرواہ۔

اپنی بچپن کی عید جب بھی یاد کرتا ہوں تو آنکھوں سے چند آنسو نکل پڑتے ہیں، کبھی خوشی سے ان یادوں کو یاد کرکےاور کبھی اُن کے غم میں جو اَب ہم میں نہیں رہے اور ہم اپنائیت سے ان کے گلے میں بانہیں ڈال کر ان سے عید ملنے سے محروم ہیں!

 

اِبنِ سید (اویس مختار)

--------------

نوٹ: اس تحریر میں جناب شعیب صفدر گُھمّن صاحب ، محترمہ نورین تبسم صاحبہ اور جناب  سعد مقصود بھائی ٹیگ ہیں۔ صاحبان اور صاحبہ سے گزارش ہے کہ  اس موضوع پر اظہار خیال کرکے اردو بلاگر میں تحریک برپا رکھیں۔ ان حضرات کو ٹیگ کرنے کا یہ بھی مقصد ہے کہ اس طرز کی سرگرمی جب شروع ہوگئی ہے تو جاری و ساری رہے۔ جزاک اللہ –ابن سید  (سید اویس مختار)
Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...

Facebook Comments