Friday, September 19, 2014

لاپتہ۔۔۔۔

ٹھاہ!! زناٹےدار تھپڑ کی آواز سنتے ہی کمرے میں سنّاٹا چھا گیا۔ مارنے والا خود چونک پڑتا ہے۔۔۔
"بتا!!!!! کس کے کہنے پر آیا تھا یہاں؟؟؟" ۔۔۔ "کسی کے نہیں جناب" آگے سے گھگھیاتی روتی ہوئی آواز آتی ہے ۔ "تو ایسے نہیں مانے گا" ایک اور زناٹےدار تھپڑ پڑتا ہے۔
"سر جی انہوں نے اپنے کئی سپاہی بھی زخمی کردیے سر۔۔۔" پیچھے سے ایک اور لقمہ دیتا ہے "سر جی کئی ایک تو آئی سی یو میں ہیں" ۔۔۔ "تو شرافت کی زبان نہیں سمجھے گا!!!" اس کیساتھ سب اس پر پل پڑتے ہیں۔ اور چینخوں کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ کہیں سے تھپڑ تو کہیں سے لاتیں تو کہیں سے گھونسے، گالیاں اور بپھتیاں بونس میں۔ "چل ڈھیٹ ہڈی بتادے کس نے بھیجا، لے اپنے کیپٹن کا نام، تجھے کچھ نہیں کہیں گے، چل شاباش ۔۔۔۔ ۔ فر فر بول۔۔۔ ہاں حوالدار، بیان لکھ اس کا"۔۔۔ روتے، ہکلاتے ہوئے اس نے کہا "مجھے بھیجا ہے۔۔۔" سب بغور سننے لگے۔۔۔ "مجھے۔۔۔ مجھے میرے پیٹ نے بھیجا ہے، چار دن فاقے کرنے کے بعد جب مجھ سے بھوک برداشت نہ ہوئی، بچوں کے رونے کی آوازوں نے مجھے نکلنے پر مجبور کیا۔۔میں نے سوچا جلسے میں جاؤںگا تو کچھ کھانا ہی مل جائے گا۔ ۔۔۔ بس اس ہی لئے ادھر آیا تو یک دم لاٹھی چارج شروع ہوگیا۔۔۔ سر میں تو بس۔۔ بھوک سے مجبور تھا سر۔۔۔ "۔۔۔
سب سر جھکے ہوئے تھے۔ وہ اٹھ کے جانے لگا، کسی نے روکا نہیں۔
باہر جلسے کے اسٹیج سے اعلان ہورہا تھا۔۔۔پولیس ہمارے افراد کو فوراً رہا کرے ، سینکڑوں ساتھی لاپتہ ہیں، احتجاج جاری رہیگا، دھرنا ہوگا، دھرنا ہوگا۔۔۔
ابنِ سیّد

No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...

Facebook Comments