Sunday, April 27, 2014

کہانی ایک گھر کی

یہ کہانی ہے ایک گھر کی، ایک دفعہ کا ذکر ہے ایک گھر ہوا کرتا تھا، ہر گھر کی طرح اس کے در و دیوار بھی تھے، بہت سے رہنے والے بھی تھے، سامان بھی تھا اور نہایت قیمتی اشیاء بھی تھیں. اس ہی گھر کی نگھبانی کے پیشِ نظر اس گھر کی مکینوں نے ایک چوکیدار کو نوکری پر رکھنے کا فیصلہ کیا، کافی سوچ و بچار کے بعد اور متعدد انٹرویو کرنے کے بعد بالآخر ایک چوکیدار کا انتخاب کر ہی لیا گیا. وہ ایک مضبوط جسم کا مالک ایک زبردست شخصیت کا انسان تھا، مضبوط اعصاب کا مالک. کچھ ہی دن میں تمام گھر والے اسے پسند کرنے لگے اور اس کی خوبیوں کے معترف ہوگئے اس کی موجودگی میں حفاظت کا احساس ہونے لگا.
اس علاقہ میں کئی عرصہ سے چوری ڈکیتی عام ہوچکی تھی، علاقے کے بدمعاشوں کا ایک گروہ جب جس کے گھر ڈاکہ مارنا چاہتا کامیاب ہوتا اور کوئی اس کا کچھ نہ بگاڑ پاتا. عرصہ سے اس کی نظر اس گھر پر بھی تھی جبھی تو حفظ ما تقدم کے طور پر گھر والوں نے چوکیدار رکھ لیا تھا .
ایک رات وہی ہوا جس کا ڈر تھا، ڈکیت اس گھر پر آگئے. لیکن انکا سامنا اس بہادر چوکیدار سے ہوا. کئی گھنٹے تک مقابلہ چلتا رہا بالآخر گھر کا محافظ جیت گیا. گھر بھر میں خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی اور چوکیدار اب اور بھی گھر والوں کا لاڈلا بن گیا تھا. فوراً ہی گھر کے "فالتو خرچے" بند کرکے چوکیدار کی تنخواہ بڑھا دی گئی...
وقت گزرتا گیا اور چوکیدار کی تنخواہ بڑھتی گئی، گھر کے لوگوں کے جیب خرچ کاٹ کر جب یہ تنخواہ بڑھائی جاتی تو کچھ گھر والوں کو برا تو لگتا لیکن وہ خاموش رہتے ... کچھ عرصہ بعد ایسا محسوس ہونے لگا جیسے یہ گھر اور چوکیدار لازم و ملزوم ہونے لگے. اس بات کا احساس شاید چوکیدار صاحب کو بھی ہوچکا تھا لہذا وہ بھی اب کسی کو خاطر میں نہ لاتے.
اس ہی گھمنڈ میں ایک دن وہ پڑوسی کے گھر والوں پر بھی رعب جھاڑنے لگے لیکن پڑوسی برداشت نہ کر سکے اور دونوں میں جھگڑا ہوگیا. لڑ جھگڑ کر گھر آۓ اور کہنے لگے کے کوئی گھر سے نہ نکلے گھر والوں کی جان کو خطرہ ہوسکتا ہے. گھر والے چپ سادھے بیٹھے رہے. کچھ دن اور گزرے اور وہ جناب کئی اور پڑوسیوں سے بھڑ گئے نوبت مارکٹائی تک پہنچی اور اب کی بار آدھے سے زیادہ محلہ جان کو عذاب ہوچکا تھا.
اس رات گھر والوں نے آپس میں فیصلہ کیا کہ صبح اس چوکیدار کو فارغ کردیا جائیگا لیکن اگلے روز چوکیدار صاحب نے کہا کہ پہلی بات میری اس گھر کیلئے خدمات بہت ہیں اور اس کے ساتھ ڈکیتی سے بچاؤ کی کہانی سنائی پھر الٹی میٹم دینے کے انداز میں کہنے لگے کہ اگر میں گیا تو محلے والے آپ لوگوں کو نہیں چھوڑیں گے کیوں کہ میں ان کے ساتھ مسائل پیدا کرچکا ہوں اور وہ اب گھر والوں کو اور مجھے ایک ہی نظر سے دیکھتے ہیں ..
اس دن گھر والے سر جوڑ کر بیٹھے کے کیا جان کو عذاب لگا لیا ہے لیکن انہیں کوئی تدبیر نہیں سمجھ آئی.. اب تو اس مسئلہ کو کے کر گھر والوں میں آپس میں اختلافات پیدا ہوچکے تھے، بھائی بھائی سے لڑ رہا تھا. تمام گھر والے مل کر اُس کو کوس رہے تھے جس نے اس چوکیدار کا انتخاب کیا تھا.
کچھ عرصہ گزرا ہی تھا کہ چوکیدار صاحب کی ہمت اور بھی بڑھ چکی تھی، گھر کے معاملات میں دخل دینا تو جیسے اسکی عادت بن گیا تھا. گھر میں کون آرہا ہے کون جارہا ہے، چلو یہ تو ٹھیک ہے لیکن گھر والے اس سے کیوں مل رہے ہیں اور کس سے ملو اور کس سے نہ ملو، فیصلے صادر ہونے لگے. گھر والے بھی اب اسکے رحم و کرم پر تھے. بارہا گھر کے بڑوں نے اس کو بلا کر سمجھایا کہ تمہارا کام گھر کی حفاظت کرنا ہے ناں کہ گھر والوں کے اندرونی معاملات میں دخل دینا لیکن وہی ڈھاک کے تین پات اسے بھی اپنی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہوچکا تھا اور گھر والوں کو بھی اوقات لگ پتا گئی تھی! دن گزرتے گئے یہاں تک کے گھر والوں کے بجٹ کا خطیر حصہ چوکیداری کی تنخواہ کیلئے نکلنے لگا بلکہ اب تو جمع پونجی بھی اس ہی مقصد کیلئے خرچ ہونے لگی، وہ وقت بھی آیا کہ جب گھر قرضوں میں ڈوبتا گیا لیکن اس کے برعکس چوکیدار کی تنخواہ بڑھتی ہی گئی اور تو اور بجاۓ احسان ماننے کے چوکیدار صاحب اپنا حق سمجھ کر مطالبہ کرتے رہے، اور تو اور گھر والوں کو کمتر اور حقیر سمجھتے رہے ....
چوکیدار آج بھی اس گھر میں ہے، گھر کے مالکوں سے زیادہ گھر کا مالک، کوئی فیصلہ اس کی مرضی کے بغیر نہیں ہوتا...
ویسے کیا میں نے آپکو بتایا کہ اس کہانی کے تمام کردار فرضی ہیں اور کوئی بھی کردار یا واقعات سے مماثلت مکمل اتفاق ہی سمجھا جائیگا!!!؟؟
ابنِ سیّد

کون سا یہ کون سا وہ، میں نہ مانوں، وغیرہ وغیرہ

اچھا بہانہ ہے جب کسی کی بات نہ ماننی ہو تو اس کی بات سے بات نکالو، سوالات کرو اور جواب سننے سے پہلے اگلا سوال داغ دو. اب یہی دیکھ لیں، جب کوئی اسلام کے نفاذ کی بات کرے تو جواب میں سوال ملتا ہے کہ "کون سا اسلام؟" جیسے انکے نزدیک نعوذباللہ اسلام کی کئی اقسام ہیں. اسلام تو ایک ہی ہے اللہ اور اس کے رسول کا اسلام. اب ایسا سوال سن کر آپ سمجھ جائیں کہ اگلا شخص بات نہیں سمجھنا چاہ رہا بلکہ باتوں میں لگانا چاہ رہا ہے.
اس ہی طرح ان افراد کا کام ہوتا ہے کہ دوسرے افراد کو لایعنی بحثوں میں الجھاۓ رکھنا. کوئی جہاد کی بات کرے تو کہتے ہیں "کون سا جہاد؟" کشمیر کا، افغانستان کا، عراق کا، شام کا یا کدھر کا. آپ کہیں کشمیر تو یہ کہیں گے کہ وہ تو ایجنسیوں کا جہاد ہے، آپ کہیں افغانستان تو کہیں گے کہ وہ تو امریکہ سپورٹڈ جہاد تھا، آپ کہیں عراق و شام تو یہ کہیں گے کہ وہ تو فرقاوارانہ لڑائی ہے. غرض الجھاۓ رکھنا مقصود ہو تو بہانے ہزار اور سمجھنا مقصد ہو تو قرآن کی ایک آیت بھی کافی ہوجاتی ہے.
مولانا مودودی (رح) نے ایسے ہی افراد کے بارے میں لکھا تھا کہ اگر آپ ہماری دعوت سمجھنا چاہیں تو ہم سمجھانے کیلئے حاضر ہیں لیکن اگر آپ کا مقصد سمجھنا نہیں بلکہ الجھنا اور الجھاۓ رکھنا ہے تو ہمیں اعتراض نہیں آپ جب تک چاہیں اپنا شغل جاری رکھیں.
ابنِ سیّد

Wednesday, April 23, 2014

44th Earth Day, April 22 2014



Hi Everyone!

Today is 22nd April, Earth Day!

This earth day will be the 44th one since it has been first celebrated on 22 April 1970. All over the world people do their bit, take initiatives, drive awareness campaigns, contact their organization and government officials for the sake of Earth. With each passing day more and more population is migrating towards cities, cities are growing bigger, more populated, and despite all the increase in the environmental awareness seminars, conferences and workshops, the mankind is increasing the usage of energy resources with each day. If we look at the global stats and future projection for the global energy generation (Reference: International Energy Agency), we will see an upward trend in generation of electricity from various resources.
On this earth day we must promise to protect the energy resources. In Pakistan we still have limited energy resources, however the consumption is on the rise, see the stats for Pakistan taken from IEA statistical data, we can see the trend is a continuous increase in the consumption of the energy resources. We can imagine what will happen if we keep on going in the same direction the same speed. What we will be leaving for our future generations and other inhabitants of the Earth?
Now the actual question is how we are going to control this, the first step is however spreading awareness about the severity of the situation, the more the people will be aware the more they can come along and take part in the collective environmental awareness campaign, hopefully the awareness will bring a gradual change.

Create awareness either by forwarding this email or sharing earth day quotes, SMS, or post a selfie… Do your bit!

Friday, April 18, 2014

پاک فوج کو سلام

پاک فوج کو سلام
ہائی وے پر دھیمی رفتار سے چلتے ہوئے دیکھتا ہوں کہ ہر دوسرے ٹرک کے پیچھے یہ جملہ لکھا ہے، "پاک فوج کو سلام". میرا دل بھی کہتا ہے میری پاک فوج کو سلام، پاک فوج زندہ باد. یقیناً آپ سوچ رہے ہونگے کے فوج کو تنقید کا نشانہ بنانے والے شخص کو آج فوج پر اتنا پیار کیسے آرہا ہے؟ تو جناب سن لیجئے تنقید برائے اصلاح انہی کیلئے کی جاتی ہے جن سے محبت ہوتی ہے اور جن لوگوں کے بارے میں بھلائی کی چاہت ہوتی ہے، یہ تنقید برائے تنقید نہیں بلکہ تنقید برائے اصلاح ہے. میری اور میرے جیسے بیشتر نوجوانوں کی تربیت اس ہی پیرائے میں ہوئی ہے، پاک فوج سے محبت ہماری تربیت کا خاص جز ہے. چھوٹا سا لڑکا، جو ٹھیک سے بول بھی نہیں پاتا لیکن جب سوال کیا جائے کہ بیٹا کیا بنو گے؟ تو جواب آتا ہے "فوجی جوان"، یقیناً اس طرح کا جواب سن کر ماں باپ کا سینہ فخر سے چوڑا ہوجاتا ہے. آرمی، نیوی، ایئرفورس ہمارے بچپن کے آئیڈیل! کینٹ کے علاقوں سے گزرتے ہوئے ایک تحفظ کا احساس، ہڑتال اور خراب حالات جب پولیس بھی سڑکوں پر نہ نکلے ایسے میں رینجرز کی گاڑی ہمیں حوصلہ دلاتی ہے.
لیکن اتنی محبت کے باوجود یہ فاصلے پیدا کیسے ہوئے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب جاننا نہ صرف ضروری ہے بلکہ اس سب معاملے کے ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچانا ہم سب کا فرض ہے، نہیں تو کم از کم یہ ضرور جانیں کہ اس خلیج کو پیدا کرنے کا ذمہ دار کون ہے!
فاصلے کبھی یوں نہیں پیدا ہوتے بلکہ افراد کا عمل فاصلے پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے. قائد اعظم کانگریس کے لیڈران میں سے تھے لیکن فاصلے پیدا ہوئے اور انکو الگ ہونا پڑا، "سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا" کا ترانہ لکھنے والا قلم اقبال کا ہی تھا پھر اس ہی ذہن نے علحدہ پاکستان کا تصور دیا، چند افراد کے رویّوں نے بنگال کے عوام کو اتنا متنفر کردیا کہ وہ سرزمین جہاں سے مسلم لیگ کا آغاز ہوا تھا وہاں کے باسیوں نے اعلان بغاوت کردیا... کیا یہ سب شروع سے پلان کا حصہ تھا؟ نہیں! بلکہ انکے نظریات کی تبدیلی میں حالات، واقعات اور سب سے بڑھ کر افراد کے رویّوں کا ایک بڑا ہاتھ ہے.
آج پاکستان کی افواج، عوام اور دوسرے اداروں کے درمیان جو خلیج حائل ہے، اس کا ذمہ دار کون ہے؟ یقیناً ہم سب جانتے ہیں کہ ایک فرد واحد کی بزدلی اور کم ہمّتی نے بحیثیت قوم ہمیں اس پستی اور گہرائی میں دھکیل دیا جہاں سے واپس اپنے سابقہ مقام تک آنے میں ہمیں دہائیاں لگ سکتی ہیں. وہ ایک شخص جس کے ظلم و جبر کے رویّہ، نفرت آمیز بیانات اور انا پرستی نے اداروں کو آپس میں لڑوایا. یہاں تک کہ ہمارے عوام اور افواج کے درمیان دوریاں پیدا ہونی شروع ہوگئیں،باہم دست و گریباں کی کیفیت پیدا ہوگئی اور ایک وقت ایسا آیا کہ اپنی ہی زمین ہماری افواج اور ہمارے عوام پر تنگ ہوتی گئی، یہ سب کچھ صرف اُس ایک شخص کی وجہ سے جس نے اس قومی ادارے کو اپنی انا کی تسکین کی بھینٹ چڑھا دیا.
ایک شخص پورا دن روزہ رکھے لیکن وقتِ افطار سے قبل روزہ توڑ دے تو نہ صرف اس کا روزے کا ثواب جاتا رہتا ہے بلکہ الٹا کفارہ بھی واجب ہوجاتا ہے. یہی کچھ پرویز مشرف نے کیا اور اس کا خمیازہ بھگتا، چالیس سال کی ملک و قوم کیلئے فوجی خدمات کو بیشک سلام لیکن آخر وقت میں اقتدار کی بھوک میں آئین کی پامالی، اداروں کی تذلیل اور افواج کے مورال کو گرانے والے شخص کیلئے سب سے اچھا انصاف صرف یہ کیا جاسکتا ہے کہ اس کو اس ملک کی عدالت کے ذریعہ سزا دلوائی جائے تاکہ آنے والے دور کیلئے یہ ایک عبرتناک مثال بن کر سامنے آئے، لیکن اگر اس کے برعکس مقتدر اداروں کی جانب سے ان سب کے ذمہ دار جناب مشرف کو سہارا دیا گیا اور کلین چٹ دے دی گئی، تو آنے والے دور میں تاریخ ایک نیا نوشتہ لکھے گی، لیکن اس دفعہ کہانی میں ہمارا نام نہ ہوگا.

ابنِ سیّد

Monday, April 14, 2014

انٹرپرینئورشپ : پرفیوم چوک، گلستان ِ جوہر

پرفیوم چوک - گلستان جوہر
یہ ہے پرفیوم چوک، جو کہ دنیا کا پہلا پرفیوم چوک ہے اور گلستان جوہر جیسے "پرامن" اور بارونق علاقے میں واقع ہے. جس طرح "جننے لاہور نئی ویکھیا وہ جمیائ نئی" اسی طرح اگر کراچی میں رہتے ہوئے آپ کو پرفیوم چوک کا حدودِ اربعہ نہ معلوم ہو تو آپکے کراچی والے ہونے پر مجھے شک نہیں، بلکہ یقین ہے. آخری اطلاعات تک اخبارات میں بے شمار آرٹیکل پرفیوم چوک کے بانی کا انٹرویو کر چکے ہیں اور ہم ٹی وی پر ایک عدد ڈرامہ پرفیوم چوک کے نام سے نشر ہوچکا ہے. بعض چھوڑُو حضرات چاند پر بھی پرفیوم چوک لکھنے کے لطیفے بیان کرچکے ہیں.
لیکن پھر بھی مزاح برطرف اس کوشش کی جتنی تعریف کی جائے وہ کم ہے شاید ہی کہیں اس لیول کی مارکیٹنگ کی اعلی مثال موجود ہو! آج کراچی کا کوئی حصہ پرفیوم چوک کی ایڈورٹائزنگ (جسے دوسرے الفاظ میں وال چاکنگ بھی کہتے ہیں) سے خالی نہیں. بقیہ کراچی سے باہر کا مجھے علم نہیں اس بارے میں باہر والے حضرات ہی صحیح بتا سکیں گے.
آئیں ذرا قریب سے اس چوک کا جائزہ لیتے ہیں تقریباً دو ضرب چار فٹ کی حدود کا کیبن اور اونچائی لگ بھگ دس فٹ، نچلا آدھا حصہ لوہے کی دیوار جبکہ بقیہ شیشے کا بنا ہوا جس میں چاروں اطراف میں مختلف اقسام کی خوشبوئیں شیشیوں میں مقید دکھائی دیتی ہیں. اوپر ایک چوڑا سا بورڈ جس پر لکھا ہوا ہے دنیا کا پہلا پرفیوم چوک پروپرائٹر مرسلین خان. ایک اور عجیب بات اس پر لکھا ہونا "اسٹال نمبر 13" تو کیا کراچی میں اور کہیں بھی اس طرح کے بارہ اسٹال موجود ہیں؟ نہیں تو! پھر یقیناً یہ تیرہ نمبر ایک الگ کہانی بیان کر رہا ہے شاید یہ وہ تعداد ہے جتنی دفعہ یہ اسٹال ٹوٹ کے بن چکا ہے (واللہاعلم) کئی دفعہ تو ہم خود اسے ٹوٹا پڑا دیکھ چکے ہیں. اور اس ٹوٹ پھوٹ والے دنوں میں پروپرائٹر مرسلین خان شیروانی ایک ٹیبل پر پرفیوم لگا کر بیٹھتا ہے لیکن کمال ضبط ہے کہ جگہ ہمیشہ وہی رہتی ہے کبھی چند گز آگے تو کبھی پیچھے لیکن وہیں آس پاس. اس ہی مستقل مزاجی کی وجہ سے جس جگہ کا پہلے کوئی نام نہ تھا اور بعض افراد نے اس جگہ کے مختلف نام رکھنے کی کوشش کی، لیکن عوام اس جگہ کو "پرفیوم چوک" کے نام سے ہی پکارنے لگے!
بزنس کی تعلیم میں اکثر ہمیں معروف انٹرپرینئورز کی مثالیں دی جاتی ہیں جیسے ایپل کمپنی کے اسٹیو جابز، رے کروک جس نے میکڈونلڈ شروع کی، کوکا کولا والے جان پِنبرٹن، ڈیزائنر امیر عدنان، وغیرہ ... میرے خیال سے مرسلین خان کا پرفیوم چوک بھی ایک انٹرپرینئورشپ جدوجہد کی اعلی مثال ہے اور بزنس کے طلباء کو دوسرے لوگوں کے بارے میں بتانے کے ساتھ ساتھ اس انٹرپرینئور کے بارے میں بھی بتانا چاہئے کم از کم یہ ایک ایسا بندہ ہے جس سے ایک بزنس کا طالبعلم ملاقات بھی کرسکتا ہے اور اس شخص سے اس کے کاروبار کے بارے میں معلومات بھی آسانی سے حاصل کرسکتا ہے!

ابنِ سیّد

Sunday, April 13, 2014

موجودہ ملکی حالات پر تبصرہ

تو جناب ہوا کچھ یوں کہ کچھ جماعتوں نے کہا کہ مذاکرات کرلیے جائیں، ٹھیک رہے گا. ادھر سے مذاکرات مخالف افراد نے زور لگایا دوسری جانب میڈیا نے انہیں پورا پورا سہارا دیا. مذاکرات کی کمیٹی بنی قافلہ نکلا تو پورا تھا جب منزل پر پہنچا تو صرف پروفیسر ابراہیم رہ گئے. مذاکرات کامیاب ہوگئے اور جنگ بندی ہوگئی، تعریف کے ڈونگرے پھر بھی نہ برسے، اور تعریف مانگتا بھی کون ہے اس مردِ قلندر کو تو بس قوم کیلئے امن درکار تھا سو حاصل کیا.
مذاکرات کی مخالفت کرنے والی مذہبی جماعتوں میں پیش پیش سنی اتحاد کونسل اور مجلس وحدت، چلو ایک اچھی پیش رفت یہ کہ دونوں مسالک "ایک" ایجنڈے پر متفق ہیں (ایجنڈا کس کا ہے، یہ چھوڑ دیں) .. باقی رہ گئے اس ملک میں رہنے والے بقیہ 99 فیصد افراد تو جناب بلڈّی سویلینز کی پہلے ہی سنتا کون ہے. اب تو طالبان بھی دھماکوں کی کھل کر مذمت کر رہے ہیں مذاکرات مخالف افراد اب کس بنیاد پر کریں گے مخالفت. ابھی کچھ دن جو امن کے ملے ہیں وہ مذاکرات کی ہی مرہون منّت ہیں، اسی امن کا فائدہ اٹھا کر تو "قوم کا وقار" باہر بھاگنے کے موڈ میں ہے، قوم کو چاہیے کہ "قوم کے وقار" کو باہر نہ جانے دیں،قوم کا وقار باہر چلا گیا تو پیچھے کیا رہ جائیگا؟ ٹھینگا!
بعض لوگوں نے تان اڑائی کہ جمعہ جمعہ آٹھ دن کا ہوگا امن. یار لوگ گنتے رہے. جمعہ جمعہ پورا مہینہ ہوگیا اور پھر جنگ بندی مزید اور عرصہ طویل ہوگئی. اب پوچھو تو جواب نہیں، کاٹو تو لہو نہیں!
وطنِ عزیز پہلے بھی نازک دور سے گزر چکا ہے، یہ دور بھی گزر جائیگا. اس ملک کے چاہنے والے ذلت پہلے بھی بھگت چکے ہیں، زخم اور سہہ لیں گے، پروا نہیں! نعرہ پھر بھی لگتا رہیگا پاکستان زندہ باد! پاکستان کا مطلب کیا، لا الہ الا اللہ!
ابنِ سیّد

کتّا

کتّا
(براہ کرم! اپنی ذمہداری پر پڑھیں)

کتّے کا بچہ بھی کتّا ہی ہوتا ہے. عام الفاظ میں وہ کتّا ہی ہوا، اسے کتّا ہی لکھا، بولا اور پچکارا جائے. کتّے کا بچہ یا کتّے کا پِلّا کہہ کر الفاظ کا زیاں ہی ہوگا. بعض افراد ان الفاظ کو بیہودہ سمجھتے ہوئے ان سے کنّی کترا کر اِسے چھوٹا کتا، ڈوگی یا پپّی کہہ دیتے ہیں لیکن کم و بیش یہی صورتحال انہی الفاظ و القاب کے حوالے سے ہے. کتّا چھوٹا ہو ہا بڑا، اسے ڈوگی کہو یا پپّی کتّا تو کتّا ہی ہوتا ہے. کتّے کی کئی سو اقسام ہیں لیکن ان سب میں مشترک خصوصیت انکا کتّا ہونا ہی ہے. آواز کم ہو یا زیادہ سب کے سب بھونکتے ہی ہیں. مثل مشہور ہے کہ "جو بھونکتے ہیں وہ کاٹتے نہیں"، لیکن کوئی پوچھے کیا گارنٹی ہے کہ بھونکنے کیلئے کھلا ہوا منہ بند ہو تو اس میں آپکی ٹانگ نہ ہو، اب اس صورتحال میں مثل کہنے والے کو چودہ ٹیکے نہیں لگیں گے. یقیناً کتّے جیسی خصوصیات سے بچنے کیلئے چودہ ٹیکے آپکو لگوانے پڑیں گے اس امید پر پہ شاید اس سے کتّے پن میں کمی واقع ہوجائے، ویسے گارنٹی اُسکی بھی نہیں! کہتے ہیں کتا وفادار ہوتا ہے، اس لئے بعض وفادار افراد کو بھی لوگ کتّے کے مثل کہتے ہیں (مثلاً انگریز کا کتّا مطلب انگریزوں کا وفادار) . انگریز بر صغیر آیا تو اس نے قانون بنایا کہ اچھے ہوٹلوں میں انڈین اور کتّے ممنوع ہیں، لیکن بعض لوکل لوگ یہ سہہ نہ سکے اور ہاٹ ڈاگ کی محبت میں بن گئے انگریزوں کے غلام، انگریز چلا گیا لیکن اپنے پیچھے اپنے وفادار (کتّے) چھوڑ گیا، آج کل ان وفاداروں کا حال وہی ہے وہ کہتے ہیں ناں "دھوبی کا کتا، نہ گھر کا نہ گھاٹ کا" ... صحیح کہتے ہیں!

ابنِ سیّد

Saturday, April 12, 2014

آئینہ ان کو دکھایا تو برا مان گئے...




کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے کہ معمول کے مطابق فیس استعمال کر رہا تھا. کہ یکایک ایک دوست کی فرینڈ ریکویسٹ آگئی. میں نے پوچھا بھائی اچھے بھلے دوست تھے یہ دوبارہ دوستی کی کیا سوجھی (پھر خیال آیا کہ آج کل چلی ہوئی ہواکا رخ دیکھتے ہوئے کہیں دوستوں کیلئے الگ اور رشتہ داروں کیلئے الگ پروفائل تو نہیں بنا ڈالی) کہنے لگا کہ تجھے ان فرینڈ کیا ہوا تھا (میں نے دل میں سوچا بھائی ان فرینڈ کیا ہوا تھا تو کیے رہتا خود بھی سکون سے رہتا اور مجھے بھی ...) بہرحال وجوہات پوچھنے پر کہنے لگا کہ تم جس نظریہ کا پرچار کرتے رہتے ہو وہ نظریہ مجھے پسند نہیں، لہذا یہ سب بند کرو ورنہ ان فرینڈ کردوں گا. دل میں خیال آیا کہ ان کو یاد دلاؤں کہ کچھ دن پہلے آپ نے بھی ایک پوسٹ ڈالی تھی جس میں کچھ لوگوں کو کافر قرار دیا گیا تھا، اس سے پہلے آپ گانے وغیرہ بھی شیئر کرتے رہے ہو. لیکن اس سب پر ہم بھی تو برداشت کر رہے ہیں.

یہ پہلا واقعہ نہیں، اس سے پہلے بھی ایک دوست صاحب اس طرح کی وارننگ دے چکے ہیں کہ بند کرو یہ سب اپنے نظریات کا اظہار ورنہ بلاک دونگا. کچھ اور دوست ان نظریات پر بحث کرتے رہے اور میں ان کا جواب دیتا رہا لیکن کچھ عرصہ بعد وہ نظر نہ آئے، معلوم کیا تو ان فرینڈ نظر آئے.

کیا ہمارے معاشرے میں برداشت بالکل ختم ہوچکی ہے؟ کیا اختلافِ رائے کے احترام کا تصور ناپید ہوچکا ہے؟ شاید ہاں! ہم میں سے بہت سے لوگ صرف وہی کچھ دیکھنا اور سننا چاہتے ہیں جو انہیں اچھا لگتا ہے مگر جب آئینہ کا دوسرا رخ انکی جانب کیا جاتا ہے، انکے خیالات کا خوش نما میک اپ اتار کر انکے سامنے جب ان خیالات کی اصل بدنما شکل پیش کی جاتی ہے تو ان کے دل کو اس قدر دکھ ہوتا ہے کہ برداشت نہیں کرپاتے. یہ اختلافِ رائے کو نہیں سہ پاتے. انہوں نے اپنی ایک رائے قائم کی ہوئی ہے اور یہ چاہتے ہیں کہ انکی آنکھوں کے سامنے حالات کا وہی چہرہ پیش کیا جائے جو انہوں نے تخلیق کیا ہوا ہے. مگر ریت میں منہ چھپانے سے طوفان رک نہیں جاتا، جلد یا بدیر جب سچائی سامنے آتی ہے تو پھر انسان کو اپنے رویہ پر ندامت ضرور ہوتی ہے.

سوشل میڈیا کوئی ایک الگ دنیا نہیں ہے، اور یہاں موجود لوگ بھی کسی اور دنیا کے نہیں! یہاں ہم اور آپ جیسے لوگ ہی ہیں جو اس معاشرے کا حصہ بھی ہیں، یہاں ہر شخص اپنے اپنے حساب سے چلتا ہے کوئی یہاں دوستی کیلئے ہے، کوئی وقت گزاری کیلئے، کوئی کاروبار کیلئے اور کوئی تحریکیں برپا کرنے کیلئے. اور اس دوران ہمیں کئی طرح کے لوگوں سے سابقہ پڑتا ہے جن میں سے بہت سوں سے ہمارا نظریاتی اختلاف ہوسکتا ہے اور ہوتا ہے. اب فیصلہ ہم پر ہے یا تو ان تمام اختلافی آراء کا احترام کرتے ہوئے اس کیساتھ جینا سیکھیں یا پھر سب مخالف نظریات کے افراد کو ان فرینڈ کرکے اپنے ذات کے خول میں بند ریت میں منہ چھپائے بیٹھے رہیں. طوفان پہلے بھی آتے رہے ہیں اور ان کا مقابلہ بھی لوگ کرتے رہے ہیں لیکن حالات کے بدنما پہلو سے کنّی کترا کر ریت میں منہ چھپانے والے کبھی تبدیلی نہ لا سکے اور نہ لا سکتے ہیں. فیصلہ آپکا!

ابنِ سیّد

 

Image taken from here

Wednesday, April 9, 2014

آئینہ دکھایا تو برا مان گئے...

کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے کہ معمول کے مطابق فیس بک استعمال کر رہا تھا. کہ یکایک ایک دوست کی فرینڈ ریکویسٹ آگئی. میں نے پوچھا بھائی اچھے بھلے دوست تھے یہ دوبارہ دوستی کی کیا سوجھی (پھر خیال آیا کہ آج کل چلی ہوئی ہواکا رخ دیکھتے ہوئے کہیں دوستوں کیلئے الگ اور رشتہ داروں کیلئے الگ پروفائل تو نہیں بنا ڈالی) کہنے لگا کہ تجھے ان فرینڈ کیا ہوا تھا (میں نے دل میں سوچا بھائی ان فرینڈ کیا ہوا تھا تو کیے رہتا خود بھی سکون سے رہتا اور مجھے بھی ...) بہرحال وجوہات پوچھنے پر کہنے لگا کہ تم جس نظریہ کا پرچار کرتے رہتے ہو وہ نظریہ مجھے پسند نہیں، لہذا یہ سب بند کرو ورنہ ان فرینڈ کردوں گا. دل میں خیال آیا کہ ان کو یاد دلاؤں کہ کچھ دن پہلے آپ نے بھی ایک پوسٹ ڈالی تھی جس میں کچھ لوگوں کو کافر قرار دیا گیا تھا، اس سے پہلے آپ گانے وغیرہ بھی شیئر کرتے رہے ہو. لیکن اس سب پر ہم بھی تو برداشت کر رہے ہیں.
یہ پہلا واقعہ نہیں، اس سے پہلے بھی ایک دوست صاحب اس طرح کی وارننگ دے چکے ہیں کہ بند کرو یہ سب اپنے نظریات کا اظہار ورنہ بلاک دونگا. کچھ اور دوست ان نظریات پر بحث کرتے رہے اور میں ان کا جواب دیتا رہا لیکن کچھ عرصہ بعد وہ نظر نہ آئے، معلوم کیا تو ان فرینڈ نظر آئے.
کیا ہمارے معاشرے میں برداشت بالکل ختم ہوچکی ہے؟ کیا اختلافِ رائے کے احترام کا تصور ناپید ہوچکا ہے؟ شاید ہاں! ہم میں سے بہت سے لوگ صرف وہی کچھ دیکھنا اور سننا چاہتے ہیں جو انہیں اچھا لگتا ہے مگر جب آئینہ کا دوسرا رخ انکی جانب کیا جاتا ہے، انکے خیالات کا خوش نما میک اپ اتار کر انکے سامنے جب ان خیالات کی اصل بدنما شکل پیش کی جاتی ہے تو ان کے دل کو اس قدر دکھ ہوتا ہے کہ برداشت نہیں کرپاتے. یہ اختلافِ رائے کو نہیں سہ پاتے. انہوں نے اپنی ایک رائے قائم کی ہوئی ہے اور یہ چاہتے ہیں کہ انکی آنکھوں کے سامنے حالات کا وہی چہرہ پیش کیا جائے جو انہوں نے تخلیق کیا ہوا ہے. مگر ریت میں منہ چھپانے سے طوفان رک نہیں جاتا، جلد یا بدیر جب سچائی سامنے آتی ہے تو پھر انسان کو اپنے رویہ پر ندامت ضرور ہوتی ہے.
سوشل میڈیا کوئی ایک الگ دنیا نہیں ہے، اور یہاں موجود لوگ بھی کسی اور دنیا کے نہیں! یہاں ہم اور آپ جیسے لوگ ہی ہیں جو اس معاشرے کا حصہ بھی ہیں، یہاں ہر شخص اپنے اپنے حساب سے چلتا ہے کوئی یہاں دوستی کیلئے ہے، کوئی وقت گزاری کیلئے، کوئی کاروبار کیلئے اور کوئی تحریکیں برپا کرنے کیلئے. اور اس دوران ہمیں کئی طرح کے لوگوں سے سابقہ پڑتا ہے جن میں سے بہت سوں سے ہمارا نظریاتی اختلاف ہوسکتا ہے اور ہوتا ہے. اب فیصلہ ہم پر ہے یا تو ان تمام اختلافی آراء کا احترام کرتے ہوئے اس کیساتھ جینا سیکھیں یا پھر سب مخالف نظریات کے افراد کو ان فرینڈ کرکے اپنے ذات کے خول میں بند ریت میں منہ چھپائے بیٹھے رہیں. طوفان پہلے بھی آتے رہے ہیں اور ان کا مقابلہ بھی لوگ کرتے رہے ہیں لیکن حالات کے بدنما پہلو سے کنّی کترا کر ریت میں منہ چھپانے والے کبھی تبدیلی نہ لا سکے اور نہ لا سکتے ہیں. فیصلہ آپکا!
ابنِ سیّد

کس کا پاکستان؟

اس قوم کے بارے میں کیا کہا جاسکتا ہے کہ پینسٹھ سال گزرنے کے بعد آج یہ بحث کی جارہی ہے کہ قائد اعظم کس طرح کا پاکستان چاہتے تھے، مسٹر جناح اور مولوی جناح کی بحث یا تو خود شروع ہوگئی یا پھر ہوسکتا ہے کہ ایک منظّم سازش کے تحط نہ صرف یہ معاملہ اٹھایا گیا بلکہ اس پر مختلف افراد کو لکھنے پر آمادہ بھی کیا گیا، ظاہر سی بات ہے جب ایک ذی شعور انسان یہ دیکھتا ہے کہ اس کے قومی ہیروؤں کو بالکل ہی الگ طرح سے پیش کیا جارہا ہے تو اس کے دل میں موجود اس ہیرو کا کردار پاش پاش ہوجاتا ہے اور وہ پھر چپ نہیں رہتا بلکہ اس کا قلم حرکت میں آجاتا ہے. ایک لبرل دانشور کی جانب سے قائد اعظم پر لکھا گیا کالم جس کے جواب میں دائیں بازو کے قلمکاروں نے قائد اعظم کی شخصیت کے اسلامی پہلو کے حوالے سے کالم لکھے اور اس کے بعد بحث برائے بحث کا یہ سلسلہ طویل ہوتا چلا گیا.
آج اتنے عرصہ بعد اس بحث کا مقصد کیا لوگوں کو اصلیت بتانا ہے یا مزید غلط فہمیاں پھیلانی ہے. جو تمام افراد اس کام میں آج کل مصروف ہیں وہ اس بات کا فیصلہ خود کرسکتے ہیں.
رہی بات ایک عام آدمی کے کنفیوژن کی تو اس کیلئے وہ یہ کرسکتا ہے دیکھے کہ جو شخص اس موضوع پر بات کر رہا ہے وہ کس قماش کا انسان ہے. یقیناً اس سے ایک عام سمجھ بوجھ رکھنے والے انسان کو آسانی ہوگی، جب لوگ دیکھتے ہیں کہ جو افراد مسٹر ہونے کی تاویلیں دیتے نہیں تھکتے ان کا سابقہ ریکارڈ خود ٹھیک نہیں اور اس پر اگر وہ ٹھیک بھی کہہ رہے ہوں تو پھر بھی انکی رائے کی اہمیت نہیں رہتی.
زیادہ عرصہ نہیں گزرا ایم کیو ایم کی جانب سے قائد اعظم کا پاکستان یا طالبان کا پاکستان کا شوشہ چھوڑا گیا تھا اور اس پر ریفرنڈم بھی کرایا گیا، جب یہی ووٹنگ سماع ٹی وی کی ویبسائٹ پر کی گئی تو ستّر فیصد افراد نے طالبان کے پاکستان پر ووٹ دیا، وجہ یہ نہیں کے وہ قائد اعظم کا پاکستان نہیں چاہتے تھے بلکہ وجہ یہ تھی کہ وہ اس سوال کو اٹھانے والے افراد کے کردار سے متاثر نہیں تھے.
میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ کیوں کہ پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا، اور پاکستان کی ننانوے فیصد آبادی کا مذہب اسلام ہے لہذا پہلے ہمیں اس بات پر توجہ دینی چاہئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ریاست کے بارے میں کیا تعلیمات تھیں یقیناً ہمیں ایک تشفی بخش جواب بھی ملے گا اور ہمیں اس سوال کا بھی جواب مل جائے گا کہ ہمیں کس پاکستان کیلئے اپنی کوششیں صرف کرنی چاہیے.
ابنِ سیّد

Monday, April 7, 2014

فحاشی کیخلاف مہم

بالآخر قاضی حسین احمد صاحب نے جس کام کو شروع کیا اور تمام اسلامی جماعتیں جس پر یکسو تھیں خاص طور پر تنظیم اسلامی کی کوششیں قابلِ تعریف ہیں، اس مہم کا ایک اہم قدم جماعت اسلامی کی جانب سے پارلیمنٹ میں فحاشی کیخلاف آواز اٹھانا ہے. جماعت اسلامی نے پیمرا کے اصولوں پر عمل کرنے کا کہتے ہوئے پاکستان آئیڈول اور مختلف فحاشی کو فروغ دیتے پروگرامات کو بند کرنے کے بارے میں بات کی. آج اس بات کو ملک کی غالب اکثریت بھی مان رہی ہے بلکہ خود میڈیا میں کام کرنے والے افراد اس بات پر متّفق ہیں کہ میڈیا کو بہت غلط رخ پر لیجایا جارہا ہے. جب کسی پانی میں گندگی ہلکے ہلکے ملائی جائے تو گندگی زیادہ ہونے کے باوجود اس کا ادراک دیر سے ہوتا ہے. یہی کچھ میڈیا نے کیا، فحاشی کی شروعات ہلکے ہلکے ہوئی اور اب تو ٹی وی پر آنے والی خاتون کو ڈوپٹہ سر پر ڈالنا معیوب سا لگنے لگا ہے کجا کہ اسے پابند کیا جائے.
بعض لوگ کہتے ہیں "فحاشی کی سب کی اپنی اپنی تعریف ہے. کسی کیلئے فحاشی کا معیار کچھ ہے اور کسی کیلئے کچھ تو کس معیار کی پابندی کی جائے، فحاشی کی کون سی تعریف کو درست مانا جائے؟" تو جناب سب کا معیار الگ ہے اور اس معاملے میں اختلاف ہے تو کیا گدھے گھوڑوں کی طرح آزاد چھوڑ دیا جائے؟ اس طرح تو کرپشن کی بھی اپنی اپنی تعریف ہے، میں رشوت کو ناجائز سمجھتا ہوں جبکہ کوئی دوسرا اس کو اپنا حق گردانتا ہے تو کیا اس کو کرپشن کا حق حاصل ہوگیا؟ ہرگز نہیں! فحاشی کی مختصر تعریف یہ ہے کہ "ہر وہ چیز جو زنا کی جانب لیجائے". جس طرح معاشرے کی اور خرابیوں کی بذریہ قانون روک تھام کی جاتی ہے بالکل اس ہی طرح فحاشی بھی ایک خرابی ہے اور اس کی بھی روک تھام ضروری ہے.
یہاں ایک اور اہم بات، سوال یہ نہیں کہ کوئی کیا چاہتا ہے، نہ یہ ہے کہ پیمرا کے قوانین اور ضابطہ اخلاق کیا کہتے ہیں بلکہ سوال یہ ہے کہ اس بارے میں اسلام کے اصول کیا ہیں.
یہ نہایت افسوسناک بات ہے کہ اسلام کے نام پر بننے والی مملکت میں ایسی گستاخانہ باتیں اب سرعام پارلیمنٹ میں ہورہی ہیں. جماعت اسلامی کے موقف کے مقابل ایک صاحب نے مضحکہ اڑاتے ہوئے ریموٹ کنٹرول کے استعمال کا مشورہ دیا یعنی برائی ہوتے دینے اور ریت میں منہ چھپانے کا مشورہ، چوری ہوتے دیکھ کر منہ پھیر کر نکل جانے کا مشورہ، واضح رہے سابقہ حکومت میں زرداری صاحب کی تضحیک کے سدباب کیلئے موبائل، سوشل میڈیا اور میڈیا کریک ڈاؤن بھی کیا گیا تھا. یعنی صدر کی تضحیک برداشت نہیں لیکن اسلامی شعائر کی تضحیک برداشت بھی ہے اور اس کا دفاع بھی کیا جارہا ہے.
اب قوم کو سب سیاسی اختلاف بالائے طاق رکھ کر مذکورہ معاملے میں جماعت اسلامی کا کھل کر ساتھ دینا چاہیے. کیوں کہ یہ کسی ایک فرد یا پارٹی کا نہیں پوری قوم کا مسئلہ ہے، ہماری آنے والی نسلوں کے اخلاقی معیار کا مسئلہ ہے! یقیناً "امر بالمعروف و نہی عن المنکر" ہم سب پر فرض ہے!
ابنِ سیّد

Saturday, April 5, 2014

اپنا آپ سنوار چلے (نظم)

پھر بستیاں بگاڑ چلے
چلو
کہ اپنا آپ سنوار چلے
کہیں کوئی گرا
کہیں ٹوٹا
کہیں بکھرا
ہمیں فکر کیا
ہم نرے بے داغ چلے
چلی ہوا تیز جھکڑ
اڑا کسی کا نشیمن
سو رہو
کہ اپنا آشیاں پختہ بنا چلے
کسی آہٹ پہ کان نہیں
کسی چینخ پہ آہ نہیں
سکون میں قلب لئے گنگنا چلے
پھر اپنا آپ سنوار چلے
بستیاں اجاڑ چلے

ابنِ سیّد

جماعت اسلامی کے امیر کا انتخاب

جماعت اسلامی ملک کی سب سے جمہوری جماعت ہے. یہ جمہوری رویہ اوپر سے لے کر نچلی سطح تک ہر لیول پر دکھائی دیتا ہے، اور اس ہی جمہوری رویہ کی بدولت غیر جمہوری رویہ، افراد، روایات کا پنپنا نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن بن جاتا ہے جو کہ جماعت کی ستّر سالہ تاریخ سے واضح بھی ہے. یہ صحیح ہے کہ جماعت اسلامی ملکی پارلیمنٹ میں کبھی چند سیٹوں سے زیادہ نہ لے سکی لیکن یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ اس کے باوجود ملکی سیاست پر سب سے زیادہ پر اثر اور ایکٹیو کردار جماعت اسلامی کا رہا ہے.
جماعت اسلامی نے اپنی روایات کے اور دستور کے مطابق امیر جماعت اسلامی کیلئے انتخاب کرائے. انتخابات کے نتائج سامنے آئے. لیکن اس کے ساتھ ہی ایک بے تکی میڈیا کمپین چل پڑی، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جماعت اسلامی کے جمہوری رویہ اور ہر کچھ عرصہ بعد قیادت کی تبدیلی کو میڈیا کو دوسری پارٹیز کیلئے مثال بنا کر پیش کرنا چاہیے لیکن اس کے برعکس ہم نے دیکھا کہ ایک الٹی کمپین چلائی گئی. جماعت اسلامی کے حوالے سے اندرونی اختلافات کے شک کا اظہار کیا گیا. یہ کوئی نئی بات نہیں حالیہ الیکشن میں کراچی میں بائیکاٹ کے بعد کچھ ایسی ہی خبریں ہم کو سننے کو ملیں تھیں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ لوگوں نے دیکھ لیا کہ بات کچھ بھی نہ تھی.
اس کی وجہ اصل میں یہ بھی ہے کہ ستّر سال ہوگئے اور جماعت اسلامی کا الحمدللّہ کوئی ف، ق، س، م، حقیقی، پارلیمنٹیرئن، یا پروگریسیو گروپ الگ ہو کر سامنے نہ آسکا جو کہ الحمدللّہ جماعت کے ممبران و ارکان کے اتفاق کا منہ بولتا ثبوت جبکہ جماعت کی کردار کشی کرنے والوں کی کھلی شکست ہے.
بعض افراد نے اس سلسلہ کو ڈاکٹر اسرار کے جماعت سے الگ ہونے سے ملانے کی کوشش کی، انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ڈاکٹر اسرار کا مذکورہ قصّہ ان کے جمعیت کے دور کا ہے. اور جمعیت اور جماعت دونوں میں امیر یا ناظم اعلی کے انتخاب کا طریقہ الگ الگ ہے. جمعیت اصتصواب رائے کے ذریعہ ناظم کا چناؤ کرتی ہے جبکہ جماعت اسلامی ووٹنگ کے ذریعہ. کسی بھی دو چیزوں کا آپس میں تقابل کرنے کیلئے انکا ایک جیسا ہونا ضروری ہے.
میڈیا کی جانب سے چلائی گئی اس کمپین کی بہتی گنگا میں سب نے ہاتھ دھوئے. کئی صحافی اس طرح رپورٹنگ کرتے اور تجزیہ کرتے نظر آئے جیسے وہ بذات خود اس ارکان کے اجتماع میں بیٹھے ہوں.
کہنے کا مقصد صرف یہی ہے کہ جماعت اسلامی کیلئے اس قسم کے ہتکنڈے کبھی اس کا قد کم نہ کرسکے. الحمدللّہ جماعت اسلامی کے کارکن آج بھی دل و جان سے جماعت اسلامی کیساتھ ہیں، کیوں کہ جماعت اسلامی کی بنیاد اشخاص پر نہیں بلکہ نظریہ پر ہے اور نظریہ بھی کوئی عام نہیں قرآن و سنّت کا نظریہ ہے، جس کو جھکانا ممکن نہیں.
ابنِ سیّد

Thursday, April 3, 2014

خوش کیسے رہا جائے

تاریخ کے حساس انسانوں نے اپنی زندگی کا زیادہ حصہ اداس رہ کر گزارا ہے- زندگی میں خوش رہنے کے لئے بہت زیادہ ہمت بلکہ بہت زیادہ بےحسی چاہیے-
(جون ایلیا)

اوپر دی گئی عبارت یا قول سے میں بالکل بھی اتفاق نہیں کرتا لیکن میں نے یہ اس لئے لکھا تاکہ تصویر کا دوسرا رخ بہتر طور پر ثابت کرسکوں. خوشی کیا ہے؟ وہ جو آپکے دل کو اطمینان دے. خوش رہنے کا مطلب یہ نہیں کہ انسان ہنستا رہے، زیادہ ہنسنا تو دل کے مردہ ہونے کی نشانی ہے. ہاں مسکراہٹ ضرور خوشی کی نشانی ثابت ہوسکتی ہے لیکن بہت سے افراد اداسی میں بھی مسکراہٹ سجائے رکھتے ہیں. کیا واقعی زندگی میں خوش رہنے کیلئے بے حس ہونا ضروری ہے؟ اور کیا اداس انسان زیادہ حساس ہوتا ہے؟ بالکل نہیں .. خوش رہنے کیلئے دل کا اطمینان ضروری ہے اور دل کا اطمینان ہمیشہ اللہ کی رضا میں ہے یہی وجہ ہے کبھی ہم کسی کی مدد کرتے ہیں تو ہمیں دل کا اطمینان حاصل ہوتا ہے جس کے نتیجہ میں ہمارا دل خوشی سے بھر جاتا ہے. کوئی برائی ہمیں خوشی نہیں دے سکتی، اس کے نتیجہ میں ہم شاید وقتی طور پر خوش ہو سکتے ہیں لیکن بالآخر یہ ہمارے دل کو بے اطمینان کردیتی ہے. راتوں کی نیند حرام کردیتی ہے اور نیند کی گولیوں کا عادی بنا دیتی ہے، یہاں تک کہ ضمیر کے کچوکے اور احساس ندامت اس وقتی خوشی کا سارا اثر لے ڈوبتا ہے. اور اکثر بے حس افراد اس مسئلہ کا شکار ہوتے ہیں. حساس شخص دوسروں کیلئے ضرور پریشان رہتا ہے لیکن دوسری جانب وہی شخص سب سے زیادہ خوش اور مطمئن ہوتا ہے. جبکہ اس کے برعکس ایک بے حس شخص خوشی سے کوسوں دور بے اطمینانی کی حالت میں زندگی بسر کرتا ہے.
زندگی میں خوش رہنے کیلئے اللہ کے راستے پر چلنا ضروری ہے.
ابنِ سیّد

غدار کون؟

I am not a traitor
میں غدار نہیں ہوں. مشرف

کاش یہ خیال تمہیں اس وقت آتا جب امریکہ کے آگے سر تسلیم خم کیا. جب پاکستان کو بچانے کا نعرہ لگا کر پاکستان کا سودا کیا. جب ملا عبدالضعیف جو افغانستان کی جانب سے پاکستان میں سفیر تھے انکو امریکہ کے ہاتھ بیچا تو انہوں نے بھی کہا ہوگا "میں غدار نہیں!"، جب اکبر بگٹی کا بھیمانہ قتل ہوا، وہ بگٹی قبیلہ جس کے سربراہ کی دستخط سے بلوچستان پاکستان کا حصہ بنا انہوں نے بھی کہا ہوگا کہ میں غدار نہیں! جب قبائل پر ڈرون گرتے ہونگے تو وہ حکومت سے اور خود سے یہ سوال کرتے ہونگے کہ "کیا ہم غدار ہیں؟"، ڈاکٹر عبدالقدیر بھی غدار نہیں تھا اس کو کیوں نظر بند کیا گیا. ڈاکٹر عافیہ کو کراچی سے بگرام بچوں سمیت پہنچایا تو اس نے بھی کہا ہوگا، میں غدار نہیں، کیا اس کےمعصوم بچےغدار تھے؟ نہ چیف جسٹس غدار تھا جسے تم نے معطل کیا نہ غازی عبدالرشید غدار تھا جنہیں تم نے فاسفورس سے جلایا. دس سال ملکی آئین روندنے کے بعد، ہزاروں افراد کا سودا کرنے کے بعد، جہاد کشمیر پر پابندی لگانے کے بعد، افغانیوں کے قتل میں ساتھ دینے کے بعد، ملکی معیشیت کا جنازہ پڑھانے کے بعد، غنڈوں کے ساتھ حکومت بنانے کے بعد، سیاست کو گھر کی باندی بنانے کے بعد، آج جب مکافات عمل شروع ہوا تو عدالت میں گھگھیا گھگھیا کر کہنے لگا کہ مجھے ماں کے پاس جانے دو، عدالت آتے ہوئے دل کا درد بڑھ جاتا ہے، کوئی کونا بھی محفوظ نہیں پاتا، ملک سے باہر جانے کیلئے منّت پر اتر آیا...
اب سزا ہو یا نہ ہو، یہی بے عزتی تمہاری سزا ہے. دنیا کی سزا تمہارا کیا بگاڑے گی، یہاں زیادہ سے زیادہ موت ہی ہے. لیکن اخروی سزا بہت شدید ہے. کیوں کیا اب بھی ڈرتے ورتے کسی سے نہیں؟
ابنِ سیّد

Wednesday, April 2, 2014

پانی سے چلنے والی گاڑی

آج سے کچھ عرصہ پہلے ایک صاحب نے پانی سے گاڑی چلانے کا دعوی کیا، بعض افراد کے نزدیک انہوں نے چلا کر بھی دکھا دی تھی. حامد میر کے پروگرام کیپیٹل ٹاک میں اس سائنس دان کو بلایا گیا اور اس ہی پروگرام میں پاکستان کے دو ذہین دماغوں کو کانفرنس پر لیا گیا. ان میں سے ایک تھے ڈاکٹر عطا الرحمن جبکہ دوسرے ڈاکٹر عبدالقدیر خان تھے، دونوں ہی ہمارے لئے قابل احترام اور ہمارے ملک کا اثاثہ ہیں. اب اصل واقعہ ملاحضہ فرمائیں جب ڈاکٹر عطاء الرحمن سے رائے لی گئی تو ان کا تجزیہ بہت بے لاگ اور اگر یہ کہا جائے کہ تکلف کو بالائے طاق رکھ کر کیا تو زیادہ بہتر ہوگا انہوں نے کہا کہ (الفاظ آگے پیچھے ہو سکتے ہیں مفہوم کم و بیش یہی ہے، راقم) "دنیا بھر میں دیکھ لیں اور بیشک گوگل کرلیں آپکو نظر آئے گا کہ اس طرح کے دعوے کرنے والوں کو پانچ دس پندرہ سال کی سزا ہونا معمول کی بات ہے جب ایک چیز ہو ہی نہیں سکتی تو انہوں نے کیسے کرلی، یہ سراسر دھوکے بازی ہے" . حامد میر نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے رائے جاننا چاہی اور ٹکرا لگاتے ہوئے پوچھا کہ ڈاکٹر صاحب کیا یہ صحیح ہے کہ یہ سب دھوکہ ہے، جس پر ڈاکٹر عبدالقدیر نے بہت پیاری بات کی، کہنے لگے "کوئی دھوکے بازی نہیں، اگر ایک شخص نے کوئی سائنسی دعوی کیا ہے تو اس کو رد کرنے والے شخص کو اس کی مخالفت میں کوئی تھیوری لانی چاہیے ناں کہ دھوکہ بازی کے الزام لگائے، میں جب ایٹم بم بنانے کے پراجیکٹ پر کام کر رہا تھا تو بہت سے لوگوں نے کہا کہ یہ ناممکن ہے اور مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ ایک صاحب دعوی کرتے ہیں کہ مکھن بنانے والی مشین سے بم بنائیں گے،بہرحال اللہ نے اس مشن کو مکمل کیا اور کامیاب کیا".
دونوں کے الفاظ کو ایک بار پھر سے پڑھیں، آپ سمجھ جائیں گے کے پاکستان ریسرچ کے میدان میں کیوں پیچھے ہے. شاید ہر دوسرے میدان کی طرح یہاں بھی بڑی مچھلیاں چھوٹی مچھلیوں کو نگلنے کیلئے تیار بیٹھی ہیں. ڈاکٹر عبدالقدیر نے اس سائنس دان کی تائید نہیں کی بلکہ نہایت مناسب الفاظ میں اختلاف کرنے کا طریقہ بتلا دیا جبکہ دوسری جانب عطاءالرحمن صاحب نے اس ہی شخص کو دھوکے باز کے لقب سے نوازا. فرق رویہ کا ہے. جبکہ ہم سب جانتے ہیں کہ سائنس کا میدان ایک کھلا سمندر ہے یہاں ہر دوسرے دن نئی تھیوری سامنے آتی ہے اور پرانی تھیوری رد ہوجاتی ہے لیکن ہماری کتابوں میں رد شدہ تھیوریوں کی موجودگی اس بات کی غماز ہے کہ ان تھیوریز کے بانیوں کے کام کو بھی اچھے الفاظ میں سراہا گیا ہے.
زبان کا زخم تلوار کے زخم سے زیادہ کارگر ہوتا ہے! بعض دفعہ آپکے منہ سے نکلا ہمت افزا ایک لفظ کسی کی زندگی بنا دیتا ہے، اور بعض دفعہ یہی ایک لفظ بنتی بگاڑ دیتا ہے.
ابنِ سیّد

جس کا کام اسی کو ساجھے

اس بات کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا جنگ اخبار کے اتوار میگزین میں ایدھی صاحب کا انٹرویو شائع ہوا، انٹرویو کرنے والے نے غلط کام یہ کیا کہ انکے فلاحی کاموں کے متعلق سوالات کے علاوہ ان سے مذہبی سوالات بھی کر بیٹھے، ایک سوال جہادیوں کے متعلق کرلیا تو جواب ملا کے جہادی شارٹ کٹ میں جنَّت میں جانا چاہتے ہیں چند اور جواب بھی اس ہی طرح کے دۓ، اب ہر طرف ہاہاکار مچ گئی حالاں کہ قصور ایدھی صاحب کا نہیں سوال پوچھنے والے کا ہے. اب اگر مجھ جیسے عام آفس ورکر سے کیمیات کا سوال پوچھو اور میں صحیح جواب نہ دوں تو قصور کس کا؟ اگر ایک شخص دینی علم میں اتنی معلومات نہیں رکھتا تو کس نے کہا کہ اس کی ذاتی رائے کریدو، معلوم کرو اور اس کو فتوی کا درجہ دے کر اخبار میں شائع کردو!
لیکن یہ صرف ایک مثال نہیں اس ملک میں ان گنت مثالیں ایسی ملیں گی. یہاں آپکو فوجی امور سے نابلد خبطی افراد دفاعی تجزیہ نگار بنے بیٹھے دکھیں گے. تو دوسری جانب ایک معروف ایکٹریس و کامیڈین، موسیقی کے پروگرام میں جج بنی بیٹھی دکھائی دیں گی. اداکارہ میرا استغفار نامی پروگرام کرتی دکھیں گی تو دوسری جانب اچھل کود مچاتا مداری عالم آن لائن کی میزبانی کرتا دکھائی دے گا. قصور ان کا نہیں بلکہ اس کا ہے جو ان کو اس مقام پر بٹھا رہا ہے.
یہ سب بتانے کا مقصد :- اسلامی امور کے مطابق لوگوں تک معلومات علماء، مفتیان اور دینی علم رکھنے والے افراد ہی پہنچائیں گے! میڈیا چینل مالکان اسلامی نظریاتی کونسل کو اپنے گھر کی کھیتی سمجھ کر اس کے کام پر کیچڑ نہ اچھالیں! جس کا کام ہے اس ہی کو کرنے دیں ورنہ ان میڈیا مالکان اور دین بیزار افراد کے ہاتھ میں اقتدار آجائے تو بعید نہیں کہ کل کو ماروی سرمد کو اس کونسل کی ذمہ داری سونپ دیں.
دیکھتا جا... شرماتا جا

ابنِ سیّد
Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...

Facebook Comments