قصہء آدم و ابلیس جہاں بہت سے پہلوؤں سے سبق آموز ہے وہاں یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ انسان کے ازَلی دشمن ابلیسِ لعین کا اوّلین حملہ اسکی شرم و حیا اور عفّت و عصمت پر تھا۔ گویا شیطان اوّل دن سے ہی انسان میں سے حیا کے عنصر کو ختم کر کے فحش کاموں کی ترغیب دینے کی کوشش کر رہا ہے۔ جس طرح ابلیس نے ہمارے والدین حضرت آدم و حوّا (علیہماالسّلام) کو جنّت کے ممنوع پھل کی طرف اکسا کر ان کو بےلباس کیا اسی طرح یہ آج بھی انسان کو بےلباس اور بے حیا کرنے کے لیئے اپنا "جہاد" کمالِ استقامت کے ساتھ جاری رکھے ہوئے ہے۔
انسان جس کی فطرت میں اللہ تعالٰی نے شرم و حیا کا عنصر رکھا ہے آج اسے شیطان نے بری طرح بےحیائی کے جال میں جکڑ لیا ہے۔ انسانیت کی عظیم اکثریت اسکی بے لباس تہذیب کو قبول کر چکی ہے۔ بلاشبہ یہ انسانیت کی فطرت کے خلاف بغاوت ہے کہ حیا جو اسکے لئے حیات تھی اِس نے آج اسے اپنی زندگی سے خارج کردیا ہے۔
لیکن وہ بات جو اس سے بڑھ کر تکلیف دہ ہے وہ یہ کہ آج مسلمان جن کے دین میں حیا کو امتیازی حیثیت حاصل ہے، جن کے دین میں حیا ایمان کا حصہ ہے اور جن کہ پاس سے اگر حیا رخصت ہو جائے تو وہ ایمان کو اپنے ساتھ لے جاتی ہے، آج وہی امّت اپنے عالمِ پیری کے بسبب اس ابلیسی تہذیب کی اندھی تقلید کررہی ہے۔
اس سے بڑھ کر افسوس یہ ہے کہ ہم مسلمان اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ کس طرح مغربی اور مغرب زدہ میڈیا اور اس پر مسلّط دین بیزار افراد کے ذریعے ہمیں اس بے حیا تہذیب کی طرف مائل کیا جا رہا ہے۔ یہ لوگ بظاہر تو مسلمان ہیں مگراندر ہی اندر ابلیسی ایجنڈے کو پورا کر رہے ہیں۔ ان سے بھی بعض اوقات "ھمدردی" محسوس ہوتی ہے کہ ان کیلیئے اسلام ایک ایسے لباس کی مانند ہے جسے نہ یہ اتارتے ہیں کہ سرِعام رسوا نہ ہوں اور نہ اسے پورا زیبِ تن بھی نہیں کرتے کہ گھٹن محسوس ہوتی ہے۔ لہٰذا یہ دعوٰی تو مسلمان ہونے کا کرتے ہیں مگر اندازِمسلمانی یہ ہے کہ جب انھیں اپنی خواہشات کہ بت ٹوٹتے نظر آتے ہیں تو یہ ‘خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں‘ اور اسلام کی من گھڑت تاویلیں کرتے ہیں۔
یہی حال ہے کہ جب انکو اسلام کا تصوّرِ حیا اپنی آزادی یا یوں کہیئے کہ "مادر پدر آزادی" پر "تیشہ" بن کر گرتا محسوس ہوتا ہے تو یہ اپنی تاویل کے خنجر نکال کر انکا مقابلہ کرتے ہیں ۔ انکو اسلامی تعلیمات دقیانوسی معلوم ہوتی ہیں جو ان کی نظر میں آج کے ‘جدید دور‘ میں مسفٹ ہیں۔ یا پھر کمال عیّاری سے ان تعلیمات کو عرب تہذیب کا نام دیتے ہیں جنکا اسلام سے دور دور سے تعلّق نہیں۔ لہٰذا جو عورت اپنے آپکو باحجاب کرکے شیطان کے تیروں سے بچا لیتی ہے تو انھیں وہ عورت قدامت پسند محسوس ہوتی ہے۔ اور اسکا یہ عمل انسانی مساوات کہ خلاف نظر آتا ہے۔ دراصل یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے اپنی خواھشات کی خاطر اللہ کو بھلا دیا لہٰذا اللہ نے انھیں اپنے آپ سے بھلا دیا ہے۔ اب اگر ان سے قرآن و سنّت کے دلائل کے ساتھ گفتگو بھی کی جائے تو یہ نہیں سنتے۔
چنانچہ ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے برضا و خوشی اپنی خواہشات کو جنّت کے عوض اللہ کے سپرد کر دیا یے اور اسلام کو اپنا طرزِ حیات تسلیم کر لیا ہے وہ اپنی استطاعت ک مطابق ان تعلیمات پر عمل کرتے رہیں اور اپنے گھر والوں کو بھی اِن فتنوں سے بچایئں۔ جہاں تک ممکن ہو ان تعلیمات کو دوسروں تک پہنچانے کا ذریعہ بنیں۔ اور اجتماعی سطح پر بے حیائی کے خاتمے کیلیئے اپنی صلاحیتوں کو اسلامی تعلیمات پر مبنی معاشرے کے قیام کےلئے وقف کریں۔ اللہ ہم سب کو اپنے دین کی طرف پلٹنے کی توفیق عطا فرمائے اور حیا کو ھمارے معاشرے میں عام فرمائے-آمین!۔
Note: The writer Muhammad Sharjeel is an Islamic Activist / Social Media Activist. He loves to write on issues which have impact on environment. Owner of the Remove Immodesty from Media facebook page.
No comments:
Post a Comment