Thursday, December 26, 2013

جنَّت کے مسافر


میری لائبریری کی زینت بنی یہ کتاب " جنَّت کے مسافر"، کل پڑھنی شروع کی تو پڑھتا ہی چلا گیا. یہ کتاب میرے پاس میرے ناظم کے ذریعہ پہنچی جسے میں اب تک واپس نہیں کر پایا. سرورق ایک خوبصورت شعر لکھا ہے،
وہ دیکھ چمکتی رہ گزر
کرنا ہے تجھے ہمت سے سفر
فولاد کا دل رکھ سینے میں
آئیگا مزہ پھر جینے میں
ایک کے بعد ایک شہداء کے واقعات پڑھ کر معلوم ہوا کراچی میں کن نامساعد حالات میں جمعیت نے کام کیا اور ابھی تک یہ کام چل رہا ہے باطل کے دلوں پر اسی کی بدولت ہیبت طاری ہے اور یہ ہیبت یہ "دہشت" ان کے دلوں پر طاری رہیگی جب تک یہ باطل کی سرپرستی ترک نہیں کردیتے. حافظ محمد اسلم سے شروع ہوا یہ سلسلہ نہ جانے کب بند ہو، اللہ ان تمام لوگوں کو ہدایت دے جو ماؤں سے انکے جگر گوشہ چھین لیتے ہیں، بہت ہی سخت حساب دینا ہوگا انہیں شاید یہ کبھی سوچتے نہیں ...
کیا دوسری طلبہ تنظیمیں، کیا یونیورسٹی کی انتظامیہ، کیا پولیس کیا حکومت ہر طرف سے مخالفت کے تیر ہیں اور جمعیت کا سینہ، لیکن اس پر بھی جمعیت کا عزم اور حوصلہ قابل دید ہے. کوئی اور لوگ ہوتے تو کب کے مٹ چکے ہوتے لیکن یہ جمعیت ہے.
لوگ کہتے ہیں ہم کامیاب نہیں ہوئے مجھے نہیں معلوم دوسروں کیلئے کامیابی کا اصل مفہوم کیا ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ لبرلز کی بے انتہا مخالفامہ کمپین کے بعد بھی جب نعرہ لگتا ہے "پاکستان کا مطلب کیا؟" تو جواب یہی آتا ہے "لا الہ الا اللہ" تو مجھے لگتا ہے ہمارا مقصد پورا ہوگیا!
شکیل الدین قریشی شہید کہا کرتے تھے، انسان مرے تو شہادت کی موت. ورنہ ایسی زندگی کا کیا فائدہ جو یونہی صبح شام کرتے ختم ہوجائے.

ابنِ سیّد

No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...

Facebook Comments