Monday, August 25, 2014

سیاسی خودکش حملہ

image from here
میں انتظار میں تھا کہ یہ قصہ ختم ہو تو ایک آدھ تفصیلی کالم لکھوں لیکن یہ تو شیطان کی آنت اور موم کی ناک کی طرح کھنچتا اور اپنی ہیئت تبدیل کرتا جارہا ہے۔ اس وقت دارلحکومت میں ایک گروہ اپنی انا کی جنگ لڑ رہا ہے، لیکن اب گروہ سے زیادہ یہ جنگ اس لیڈر کی اپنی ذات کی اور عزت کی جنگ بن چکی ہے، ہر نیا دن ایک نیا مطالبہ اور ہر مطالبہ ڈھیروں شرائط اور پھر نتیجہ وہیں کا وہیں، لاکھوں کا مجمع چلا اور ایک لیڈر نے کھڑے ہو کر نوے ہزار موٹر سائیکلیں بھی گن لیں لیکن جب یہ مجمع دارلحکومت پہنچا تو بن دھلے کپڑے اور نئی نویلی دلہن کی طرح سکڑا سمٹا سا لگا، یہاں تک کہ لیڈران کو التجا کرنی پڑی کہ خدا کیلئے گھروں سے نکل آؤ اور اس جلسے میں شامل ہوجاؤ۔
معاملات تو اس وقت ہی شروع ہوچکے تھے جب بارہ مئی سے کچھ عرصہ پہلے عمران خان صاحب نے کہا تھا کہ ہم بارہ مئی کو دھاندلی کا ایجنڈا لے کر یومِ سیاہ منائیں گے، اس دوران (علامہ) طاہر القادری بھی اس میں شامل ہوگئے۔ کچھ لوگوں کی جانب سے اس جلسے کے اوپر بحث ہوئی تو پتا چلا عوام اب اس دھرنے، الزامات کی سیاست سے اکتا چکی ہے۔ نیا پاکستان کا وعدہ جو کہ بارہ مئی 2013 کا تھا، اب 2014 تک بھی نہ پورا ہوچکا، وہ کرپشن جو کہ 90 دن کے اندر ختم ہونے والی تھی وہ 365 دن کے بعد بھی اپنے حال کی منتظر ہے۔ غرض عوام کی سوچ بہت حد تک تبدیل ہوچکی تھی، الیکشن کے دوران خان صاحب کی مقبولیت کے حوالے سے جو سروے ہوئے بہت ممکن ہے کہ ان سرویز کا بھی نتیجہ بدل چکا ہو۔ لیکن پھر ہم نے دیکھا کہ لندن میں ایک میٹنگ کے بعد ایک بڑی تحریک کا اعلان ہوا اور دن چنا گیا 14 اگست، تحریکِ انصاف کے دوست جن میں سرفہرست جماعت اسلامی ہے کے امیر نے اس پر یہ بھی کہا کہ 14 اگست ملکی اتحاد کا دن ہے اس کو سیاست کی بھینٹ نہ چڑہایا جائے۔ لیکن جوش، طاقت، اور کسی حد تک غرور و تکبر نے اس کو رکنے ہی نہ دیا۔ کاش تحریک سے پہلے ایک اور سروے کروا لیا جاتا۔
مجھے یاد ہے الیکشن سے پہلے جماعت اسلامی اور تحریک انصاف میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی بات طے ہوئی مگر پھر تحریک انصاف کے اسی اوور کانفیڈینس نے اس کمیٹی کو آپس میں ملنے نہ دیا، نتیجہ یہ ہوا کہ تحریک انصاف صرف ایک ہی صوبہ میں خاطر خواہ کامیابی حاصل کرسکی، کراچی مکمل طور پر سپرد کردیا گیا، کہنے کا مقصد یہ کہ کاش ان غلطیوں سے سبق سیکھا جاتا، اس اوور کانفیڈینس کو کم کیا جاتا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ یہی مزاج اِدھر بھی دیکھنے میں آیا، 14 اگست مارچ کے اعلان کیساتھ ہی نہ اتحادیوں سے پوچھا گیا اور نہ ہی کسی اور سے، قادری صاحب کا اشیرباد ملا اور پھر مارچ کا اعلان ہوگیا۔
14 اگست آگئی، انقلاب جلسہ گاہ بھی نہ پہنچا، 15 اگست آگئی عوام انتظار کرتی رہی، 16 اگست جلسہ کا آغاز ہوا، لیکن عوام دیکھ کر حیران رہ گئی جب اس ہی رات عوام کے ہجوم سے سارے لیڈران رات گزارنے اپنے نرم بستروں کی جانب چل پڑے۔ یہ عوام کیلئے ایک دھچکا تھا۔ پھر اتوار بھی گزرا، پیر کو لوگوں کے آفس جانے کا وقت آگیا لیکن انقلاب نہ آسکا، پھر ٹیکنوکریٹ کی حکومت کا مطالبہ اور ہاشمی صاحب کی ناراضگی، ہاشمی صاحب مانے تو ایک اور دن گزر چکا تھا۔ پھر سول نافرمانی کا حکم آیا پھر اس پر بھی یو ٹرن لینے کے بعد ریڈ زون میں داخلے کی دھمکی ، پھر کچھ یوں ہوا کہ "جن پر تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے"۔ جی ہاں، فوج نے بیان دیا کہ سرکاری عمارات کی حفاظت فوج کی ذمی داری ہے لہذا سب اپنی اپنی جگہ پر رہیں۔ پھر ریڈ زون میں داخلہ ہوا۔ پہلے کہا گیا کہ چور ڈاکوؤں سے کوئی مذاکرات نہیں ہونگے پھر مذاکرات بھی شروع ہوئےشرائط بھی تسلیم ہوئیں۔
آج جب ان سطور کو لکھا گیا تو اس معاملے تو دس دن پورے ہو چکے ہیں، انقلاب اور آزادی کا نام ایک گالی کی صورت اختیار کرچکا ہے۔ بیشتر کالم نگار اس بارے میں اپنا اظہار خیال کرچکے ہیں اور اس کوشش کو مارشل لاء کی اس دعوتی تحریک کا نام دے چکے ہیں جس میں مہمانوں نے شرکت سے انکار کردیا۔ سوشل میڈیا میں جنگ اور طوفانِ بدتمیزی کا ایک نیا دور شروع ہوچکا ہے، چہرہ بچانے کے کئی موقع خان صاحب گنوانے کے بعد اب ایک ڈیڈ لاک میں آکر پھنس چکے ہیں اور حالت وہی ہے "کوئی امید بر نہیں آتی، کوئی صورت نظر نہیں آتی"۔عوام اس گیم سے اکتا کر چینل تبدیل کرچکی ہے۔ ایک انقلابی عوامی لیڈر اپنی غلطیوں، ناسمجھیوں اور بےاعتماد حواریوں کی وجہ سے سیاسی خودکش حملہ کرچکا ہے۔ مجھے خان صاحب اور انکے چاہنے والوں سے ہمدردی ہے اور رہیگی۔

ابن سید (سید اویس مختار)

Friday, August 15, 2014

لیڈر

اور پھر لاٹھی چارج اور آنسو گیس کی بوچھاڑ ، پولیس ہر جانب سے آکر ٹوٹ پڑی، یہ نہیں دیکھتی کہ یہ بوڑھا ہے کہ جوان، کمزور ہے کہ طاقتور، اور پھر ہم دیکھتے ہیں کہ ایک آدمی جس کی داڑھی کے بال سفید ہوچکے ہیں چٹان بن کر کھڑا ہوجاتا ہے، ڈنڈے کھاتا ہے گرفتار ہوجاتا ہے، یہاں نہ پلٹ پروف ٹرک ہے نہ کنٹینر، یہ اس وقت تک کھڑا رہتا ہے جب تک اس کے کارکناب باحفاظت گھروں کو نہ چلے جائیں، اور پھر گرفتاریاں اور قید و بند ۔۔۔ یہ ہیں قاضی حسین احمد
اور پھر میری آنکھوں نے چشمِ تصور سے یہ بھی دیکھا کہ مصر کا رابعہ اسکوائر ہے اور وہاں پر تاریخ کا بد ترین قتل عام کیا گیا، ڈھیروں لوگ مارے گئے، اندھا دھند فائرنگ، مارنے والے پولیس والے بھی ہیں اور غیر پولیس والے بھی جو اونٹوں پر تلواریں لئے جھنڈ میں بلا تفریق سب کو کاٹ ڈالتے ہیں ۔۔۔ اور پھر ایک معروف لیڈر کی بیٹی شہادت کا رتبہ پاجاتی ہیں۔۔۔ یہ ہیں اسماء البتاجی، جو شہادت کا رتبہ پاتی ہیں اور انکے والد ملٹری آمر سیسی کے ہاتھوں گرفتار ہوجاتے ہیں۔ یہاں نہ اقرباء پروری نہ اپنی حفاظت کا معاملہ بلکہ سب سے پہلے لیڈران اور انکے اہل خانہ اپنی جانیں دینے کیلئے آگے بڑھتے ہیں ۔ ۔۔
اور پھر میں دیکھتا ہوں مرسی جو نامعلوم مقام پر قید کردیا جاتا ہے، اور پھر میں دیکھتا ہوں شیخ یاسین جو کہ ایک اپاچی کا نشانہ بنتے ہیں، اور اس ہی طرح کی ہزاروں مثالیں ۔۔ ۔
میں حیران ہوں کہ انہیں کیوں اپنی حفاظت کا خیال نہیں، کیوں یہ اتنے سر پھرے ہیں نہ بلٹ پروف جیکٹ پہنتے ہیں نہ بم پروف کنٹینر، نہ حفاظتی گارڈز کا جھنڈ رکھتے ہیں اور نہ ہی ہٹو بچو کی صدائیں، کیا انکی جانوں کو خطرات نہیں۔ ہیں! بالکل ہیں سب سے زیادہ ہیں لیکن یہ لیڈر ہیں! لیڈر! اور ایسے ہی لوگ انقلاب لاتے ہیں۔
سن لو میرے دوستوں، ٹھنڈے کمروں اور بند کنٹینروں سے انقلاب کے سوتے نہیں پھونٹتے!

ابن سید

میرے، آپکے، ہم سب کے، سراج الحق

کل ایک محفل میں ایک صاحب نے ایک واقعہ بیان کیا، لیکن بیان کرنے سے پہلے وضاحت کی کہ وہ نہ جماعت کے کارکن ہیں نہ ہی حامی یا سپورٹر، لیکن وہ اس بات کے گواہ ہیں کہ وہ سراج الحق کے ساتھ ایک میٹنگ میں تھے کہ سراج صاحب کے موبائل پر انکے گھر سے کال آئی اور یہ اطلاع دی گئی کہ گیس والے لائن کاٹ کر چلے گئے ہیں ۔ ۔ ۔ اس ہی محفل میں بیٹھے ایک اور صاحب نے یہ واقعہ بھی سنایا کہ سراج صاحب جب الیکشن کمیشن اپنا نامزدگی کا فارم جمع کرانے لے گئے تو پریزائڈنگ افسر نے یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ آپکی بینک اسٹیٹمنٹ تو کہہ رہی ہے کہ آپکے اکاؤنٹ میں صرف #تین سو روپے ہیں، آپ الیکشن کیسے لڑیں گے، سراج صاحب نے جواب دیا کہ الیکشن پیسوں سے نہیں بلکہ عوام کی حمایت سے لڑا اور جیتا جاتا ہے، بعد ازاں سراج صااحب نے یہ کر بھی دکھایا۔ اس واقعہ کی اطلاع کسی طرح جماعت کے احباب کو ہو گئی اور اگلے ہی دن سراج صاحب کے اکاؤنٹ میں بہت سے افراد نے پیسے بھیج دئے جو کہ لاکھوں میں تھے۔ سراج صاحب نے وہ پیسے فوراََ ہی جماعت اسلامی کے اکاؤنٹ میں یہ کہہ کر ٹرانسفر کردئے کہ یہ پیسے مجھے نہیں بلکہ جماعت کو دئے گئے ہیں۔
پاکستانی ساری زندگی ایسے لیڈر کی تلاش میں رہے جو ان کا اپنا ہو، جو عوام میں سے ہو، جو عوام کا درد سمجھے، جو انکی بھوک پیاس کی تڑپ کو سمجھ سکے، لیکن جب ایک ایسا لیڈا 'سراج الحق' کی صورت میں انکے سامنے آتا ہے تو نہ جانے کیوں وہ اس سے نظریں چرا لیتے ہیں، شاید عوام ایک اچھے اور خدا ترس لیڈر کے قابل اب تک نہیں ہو سکے!

سید اویس مختار

پاکستان کا اصل چہرہ

Image link
آؤ تمہیں بتاؤں پاکستان اور پاکستانیوں کے بارے میں، آؤ بتاؤں کہ اس بم دھماکے اور ڈرون پٹاخے کی سرزمین میں اور بھی بہت کچھ ہے جسے تم بھی جانتے ہو، میں بھی جانتا ہوں لیکن ان خوبیوں سے نہ جانے کیوں انجان اور خامیوں پر شور مچاتے۔۔۔ کیوں آخر۔۔۔
آؤ کہ تمہیں بتاؤں، یہی وہ سرزمین ہے جو اسلامی ایٹم بم کی وجہ سے منفرد ہے. یہی زمین آفریدی کے چھکوں کی وجہ سے پہچانی جاتی ہے. اس زمین نے اسوکائش چیمپئن جان شیر خان کو جنم دیا تھا. یہ ہم ہی ہیں کہ جب بھی دنیا کے کسی کونے میں کسی مسلمان کو کچھ گزند پپنچی تو سب سے پہلے آواز بلند کرتے ہیں. یہ ہم ہی ہیں کہ اس_سے_کیا_ہوگا کی مایوس آوازوں پر کان نہیں دھرتے بلکہ ہر مصیبت کے موقع پر خود آگے بڑھ کر مدد کرتے اور کام کرتے ہیں. ہم وہی ہیں جن کے بارے میں کئی دفعہ پیشین گوئیاں اور بقا کی ڈیڈلائن کے اعلانات ہوئے پھر بھی قائم و دائم ہیں. یہی وہ سرزمین ہے جس سے میرے حبیب کو ٹھنڈی ہوا کے جھونکے آتے تھے. یہی وہ زمین ہے کہ جس نے دنیائے علم و عمل میں بڑے بڑے ناموں کو اور بڑا کیا، لیاقت علی خان، اقبال، جناح کی سرزمین یہ مولانا مودودی، ڈاکٹر اسرار اور عبدالرشید غازی کی سرزمین. یہ دنیا کی سب سے زیادہ پھیلنے والی مڈل کلاس، یہ دنیا میں سب سے زیادہ نوجوان رکھنے والی قوم، یہ دنیا میں سب سے زیادہ بیرون ملک افراد رکھنے والی قوم لیکن دل سب کے ایک ہی آواز پر دھڑکتے ہیں.
یہ شدت پسندی (کسی بھی طرح کی) کو مسترد کردینے والی قوم، یہ اپنے ظالم حکمرانوں کیخلاف بہادرانہ تحریکیں چلانے والی قوم، یہ جمہوریت اور اسلام پسند، یہ اپنی پیدائش سے اب تک چار آمریتوں کو بزور قوت ہٹا کر برباد کردینے والی قوم۔
یہ وہ قوم کہ بیرونی کوششوں نے لاکھ اپنی سی کوشش کرلی لیکن آج بھی جب نعرہ لگتا ہے پاکستان کا مطلب کیا تو جواب ایک ہی آتا ہے۔۔

لا الہ الا اللہ

Tuesday, August 5, 2014

(قاتل طیارے) گیم آف ڈرونز! - دوسرا حصہ

image frm here
مئی 2013 میں پشاور ہائی کورٹ کے ایک جج نے فیصلہ سنایا کہ ڈرون حملے غیر قانونی ہیں اور حکومت کو ہر ممکن اقدام کرکے انہیں روکنا چاہیے چاہے طاقت کا استعمال ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔اس ہی دوران ایک بین الاقوامی ادارے نے رپورٹ شائع کی کہ عسکریت پسندوں سے نمٹنے کے لئے یہ طریقہ کسی طور بھی مناسب نہیں کیوں کہ اس سے بجائے مسائل حل ہونے کے اور گھمبیر ہونگے۔اس کے کچھ ہی دن بعد عسکریت پسندوں کی جانب سے دھمکیوں کے بعد حملے شروع ہوگئے۔مضحکہ خیز صورتحال اس وقت پیش آئی جب نواز شریف نئے نئے الیکٹ ہو کر آتے ہیں اور آتے ہی ڈرون روکنے کا حکم جاری کرتے ہیں جس کے کچھ دن بعد ہی ایک اور ڈرون حملہ ہو جاتا ہے! غرض اس ہی طرح کے بیانات جاری ہوتے رہے اور ڈرون ان بیانات کو تمسخر اڑاتے رہے!
اسٹینفرڈ یونیورسٹی کی ایک ریسرچ کے مطابق ڈرون حملوں کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، 2012 میں ہونے والے ایک سروے کے مطابق صرف سترہ فیصد افراد نے ڈرون کی حمایت کی تھی۔ جب کہ ایک اور ریسرچ کے مطابق ستانوے (97) فی صد افراد ڈرون کو ایک غلط پالیسی سمجھتے ہیں! پاکستان کی مذہبی جماعتوں کی جانب سے (خصوصا جماعت اسلامی اور جمعیت علماء اسلام)گاہے بگاہے ڈرون کے خلاف غم و غصہ کا اظہاری کیا جاتا رہا، کبھی مظاہروں کی صورت میں تو کبھی مختلف بیان دئے جاتے رہے۔ اکتوبر 2012 میں پاکستان کی تحریک انصاف کی جانب سے بھی ایک امن مارچ کیا گیا، جس میں اس بات کا عزم کیا گیا کہ دنیا کو ان ڈرون کے بارے میں اپنے جذبات کا اظہار کیا جائے گا، پاکستانی طالبان کی جانب سے اس امن مارچ کا خیر مقدم کیا گیا تھا اور اس ریلی کو سیکیورٹی فراہم کرنے کی پیش کش بھی کی گئی تھی! عوامی جذبات کے اظہار کے لئے جماعت اسلامی سب سے آگے رہی اور اس مسئلہ کو پوری دنیا میں روشناس کرایا جس کے بعد یہ بات بھی سامنے آئی کہ ڈرون حملے صرف پاکستان میں نہیں دیا کے اور ممالک میں بھی کئے جاتے رہے۔
ابن سید


دنیا کے اور ممالک میں کہاں کہاں ڈرون کا استعمال اور کن لوگوں پر استعمال کیا گیا، اس بارے میں انشاء اللہ اس سلسلے کی اگلی کڑی میں بات کریں گے
Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...

Facebook Comments