Thursday, June 25, 2015

یہ لوگ ہیں ذرا ہٹ کے!

یہ لوگ ہیں ذرا ہٹ کے!
تحریر: سید اویس مختار (ابن سید)
(یہ تحریر آپ ایکپریس نیوز کے بلاگز صفحہ پر یہاں ملاحضہ کرسکتے ہیں)

ہر جانب ہر کوئی دوڑتا بھاگتا دکھائی دیتا ہے، بائیکس جو زن زن کی آواز کرتیں گیٹ سے اندر داخل ہورہی ہوں یا پھر گاڑیاں جن کے چرچراتے بریک یونیورسٹی کی پاکنگ میں دھول اڑاتے ہوئے، پھر ان میں سے نکلتے سپوت، کلاسوں کی جانب بھاگتے دوسری جانب اساتذہ کی کلاسوں کی جانب دوڑ، پھر کلاس کے اندر "سب سے پہلے" سبق ختم کروانے کی دوڑ، پچاس منٹ کی اس کلاس میں ہم نے یہ سیکھا کہ فلاں پرابلم جو کہ فلاں سائنسدان نے فلاں وقت حل کی تھی، اس کو آج ہم بالکل اس ہی طرح سے دوبارہ حل کریں گے! کارنامہ! دن کا اختتام اس بات پر ہو کہ کس نے کتنے ریاضی کے سوال حل کئے تو کس نے "کتنے صفحات" پر مشتمل جوب لکھا۔ یہ پرچوں ، سوالوں، جوابوں کی گنتی میں کس کے پاس وقت ہے کہ سوچے کہ جو کچھ یہ کر رہے ہیں اس سے دنیا میں کیا تبدیل ہونا ہے؟
آئین اسٹائن ، ایڈیسن، رائٹ برادران، ابن الہیثم، البیرونی، یہ لوگ زیادہ نمبر اور نصاب مکمل کرنے کی بھاگ دوڑ کا حصہ نہیں رہے، بلکہ انہوں نے اپنے خیالات کا محور دنیا میں مثبت تبدیلی کو بنایا۔ کچھ ہٹ کر کرنے کو بنایا۔
میں کلاس میں داخل ہوتا ہوں، استادِ محترم تیز رفتار میں سبق ختم کرانے کی دھُن میں مگن، تو دوسری جانب طلباء اس سبق کو ویسے کا ویسا اُتارنے میں مگن ہیں، کسی میں اتنا دم اور وقت نہیں کہ سَر اُٹھا کر دیکھ لے، سب کو دھڑکا لگا ہوا ہے کہ اِدھر دیکھا تو اُدھر دنیا کی دوڑ میں پیچھے رہ جاؤنگا، کوئی سوال بھی پوچھتا ہے تو وہ بھی ان حدود میں رہ کر جن حدود کی اس کو اجازت ملی ہے اس سے آگے کا سوچنا تو جیسے نری بیوقوفی ہے۔۔۔!
اساتذہ کو جانچا جاتا ہے کہ کس نے کون سا سبق کتنا جلدی ختم کیا، تو طلباء کو جانچا جاتا ہے کہ کس نے کتنا یاد کیا اور کتنے فیصد نمبر لئے۔۔ لیکن اس بھاگ دوڑ سے دور ایک فرقہ ان لوگوں کا بھی ہے، کہ ۔۔
جو جب چاہتے ہیں پڑھتے ہیں، جو چاہتے ہیں پڑھتے ہیں، کوئی مخصوص نصاب ان کے سامنے حَد بنا کر کھڑا نہیں ہوتا نہ ہی امتحانات کی ڈیڈلائن اور نمبر کی دوڑ ان کو اُنکے مقصد سے ہٹا پاتی ہے، یہ جتنا چاہتے ہیں اپنی تحقیق میں ڈوب جاتے ہیں لوگ انہیں دیکھ کر پاگل مجنوں اور نہ جانے کیا کیا کہتے ہیں۔۔۔ مگر ۔۔۔ یہی تو وہ فرقہ ہے جو دنیا میں تبدیلی لاتا ہے، البیرونی، ابن الہیثم، رایٹ برادران ان میں سے ہی نکلتے ہیں! تو اگر تم بھی دنیا میں کچھ کرنا چاہو تو کچھ الگ کرو، کچھ ہٹ کے کرو! اس "زیادہ نمبروں"، "سب سے پہلے"، "مکمل سبق"، "محدود نصاب" سے آگے بڑھ کر سوچوں۔ کیوں کہ شاہیں جتنا زیادہ ہوا کے مخالف اُڑتا ہے اتنا ہی زیادہ اونچا پرواز کرتا ہے!

سید اویس مختار (ابن سید)

 

Saturday, June 20, 2015

انٹرنیٹ دوستی کے مضر اثرات

انٹرنیٹ دوستی کے مضر اثرات
(آپ میرا یہ بلاگ "ایکسپریس نیوز بلاگ" میں یہاں ملاحضہ کرسکتے ہیں)

 کچھ دن قبل نوجوانوں کی جانب سے منعقد کردہ ایک ٹیلنٹ شو میں جانا ہوا، نوجوانوں نے جم کر اپنے ٹیلنٹ کا مظاہرہ کیا۔ موسیقی، ڈانس، مزاح، ماڈلنگ، اس ہی شو میں ایک تقریری سیشن بھی تھا، رحیم اللہ یوسف زئی جو کہ ماس کمیونیکیشن کے طالبعلم ہیں نے انٹرنیٹ پر نوجوان لڑکے لڑکیوں کی باہم دوستی کے مُضر اثرات پر ایک نہایت پیاری تقریر کی، تقریر کے الفاظ میرے ذہن میں اترتے جارہے تھے، مجھے وہ دور یاد آنے لگا جب میں نَیا نیا انٹرنیٹ کی اس دنیا میں داخل ہوا تھا۔
وہ بھی کیا زمانہ تھا جب ایم آئی آر سی، آئی سی کیو اور ایم ایس این میسنجر استعمال ہوا کرتا تھا۔ فیس بُک کی طرح اس میں تصویر، ٹائم لائن، دوستی، وغیرہ کا آپشن نہیں ہوتا تھا (یاد رہے میں کافی پرانا یوزر ہوں) لہذا دوستیاں بنانے کیلئے آپ کو ساری محنت خود ہی کرنی پڑتی تھی، سب سے پہلے تو جس سے بات کرنی ہے اس کا ایمیل ایڈریس معلوم کرنا ہی بہت بڑا معرکہ ہوا کرتا تھا، اس چکر میں کبھی کسی اور کا ایمیل ایڈریس ہاتھ لگ جاتا، کبھی دوست احباب آپ کو غلط ایڈریس پکڑا دیتے اور آپ مہینوں بیوقوف بنتے رہتے، اس حوالے سے مجھے ایک مزیدار قصہ یاد ہے جس کا مرکزی کردار میں خود ہوں، ہوا یوں کہ ایک دوست (میری فرینڈ لِسٹ میں ابھی بھی ایڈ ہیں) نے ہماری ایک کلاس فیلو کا ایمیل ایڈریس مانگا جس سے ہماری کافی دوستی تھی، یوں تو ہم خدائی خدمتگار تھے لیکن اس دن دل نے شرارت پر لَلچایا تو ایک الگ ایمیل ایڈریس بنا کر اُن کو تَھما دیا۔ فیک پروفائل تو آج کے فیس بُکی دور کی پیداوار ہیں ہم تو فیک ایمیل کے دور کے ہیں۔ خیر ہمارے دوست صاحب نے خوشی خوشی چیٹ شروع کردی، اِدھر ہم نے ان کو پندرہ دِن تک چکر دینے کے بعد ان سے پھول کی فرمائش کردی وہ بھی عین چھٹی کے وقت جب گیٹ کے پاس کافی رَش ہوتا ہے، موصوف نے اگلے ہی دن لال گلاب ہاتھ میں پکڑا اور ہماری اُن دوست کے پاس آدھمکے۔۔۔ آگے کی کہانی یہ ہے کہ کافی دن ناراض رہے، لیکن دوست تھے آخر جاتے بھی کدھر۔۔۔
تو میں کہہ رہا تھا کہ پہلا مرحلہ ایمیل ایڈریس کا معلوم ہونا اور پھر بات چیت کی شروعات، فیس بُک کی طرح اس وقت ایم ایس این میں تصویر کا آپشن نہیں ہوا کرتا تھا، نہ ہی فائل ٹرانسفر ہوا کرتی تھی (یا پھر انٹرنیٹ سروس کی جانب سے فائل ٹرانسفر بلاک ہوتی تھی) خیر۔۔ پھر تصاویر کا تبادلہ ہوا کرتا تھا اور پھر تان فون نمبر پر آکر ٹوٹتی۔۔ پھر وہی فون پر باتیں ۔۔ اور بالآخر زندگیوں کا تباہ ہونا۔۔۔ آپ بولیں گے کہ اویس کس قدر بےتُکا ہے، اتنی اچھی کہانی لکھتے لکھتے اپنا مولوی پن نہیں چھپا سکا۔
لیکن حقیقت یہی ہے، نیو ملینیئم کی شروعات تھی، پاکستان میں انٹرنیٹ کا ابتدائی دور تھا اور پاکستان میں اخبارات اس ہی قسم کی کہانیوں سے بھرے ہوتے تھے کبھی خبر آتی کے کسی نے کسی لڑکی سے دوستی کے لارے دے کر اس کو سارے عالم میں بدنام کیا گیا، تو کبھی انسانی درندوں نے کسی کے ساتھ عزت کے کھلواڑ کی ویڈیو بنا کر عرصہ دراز تک اس کو بلیک میلنگ کا شکار بنایا۔۔۔ اور پھر وہ پاکستانی ہیکرز کا کارنامہ جس میں نواز دور میں چند نوجوانوں کو گرفتار کرکے سی آئی اے کے حوالے کیا گیا، پورے ملک کی جو بدنامی ہوئی وہ الگ۔ غرض انٹرنیٹ کے حوالے سے ہونہی چند یادیں آج یاد آرہی تھی اور پھر یادوں کا سلسلہ جب طویل اور پھر تلخ ہوتا گیا تو اس کو صفحہ قرطاس پر اُنڈیل دیا۔۔
آج، درندے بھی وہی ہیں، طریقے بھی وہی ہیں، مگر اب کی بار ان کے ہتھیار تبدیل ہوچکے ہیں، یہ ہتھیار مزید جدید ہوچکے ہیں۔ اب ایم ایس این کی بجائے فیس بُک اور ٹویٹر جس میں آپ کی پرسنل پروفائل جسے جس قدر بھی محفوظ بنایا جائے غیر محفوظ ہی رہتی ہے۔ آپ کون ہیں، کیا ہیں، کیا کرتے ہیں، کون کون آپ کے دوست ہیں، آپ کیا "لائیک" کرتے ہیں۔ سب آپ کی پرفائل پر موجود ہے۔ اگر آپ اس جدید ٹیکنالوجی کا مفید استعمال کرنا چاہتے ہیں تو یقیناً اس حوالے سے بہت سے مفید آپشن موجود ہیں، اور اگر آپ اس کے غلط استعمال کیساتھ ان ہی بھیڑیوں کا شکار بننا چاہتے ہیں تب بھی آپ کے سامنے تمام راستے عیاں ہیں، فرق صرف ہے تو اس بات کا کہ آپ کون سا راستہ اختیار کرتے ہیں!

ابنِ سید (سید اویس مختار)

Monday, June 15, 2015

دوڑو اُن جنتوں کی جانب۔۔۔


ڈھاکہ جیل کی کال کوٹھری ہے، آج ایک "مجرم" کو پھانسی کی سزا دی جانی ہے، پہرے دار اس شخص کو لینے آتے ہیں، کہ پھانسی گھاٹ کی جانب لے جائیں۔۔ پھانسی کا وقت ہو چکا ہے۔۔۔

کیا آپ اس شخص کی کیفیت کا اندازہ کرسکتے ہیں؟ دنیا جانتی ہے کہ جب بھی ایک مجرم کو پھانسی کیلئے لے جایا جاتا ہے تو اس کی حالت غیر ہو جاتی ہے، اول فول بکنا شروع ہو جاتے ہیں، غش کھا کر گر جاتے ہیں، بیہوشی طاری ہوجاتی ہے، نڈھال! بہت سوں کو اسٹریچر پر لاد کر پھانسی گھاٹ تک لایا جاتا ہے، کسی کے اوسان باقی ہوں تب بھی اپنے قدموں نہیں چل سکتا! یہاں تک کہ ایک ہاتھ کسی ایک کے کاندھے پر، دوسرا ہاتھ کسی اور کے کاندھے پر، پاؤں گھسٹتے ہوئے، لاد کر پھانسی کے پھندے تک پہنچایا جاتا ہے ۔۔ مگر۔۔

مگر یہ قیدی جو اس وقت کال کوٹھری میں موت کا انتظار کررہا تھا، قرآن کی تلاوت میں مشغول، جب پہرے داروں نے دروازہ کھولا تو اپنے قدموں کھڑا ہوا، لبوں پر قرآن کی سورتیں جاری، تیز تیز قدموں سے یوں مانو جیسے پھانسی کے پھندے کی جانب دوڑ رہا ہو، پہرے داروں کے لئے تو یہ ایک نئی بات تھی، ذرا سی دیر میں یہ واقعہ انٹرنیشنل میڈیا کو بھی پتا لگ گیا، پہرے دار اتنی جلدی، سُرعت، تیزی کی وجہ پوچھتے ہیں۔۔۔

جواب ملتا ہے: "مجھے تو اس پھانسی کے پھندے سے جنّت کی خوشبو آتی ہے، میں تو اس ہی جنت کا طلبگار ہوں، جب ہی تو جلد سے جلد اس کی جانب جارہا ہوں!"

جانتے ہو یہ قیدی کون تھا؟ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے رہنما جناب قمر الزماں، جنہیں اکھتر کی جنگ میں پاکستان آرمی کا ساتھ دینے اور ملک کو دو لخت ہونے سے بچانے کی پاداش میں موت کی سزا دی گئی! اللہ ان کی شہادت قبول فرمائے! آمین!


ابن سید

Saturday, June 6, 2015

ایک سوال کی کہانی: آپ کا تعلق کس سیاسی جماعت سے ہے؟

کچھ عرصہ قبل ایک جگہ انٹرویو دینے کا اتفاق ہوا، بڑا گروپ تھا، انٹرویو پینل میں کمپنی سی ای او بذات خود، ایچ آر ہیڈ اور ٹیکنیکل ہیڈ موجود تھے، کافی دیر میٹنگ چلتی رہی، (یہ اچھا لگا کہ، انٹرویو کو انہوں نے میٹنگ کا نام دیا تھا) ، بہت سے سوالات جوابات کا تبادلہ ہوا، خیر ۔۔ انہوں نے میرے سی وی پر ایک نظر ڈالتے ہوئے کہا، آپ نے لکھا ہے کہ "سوشل ایکٹیوسٹ" تو کیا اپنے سوشل ورک کے بارے میں بتائیں گے؟ میں نے ٹی سی ایف اور بیٹھک اسکول نیٹ میں سوشل ورک کا تجربہ بتایا، کہ ہم کیسے کام کرتے تھے اور کس حوالے سے کرتے تھے۔۔۔
کچھ دیر رُک کر کہنے لگے "کیا آپ کا کسی سیاسی جماعت سے تعلق ہے؟" میں نے کچھ لمحے مسکرا کر کہا، "بالکل ہے!" پوچھا "کون سی جماعت؟"، میں نے کہا، "جماعت اسلامی" مسکرانے لگے اور کہنے لگے، "آپ کو یہ بتاتے ہوئے جھجک نہیں ہوئی کہ کیا پتا میں کس سیاسی جماعت کا ہوں اور انٹرویو پر اس کا اثر ٹھیک نہ پڑے۔۔۔"
میں نے کہا، "سر دنیا بہت تیز ہو چکی ہے، اگر ابھی میں آپ کو اپنا سیاسی حوالہ نہ دوں اور بعد ازاں آپ گوگل میں میرا نام لکھ کر دیکھیں، تو آپ کو میری تصاویر کیساتھ میری جماعت کے حق میں تحریریں سامنے آئیں گی، دوسری بات، میرا دل مطمئن رہے گا کہ میں نے انٹرویو سچ کے سہارے دیا اور یہ جاب جھوٹ کی بناء پر حاصل نہیں کی، سِمپَل!"
اس جاب کے لئے میں eligible ٹھہروں یا نہیں، سیلیکٹ ہوں یا ریجیکٹ، وہ تو سب بعد کی باتیں ہیں، لیکن گھر واپسی پر پورا راستہ ایک مطمئن سی مسکراہٹ میرے چہرے پر تھی۔ آخر کو ہم سب جو بھی کرتے ہیں دل کے اطمینان و سکون کے لئے ہی تو کرتے ہیں، دل کا اطمینان ہی نہ ہو تو کیا فائدہ ایسے عمل کا۔۔۔
میرا احباب کو بھی مشورہ یہی ہے کہ چاہے کچھ بھی ہو، کبھی اپنے جماعت سے تعلق کے حوالے سے گھبرائیں اور شرمائیں نہیں، اس میں بات ٹالنے یا بدلنے کی بات ہی نہیں، ہو سکتا ہے آپ جسے انٹرویو سے رہے ہوں وہ خود آپ کو ذاتی طور پر جانتا ہو تو اس کا یقیناً impact ٹھیک نہیں ہوگا، باقی رہی نوکری وغیرہ کی بات تو رزق اللہ کے ہاتھ میں ہے، یہ ہمارا ایمان ہے۔

ابنِ سید
Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...

Facebook Comments