Sunday, December 29, 2013

سود اور یوتھ ڈیویلپمنٹ لون اسکیم

جب کسی بری چیز کو تھوڑا تھوڑا کر کہ لایا جائے تو اکثر پتا نہیں لگتا یا جب پتا چلتا ہے تو بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے. یہ بالکل اسی طرح ہے کہ پینے کے پانی میں تھوڑی تھوڑی کرکے ملاوٹ کی جائے تو معلوم نہ چلے گا لیکن اگر اچانک ہی ملاوٹ کردی جائے تو پینے والا قے کردے.
سود بھی ایسی ہی لعنت ہے. اسلام میں سود لینا دینا حرام ہے بلکہ اس سے متعلق تمام افعال کرنے کی ممانعت ہے. قرآن کے مطابق سود اللہ کیخلاف جنگ کے مترادف ہے جبکہ ایک حدیث کے مطابق سود کے کئی درجے ہیں جس میں سے سب سے کمتر کا گناہ اس گناہ کے برابر ہے کہ ایک شخص اپنی ماں سے بدفعلی کرے.
"اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے اور کھلانے والے، اسکو لکھنے والے،اور دونوں گواہان پر لعنت فرمائی ہے اور فرمایا کہ یہ سب گناہ میں برابر ہیں. (ابنِ ماجہ حدیث 2277)"
لا حول ولا قوت الا باللہ
قیامت کی نشانیوں میں سے ہے کے برائی کو برائی نہ سمجھا جائیگا. سب سے ذلت کا مقام وہ ہے جب برائی کھلے عام ہو اور کوئی اس کے خلاف آواز اٹھانے والا نہ ہو. برائی عام ہوجائے اور لوگ اس میں ملوث رہیں اور انہیں معلوم ہی نہ چلے کس دلدل میں گر کر دنیا و آخرت برباد کرلی.
اور پھر ہم دیکھتے ہیں ایک "اسلامی" ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان کا وزیر اعظم سود پر قرضے بانٹنے کی اسکیم لے کر آتا ہے، اللہ سے گویا اعلان جنگ کرتا ہے اس لعنت کے حقدار بننے کے خواہش مند افراد گویا اس فوج کا حصہ بن رہے ہیں جو نعوذباللہ اللہ سے جنگ کر رہی ہے.
اس اجتماعی گناہ کو کرنے کے بعد بھی اگر ہم اپنے حالات پر پریشان ہیں تو ہمیں کوئی حیرت نہیں ہونی چاہئے. اللہ کی ناراضگی کا مکمل سامان کرنے کے بعد اگر ہم اپنے ملکی حالات پر فکرمند ہیں تو مجھے تعجّب نہیں. یہ تو اللہ کی بہت بڑی مہلت ہے کہ اللہ نے اس اجتماعی گناہ اور اللہ کیخلاف کھلا اعلان جنگ کرنے کے بعد بھی ابھی تک ہمیں کسی موذی عذاب سے بچایا ہوا ہے.
اگر ہم چاہتے ہیں کہ اللہ کی رحمت ہم پر برسے اور ہم اپنی کھوئی ہوئی میراث دوبارہ حاصل کریں تو ہمیں سود کی اس لعنت سے دور ہونا پڑیگا، اجتماعی توبہ کی سخت ضرورت ہے اور اس برائی کو ملکی سطح پر روکنے کی ضرورت ہے جو نوجوان اس اسکیم کا حصہ بننے جارہے ہیں ان تک بھی یہ بات پہنچانی پڑیگی. اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو.

ابنِ سیّد

References:
1. Youth loan sceheme information : http://youth.pmo.gov.pk/?page_id=21
2. Hadith Reference from Ibn e Maaja

Friday, December 27, 2013

موروثی سیاست Say No To

سیاسی ٹاک شوز میں آج کل بات چل رہی ہے کہ پاکستانی سیاست کے نئے چہرے کیا ہونگے. یہ باتیں کر رہے ہیں بلاول زرداری کے بارے میں جو آج کل پاکستانی سیاست سیکھ رہا ہے (اردو بھی سیکھنا چاہئے). یہ بات کر رہے ہیں حمزہ شہباز اور مریم نواز کے بارے میں، فاطمہ بھٹو کے بارے میں کہ شاید یہ پاکستان میں سیاست کے اگلے چہرے ہوں. دوسری جناب پاکستان کے عوام ہمیشہ سیاست دانوں سے یہ شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ یہ موروثی سیاست ٹھیک نہیں اور باپ کے بعد بیٹا بیٹی اور بھائیوں کے بجاۓ دوسرے زیرک سیاسی کارکنان کو موقع دیا جانا چاہئے. دوسری جانب ہم دیکھتے ہیں بعض اسلامی تنظیمیں انکا حال بھی ایسا ہی ہے جمعیت علماء اسلام (ف) مولانا فضل الرحمن کے والد کے بعد وہ بنے، جمعیت علماء پاکستان میں مولانا نورانی کے بعد انکے بیٹے انس نورانی اور اویس نورانی سامنے آئے.
لیکن ایک جماعت ہے جو موروثی سیاست کی نا صرف زبانی بلکہ عملی طور پر بھی مخالفت کرتی ہے. جماعت اسلامی! جہاں مولانا مودودی کے بعد میاں طفیل (جن کا مودودی صاحب سے صرف اسلامی بھائی چارے کا رشتہ تھا)، بعد کے امراء میں قاضی حسین احمد اور اب منور حسن اور یقیناً یہ خالص جمہوری رویّہ ہی جماعت کا خاصہ ہیں. پاکستانی عوام کو بھی اب یہ شعور حاصل کرنا چاہئے کہ اب ان جماعتوں کا ساتھ چھوڑ کر ان جماعتوں کا ساتھ دیں جہاں ایک کارکن ترقی کرتا جماعت کا امیر بن جائے.
سیاسی جماعتوں کے علاوہ:
اور آخر میں چند غیر سیاسی لوگوں کے اقوال، واصف علی واصف صاحب کا کہنا ہے کہ گدّی نشینی کے موروثی تصوّر کو بھی تبدیل ہونا پڑیگا، کیوں کہ اگر نبوت و خلافت موروثی بنیاد پر نہیں تو گدّی نشینی کیسے ہوسکتی ہے.
یہ بھی کسی سے سنا ہے کہ اشرف المدارس کے الحاج حکیم اختر صاحب نے بھی وفات سے پہلے اپنے ایک "شاگرد" کو اپنی مسند کیلئے پسند کیا.

ابنِ سیّد

(میرے الفاظ حرفِ آخر نہیں اگر اس تحریر میں کوئی تصحیح یا اضافہ ہو سکے تو ضرور کیجئے. جزاک اللہ)

Thursday, December 26, 2013

جنَّت کے مسافر


میری لائبریری کی زینت بنی یہ کتاب " جنَّت کے مسافر"، کل پڑھنی شروع کی تو پڑھتا ہی چلا گیا. یہ کتاب میرے پاس میرے ناظم کے ذریعہ پہنچی جسے میں اب تک واپس نہیں کر پایا. سرورق ایک خوبصورت شعر لکھا ہے،
وہ دیکھ چمکتی رہ گزر
کرنا ہے تجھے ہمت سے سفر
فولاد کا دل رکھ سینے میں
آئیگا مزہ پھر جینے میں
ایک کے بعد ایک شہداء کے واقعات پڑھ کر معلوم ہوا کراچی میں کن نامساعد حالات میں جمعیت نے کام کیا اور ابھی تک یہ کام چل رہا ہے باطل کے دلوں پر اسی کی بدولت ہیبت طاری ہے اور یہ ہیبت یہ "دہشت" ان کے دلوں پر طاری رہیگی جب تک یہ باطل کی سرپرستی ترک نہیں کردیتے. حافظ محمد اسلم سے شروع ہوا یہ سلسلہ نہ جانے کب بند ہو، اللہ ان تمام لوگوں کو ہدایت دے جو ماؤں سے انکے جگر گوشہ چھین لیتے ہیں، بہت ہی سخت حساب دینا ہوگا انہیں شاید یہ کبھی سوچتے نہیں ...
کیا دوسری طلبہ تنظیمیں، کیا یونیورسٹی کی انتظامیہ، کیا پولیس کیا حکومت ہر طرف سے مخالفت کے تیر ہیں اور جمعیت کا سینہ، لیکن اس پر بھی جمعیت کا عزم اور حوصلہ قابل دید ہے. کوئی اور لوگ ہوتے تو کب کے مٹ چکے ہوتے لیکن یہ جمعیت ہے.
لوگ کہتے ہیں ہم کامیاب نہیں ہوئے مجھے نہیں معلوم دوسروں کیلئے کامیابی کا اصل مفہوم کیا ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ لبرلز کی بے انتہا مخالفامہ کمپین کے بعد بھی جب نعرہ لگتا ہے "پاکستان کا مطلب کیا؟" تو جواب یہی آتا ہے "لا الہ الا اللہ" تو مجھے لگتا ہے ہمارا مقصد پورا ہوگیا!
شکیل الدین قریشی شہید کہا کرتے تھے، انسان مرے تو شہادت کی موت. ورنہ ایسی زندگی کا کیا فائدہ جو یونہی صبح شام کرتے ختم ہوجائے.

ابنِ سیّد

چھبیس دسمبر 1981 یوم شہادت دانش غنی جامعہ کراچی

چھبیس دسمبر 1981 یوم شہادت ہے دانش غنی شہید کا جن کو جامعہ کراچی میں نام نہاد لبرلزم کے علمبرداروں نے شہید کیا. دسمبر 1981 اسی سال این ای ڈی میں بھی جمعیت یونین کے انتخابات 800 ووٹوں کی بھاری اکثریت سے جیتی. جامعہ کراچی میں بھی بالآخر جمعیت کے کامیاب ہونے کے بعد سب نے جان لیا کہ طلبہ نے لبرلزم اور قوم پرستی کو مسترد کردیا ہے اور یہی بات ان نام نہاد لبرلز کے ماتھے کا کلنک بنی جس کا بدلہ انہوں نے دانش غنی جیسے طلبہ رہنماؤں کو شہید کر کہ لیا. لیفٹسٹ یہ سمجھے تھے کہ کچھ لوگوں کو شہید کرکے شاید تحریک کو روکا جاسکتا ہے، آج جمعیت کراچی تا خیبر زندہ ہے لیکن ان لبرلز کی طلبہ جماعتوں کا نام بھی کوئی نہیں جانتا!! وقت جانتا ہے جب بھی ہم نے اللہ کی عدالت میں اپنا کیس رکھا اللہ نے ظالموں کو برے انجام سے دوچار کیا.

دانش تیرا قافلہ رکا نہیں تھما نہیں

Monday, December 23, 2013

جمعیت کے بعد

جب ایک شخص جمعیت میں ایک عرصہ گزارنے کے بعد فارغ ہوتا ہے تو اسکی حالت اس بچے کی سی ہوتی ہے جو بھرے بازار میں اپنی ماں سے بچھڑ گیا ہو ایسے میں بعید نہیں کہ کوئی اسے اچک لے جائے.
ایک نئی اور بھرپور دنیا اس کے سامنے ہوتی ہے وہ غلط راستے کی جانب بھی جا سکتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ کسی اور تحریک کا آلہءکار بن جائے.
میرے لحاظ سے ایسی صورتحال میں بہتر طریقہ یہی ہے کہ کسی پاکیزہ اجتماعیت سے فوری طور پر منسلک ہوجایا جائےجیسے جماعت اسلامی اور اس ہی نظریہ کی بعض تنظیمیں، جماعت کے افراد سے رابطہ قائم کیا جائے اور اجتماعات اور دروسِ قرآن میں شرکت یقینی بنائی جائے. اگر یہ سب بھی نہ ہو سکے تو اسلامی لٹریچر سے اپنا تعلق مضبوط کیا جائے. جمعیت کے ترانے بھی تحریکی زندگی کی یادیں تازہ کرنے اور مقصد حیات کی یاد دہانی کیلئے اچھا ذریعہ ہیں.
جو رفقاء جماعت کا حصہ بن جائیں وہ بھی اس بات کو مدِّ نظر رکھیں کہ ان ساتھیوں کو نہ بھولیں جو مصروفیات کی وجہ سے اجتماعیت کو وقت نہیں دے پارہے، اس طرح ہم ایک دوسرے کو حوصلہ دلا کر دنیا آخرت کی کامیابی کا راستہ دکھا سکتے ہیں ورنہ بعید نہیں کہ وہ تحریکی ساتھی اس دنیا کی بھیڑ میں اور معاش کی تلاش میں گُم ہو کر رہ جائیں.
جمعیت سے فراغت کے بعد یہی دور مجھ پر بھی آیا اور اس دوران جو کچھ محسوس کیا اس کو تحریر کی صورت دے دی، کوئی غلطی ہو تو اصلاح فرمادیں. جزاک اللہ

ابنِ سیّد

Freemasonry ...

بظاہر فلاحی خدمات کا ڈھونگ کرنے والی تنظیم فری میسنری دراصل خفیہ صیہونی تنظیم ہے. پاکستان میں آزاد خیال اور لبرلز اس کے مشن کو آگے بڑھا رہے تھے. ذوالگقار علی بھٹو نے 1972 میں فری میسنری کو خلاف قانون قرار دیا اور اس پر پابندی لگائی.عوام کے اصرار پر 1983 میں ضیا الحق نے اس کا قلع قمع کیا اور مکمل پابندی لگائی دفاتر بند کئے. صدر صدام حسین نے فری میسنری کے فروغ کیلئے کام کرنے والوں کو سزائے موت دلائی. (فری میسنری - ایک جائزہ) از رضی الدین سیّد
ذاتی خیال ہیکہ دیکھا جائے تو ممعلوم ہوتا ہیکہ اوپر بتائے گئے تمام افراد کو موت کے گھاٹ اتارا گیا. بھٹو صاحب اور صدام حسین پھانسی چڑھے اور ضیا الحق کا جہاز تباہ ہوا. بہت ممکن ہو یہ بھی اس ہی خفیہ ادارے کا کارنامہ ہو! ابنِ سیّد

اللہ اکبر

ایک رات اور گزر چکی ہے، مگر غم ابھی تک تازہ ہے، وہی بے چینی، وہی بے کلی، اپنے ایک مسلمان تحریکی ساتھی کے بچھڑ جانے کی اطلاع پر ابھی تک یقین کرنے کا دل نہیں کر رہا. سوچتا ہو دل کیوں بُجھا بُجھا سا ہے اس طرح کا غم اس دن بھی طاری ہوا تھا جب لال مسجد کے در و دیوار خون سے رنگین ہوئے تھے اور ایک خبر آئی تھی کہ غازی عبدالرشید ہلاک کردیے گئے. میرا دل اس دن بھی غم سے بوجھل ہوا تھا جب میں نے سنا کہ صدر مرسی کو قید کیا گیا. میں اپنے دل کو اسامہ بن لادن اور حکیم اللہ کی شہادت کے دن بھی نہ قابو کر سکا، یہ دل اس دنیا کے ضوابط نہیں مانتا جس میں ہم رہ رہے ہیں. شیخ احمد یاسین کی شہادت بھی یاد ہے، ایک معذور شخص سے کیا لینا دینا انکا لیکن انکی اصل دشمنی نظریہ سے ہے. اور جب تک نظریہ زندہ رہیگا اس نظریہ کا حق ادا کرنے والے بھی پیدا ہوتے رہیں گے اور حق اور باطل کا یہ معرکہ بھی جاری رہیگا. دنیا سمجھتی ہے شاید چند جانوں کو ہلاک کر کے نظریہ دبایا جا سکتا ہے. ارے احمقوں! ہزاروں لاکھوں بھی شہید کردو مگر یہ نظریہ نہیں مرنے والا کیوں کہ یہ نظریہ قرآن سے لیا گیا ہے اور قرآن ہمیشہ قائم رہے گا اور یقیناً ہمارا نظریہ بھی. اور مرنے والی ہر لاش سے صرف اللہ اکبر کی صدا بلند ہوگی.
اَحد احد احد

اختلاف رائے

میری رائے یہ ہے آپکی رائے مجھ سے الگ ہو سکتی ہے. میں آپکی رائے کا احترام کرتا ہوں اور جواب میں یہ چاہتا ہوں کہ آپ میری رائے کا بھی اس ہی طرح احترام کریں جیسے کہ میں کرتا ہوں. آپ بھی ٹھیک ہوسکتے ہیں اور میری رائے بھی درست ہو سکتی ہے، یعنی ہم دونوں کی رائے بیک وقت ٹھیک ہو سکتی ہے یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہم دونوں کی رائے غلط ہو اور کسی تیسرے کی رائے ٹھیک ہو. ہم سب کو چاہئے ایک دوسرے کی رائے کا احترام کریں.
لیکن مسائل اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب ہم اپنی رائے کو اپنی "انا" کا مسئلہ بنا لیں اور اسی پر ہی اصرار کریں اور باقی سب کو باطل قرار دے دیں جس کا نتیجہ اکثر یہ نکلتا ہے کہ دوسرا فرد بھی اس رویہ کی وجہ سے ہمارے جیسا رویہ اپنا لیتا ہے اس طرح دونوں افراد ایک دوسرے کی رائے سے منہ پھیر کر اپنی رائے پر مصر ہوجاتے ہیں اور سیکھنے سمجھنے کے تمام راستے بند کرلیتے ہیں.
دینی لحاظ سے دیکھا جائے تو اس بارے میں مولانا مودودی کا نام لینا پسند کروں گا کہ کئی دفعہ علمی مسائل پر اختلاف کے جوابات دینے کے بعد اکثر انکا جملہ یہی ہوتا تھا کہ "جہاں تک میری سمجھ بوجھ ہے اس لحاظ سے میری رائے یہی ہے کوئی سمجھتا ہے کہ اسکی رائے زیادہ مضبوط ہے تو وہ اس پر عمل کرے".شاید ان کے اسی طرز عمل نے مجھے انکی تحاریر کا گرویدہ بنایا. بیشتر بالغ نظر علماء کے جواب یہی ہوتے ہیں. شاید میں بھول رہا ہوں ایک امام* کے بارے میں ہے کہ وہ ہر فتوی کے آخر میں "واللہاعلم" کہنا نہ بھولتے. ایک اور عالم* بیشتر مسائل کے جواب میں "لا ادری" (مجھے نہیں معلوم) کہنے میں نہ ہچکچاتے .مودودی صاحب جیسے اسی طرح کے الفاظ میں غامدی صاحب سے بھی کسی ٹی وی پروگرام میں سن چکا ہوں. دوسری جانب ایک اور صاحب جو آج کل ٹی وی میں کافی دکھائی دیتے ہیں (میں نام نہیں لوں گا) ایک مسئلہ کے جواب میں سائل سے کہتے ہیں کہ "جن سے آپ نے مسئلہ معلوم کیا ہو ہوسکتا ہے انکا علم اتنا نہ ہو!" بہرحال پہلے بیان کئے گئے جملے اور اس جملے کا فرق آپ دیکھ سکتے ہیں اختلاف رائے میں لہجہ بھی کافی فرق پیدا کرتا ہے.
تحریر لکھنے کا مقصد یہی ہے کہ سابقہ دور میں بیشتر علماء ایک دوسرے سے اختلاف رائے رکھنے کے باوجود بھی ایک ساتھ مل بیٹھ کر تحقیق کیا کرتے تھے انکے آپس کے تعلقات اچھے ہوتے یہی اثر انکی رائے پر عمل کرنے والوں میں بھی تھا. لیکن آج بیشتر مسائل شاید اسی وجہ سے ہیں کہ ہم اپنی رائے دوسروں پر تھوپنے کی کوشش کرتے ہیں اور اختلاف رائے کو اپنی انا کا مسئلہ بنا لیتے ہیں. واللہ اعلم
یہ میری رائے تھی اگر کوئی ساتھی تصحیح یا اس میں اضافہ کرنا چاہیں تو ضرور مدد کریں. جزاک اللہ
*جن علماء کے نام ذہن سے نکل گئے اگر کوئی صاحب یاد دلا دیں تو شکریہ

Friday, December 20, 2013

یہ دوہرا معیار کیوں؟

طالبان بے بامیان کے بے جان مجسموں کو تباہ کیا تو لبرلز چلا اٹھے یہاں تک کہ اقوام متحدہ نے اقتصادی پابندیاں لگا دیں اور جیتے جاگتے لوگ بھوکے مرنے لگے لیکن شاید پتھر کہ بت ان زندہ انسانوں سے عظیم تھے.
دوسری جانب ہم دیکھتے ہیں کہ اقوام متحدہ کے منع کرنے کے باوجود بنگلہ دیش میں عبدالقادر ملا کو پھانسی چڑھا دیا جاتا ہے لیکن دنیا بھر میں سزائے موت کے خلاف شور مچانے والے لبرلز اس کیخلاف بولنے کےبجاۓ کہتے ہیں کہ اچھا ہوا مجرم مجرم ہے. عقل ہے محو تماشہ ء لب بام ابھی. ... اقوام متحدہ ایک جانب پتھر کے بتوں (ثقافتی ورثہ) کو بچانے کیلئے طالبان حکومت پر پابندی لگاتی ہے لیکن ایک انسانی جان کو بچانے کیلئے صرف قرارداد سے کام چلاتی ہے.
قرآنی آیت کا مفہوم ہے کہ ''یہ کافر اس وقت تک تم سے مطمئن نہ ہونگے جب تک تم انکے دین میں شامل نہ ہوجاؤ". یہ دنیا کے روشنخیال اس وقت تک ہم سے نالاں رہیں گے جب تک اسلام ہماری زندگیوں کا حصہ رہیگا لیکن جس دن کوئی اسلامی احکامات کو اتار پھینکے گا تو وہ ان کا منظور نظر بن جائیگا. اب یہ ہم کو فیصلہ کرنا ہے کہ اسلام کا ساتھ دینا ہے اور اللہ کو راضی کرنا ہے یا پھر دنیا کی خوشنودی کی خاطر اللہ کی ناراضگی مول لینی ہے.

ابنِ سیّد

Thursday, December 12, 2013

عبدالقادر مولاہ آپ امر ہوگئے

From : http://www.bangladeshfirst.com/
بارہ دسمبر کی سرد رات اور ایک چینل پر چلنے والا ٹِکر، بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے رہنما عبدالقادر مولاہ کو پھانسی دے دی گئی. حسینہ واجد نے اپنے باپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ظلم اور پرو-انڈیا ہونے کی روایت قائم کی اور دوسری جانب عبدالقادر نے انبیاء کی سنّت کو زندہ کرتے ہوئے موت کو گلے لگا لیا لیکن باطل کی خدائی کو قبول نہ کیا. انہوں نے دنیاوی عدالتوں سے رہم کی اپیل نہ مانگی وہ چاہتے تو اپیل کر سکتے تھا لیکن اپنے قائد مودودی کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے انہوں نے اس اپیل کی ضرورت محسوس نہ کی اور اپنا مقدمہ یقیناً اللہ کے یہاں پیش کیا ہوگا بے شک اللہ ہی منصف اعلی ہے.
یہ وہی عبدالقادر مولاہ ہے کہ جن کے پاس ایک دن پہلے انکا وکیل جاتا ہے اور ملاقات کے بعد حیرت سے کہتا ہے کہ مجھے تو لگا ہی نہیں کہ اس شخص کو رات پھانسی ہونے والی ہے. وہی اطمینان بھرا لہجہ وہی چمکتا چہرہ وہی مسکراہٹ لئے مجھ سے کیس کی تفصیلات پر بات کرتا ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو.
آخری اطلاعات تک عوامی ردِّ عمل کی خبریں ہیں، عوام نے احتجاج کیا، اقوام متحدہ نے اپیل کی، ترکی کے صدر اس بربریت پر چلا اٹھے لیکن بنگلہ حکومت خونِ ناحق اپنے سر لینے پر تل گئی. لیکن مجھے ان سے شکایت نہیں مجھے تو ان پاکستانیوں سے شکایت ہے جو حکومتی سطح پر ایک احتجاج بھی نہ ریکارڈ کروا سکے، اگر پاکستان اپنا احتجاج ریکارڈ کرواتا یا سفارتی تعلقات منقطع کرنے کی دھمکی دیتا تو بہت کچھ ہو سکتا تھا لیکن ایسا نہ ہو سکا، جو جماعت اسلامی پاکستان کو البدر بنانے پر اور پاکستان بچانے کی کوشش پر آج تک طعنے دے رہے ہیں انکی نظر میں جماعت اسلامی بنگلہ دیش کی کیا اہمیت.
سوچتا ہو اگر اس دور میں جماعت نے سقوطِ ڈھاکہ کی مخالفت کے بجاۓ حمایت کی ہوتی تو یہ سب نہ ہوتا، اگر بنگلہ جماعت کے لیڈران ملک سے فرار ہوگئے ہوتے تو یہ سب نہ ہوتا، لیکن ملک بچانے کی کوشش بھی کی! اپنی زمین اور لوگوں کو چھوڑ کے بھی نہیں گئے، اسلام سے وفادار رہے اور اسکا صلہ شہادت کی صورت میں ملا، یقیناً عبدالقادر مولاہ کے چہرہ پر وہی نور ہوگا، وہی مسکراہٹ ہوگی، وہی اطمینان ہوگا، شہادت کا مزہ دنیا کیا جانے یہ تو اللہ والوں، اسلام کے شیدائیوں، محمد کے غلاموں اور اقبال کے شاہینوں کا تحفہءِخاص ہے. ایک اور سولہ دسمبر آیا چاہتا ہے... کون کہتا ہے تاریخ خود کو نہیں دہراتی!
عبدالقادر مولاہ تم امر ہوگئے! !!


ابنِ سیّد

Wednesday, December 11, 2013

ایسٹ انڈیا کمپنی کے "شہداء"

جب انگریز بر صغیر میں آئے تو ایسٹ انڈیا نام کی کمپنی کھولی بعد ازاں یہیں قابض ہوگئے، فوج بھی بنائی اور اس میں مقامی بھی بھرتی ہوئے، اس میں مسلمان بھی تھے ہندو بھی ہونگے. ان فوجوں کو لڑنے دوسرے ممالک بھی بھیجاجاتا ہوگا. مسلمان فوجی یقیناً نعرہ تکبیر ہی لگا کر لڑتا ہوگا اور جب برطانیہ کی یہ فوج جس کا ایک مسلمان سپاہی کسی ایسے ملک پر حملہ آور ہوتا ہوگا جس میں مسلمان رہتے ہیں جیسے ایسٹ انڈیا کمپنی نے سرحدی علاقوں کو اپنی مملکت میں شامل کرنے کیلئے حملہ کیا تو وہاں انکا غیّور قبائل نے مقابلہ کیا. اب صورتحال کچھ یوں ہوگی ادھر سے مارنے والا بھی خود کو مسلمان کہتا ہوگا اور دوسری جانب اپنے علاقہ کا دفاع کرنے والا بھی مسلمانیت کا دعویدار ہوگا. ایک انگریزوں کا وفادار ہوگا اور دوسرا اپنے علاقہ کو بچا رہا ہوگا اپنے گھر کو بیوی بچوں کو ہجرت کروا رہا ہوگا. اور پھر ایسٹ انڈیا کمپنی کا وہ فوجی جوان جو ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہوا ہوگا کسی طرف سے آئی گولی کا نشانہ بن جاتا ہوگا اور یقیناً وہ شہید کہلاتا ہوگا، حکومت اسے اعزاز سے نوازتی ہوگی. تاج برطانیہ کا وفادار لیکن اسکی نماز جنازہ بھی ادا کی جاتی ہوگی... شاید اس وقت علماء کہتے ہونگے کہ تاج برطانیہ کی وفاداری میں اور انگریزوں کی نوکری کرنے فوج میں نہ جاؤ اور اپنے ہی بھائیوں کو نہ مارو. شاید اس بات پر بھی اختلاف ہوا ہو کہ آیا انگریزوں کے شانہ بشانہ لڑتی یہ اتحادی افواج حق پر ہیں یا نہیں، اس میں شامل مسلمان فوجی شہید کہلائے جائیں گے کہ نہیں، شاید ایسا ہوا ہو، یہ پتا لگانے کیلئے تاریخ کے اوراخ پلٹنے ہونگے ...


ابنِ سیّد

Tuesday, December 10, 2013

غلطیاں لاتعداد، مگر حل کیا ہے؟ on Saach.tv

This blog can also be seen here http://www.saach.tv/2013/11/30/ghaltiyan-latadad-lakin-hal-keya-hai/

Image from here: http://www.saach.tv/wp-content/uploads/2013/11/blog173-580x1361.jpg


یو ٹرن

یو ٹرن لینا خطرناک ہو سکتا ہے خاص طور پر اس وقت جب رفتار ہلکی نہ کی جائے، اس کے نتیجہ میں سواری میں سوار افراد کو نا صرف جھٹکا لگتا ہے بلکہ بعض اوقات گاڑی الٹ بھی سکتی ہے اور جانوں کا زیاں ہو سکتا ہے.
یہی کچھ ہم نے کیا، ہم نہایت تیز رفتار سے ایک جانب چلے جارہے تھے کہ یکایک یو ٹرن لے لیا گیا اور تو اور اسکے نتیجہ میں پیش آنے والے جھٹکے کو سمبھالا دینے کیلئے نہ رفتار ہلکی کی بلکہ اور تیز کردی. جس کی وجہ سے گاڑی میں بیٹھے افراد کو ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑا. ہم اسلام پسندی کی گاڑی میں سوار تھے یہ رفتار گو کہ کچھ زیادہ نہیں لیکن مناسب ضرور تھی، ہم افغانستان میں کشمیر میں جہاد میں مصروف تھے، ہم کھل کر اپنی رائے کا اظہار کرتے تھے کہ یکایک امریکہ کی ایک کال پر یوٹرن لے لیا گیا. تمام جہادی تنظیموں پر پابندی لگا دی گئی. اسلام کا نام لینا اور اسلام پسند ہونا ایک جرم بنا دیا گیا. یہی نہیں اس یوٹرن لینے کے باوجود گاڑی الٹی سمت چلائی جانے لگی وہ ایسے کہ میڈیا کا منہ کھول دیا گیا اور فحاشی کا سیلاب اُمڈ آیا. اسلامی شعائر کا کھلے عام مذاق بنایا گیا، حدود اللہ کو پامال کیا گیا، حدود آرڈیننس ختم ہوا اور بے راہ روی عام ہوئی.
اور پھر اس یوٹرن کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہماری ہر اکائی میں کئی گروہ بن گئے ہماری حکومت امریکہ کی وفادار بنی ہماری فوج دو حصوں میں بٹی ہماری سیاسی اور مذہبی جماعتوں میں گروہ بنے اور لوگوں نے امریکہ کے ساتھ جنگ کو چُنا اور.ہماری فوج نے انکو روکا اس طرح ہماری فوج اور ان افراد میں لڑائی ٹھن گئی. پورا ملک جنگ کی لپیٹ میں آگیا، ایک کہ بعد ایک آپریشن ہوتا رہا کبھی راہ نجات تو کبھی راہِ فرار لیکن حالات بد سے بدتر ہوتے گئے. شاید غلطیوں کو سدھارا جاتا تو ملک ان حالات سے نکل سکتا تھا لیکن ان غلطیوں کو سدھارنے کے بجاۓ ان پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی گئی. بیماری کے خاتمہ کے بجاۓ بیمار کو ختم کرنے کی ناقص پالیسی اختیار کی گئی.
اب بھی اس بھنور سے نکلا جا سکتا ہے لیکن گاڑی کو صحیح ٹریک (صراط مستقیم) پر لانا ضروری ہے ورنہ نام بھی نہ ہوگا داستانوں میں.

ابنِ سیّد

Monday, December 9, 2013

سمجھ تو آپ گئے ہونگے

(نیچے لکھی گئی بیشتر باتیں بے بنیاد ہیں اپنی ذمہ داری پر پڑھیں)
نہایت ہی خوشی کے ساتھ کہنا پڑھ رہا ہے کہ آخر کار پاکستانی قوم نے پتہ لگا لیا کہ انکا اصل دشمن کون "نہیں" ہے یہ نہ ہی انڈیا ہے جس کہ بارے میں ہم چہ مگوئیاں کرتے ہیں اور اسکو پاکستان کے مسائل کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں اور نہ ہی امریکہ ہے جو پاکستان کے سرحدی علاقوں پر ڈرون گراتا ہے. یہ تو اندازہ ہم نہیں لگا سکے کہ اصل دشمن کون ہے البتہ یہ اندازہ لگا لیا کہ کون "نہیں ہے" لہذا ان دونوں سے اعلانِ برأت کرنے کے بعد باجماعت اپنے دشمن کو تلاش کیا جارہا ہے امید ہے مل ہی جائیگا، بچ کے کہاں جائیگا ..
بہرحال خوشی کی بات یہ ہے کہ ہم نے اپنے "دوست ملک" امریکہ کا دورہ کر کے اس سے اپنی شرائط منوا لیں. ایک شرط تو یہ کہ امریکہ پاکستان پر جب بھی ڈرون حملہ کرے پہلے سے بتا دے تاکہ ہم میڈیا کو بتا دیں کہ حملے کے بعد کن دہشتگردوں کی ہلاکت کی خبر جاری کرنی ہے تاکہ وہ اس کو اپنی بریکنگ نیوز بنا سکیں اس طرح پروگرام کی ریٹنگ بڑھے گی اور ملک میں مزید زر مبادلہ آسکےگا.
مزید خوشخبریاں یہ کہ پاکستان نے اب بغیر پائلٹ سے اڑنے والے جہاز بنا لئے ہیں اور پاک فضائیہ کے حوالے کردیے ہیں جس کے بعد امید کی جاتی ہیکہ پی اے ایف میوزیم میں آنے والے بچوں کو دیکھنے کے لئے ایک اور چیز مل جائیگی. اس کے علاوہ اس کا ایک اور فائدہ یہ بھی ہے کہ فضائیہ کے افراد اس کو اڑا کر لطف اندوز ہو سکتے ہیں. ہے نہ مزیدار...
جیسے کہ آپ کو معلوم ہوگا کہ امریکہ کو ہم دوست مانتے ہیں اور اسی دوستی کا حق ادا کرنے کیلئے انکل سیم اور انکے رشتہ دار دن رات لگاتار ٹِک ٹِک ٹِک ٹِک پاکستان کی تعمیر کرنے میں لگے ہوئے ہیں اب آپکو تو پتا ہے ایک بنی ہوئی جگہ کی رینوویشن کتنا مشکل کام ہے اور اس کو آسان بنانے کیلئے ڈرون کا استعمال کیا جاتا ہے یعنی ایک طرف سے ڈرون کی جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے مکان گرایا جائے اور دوسری طرف یو ایس ایڈ کے تعاون سے تعمیر کیا جائے. نہ جانے بعض لوگ اس کو ظلمِ عظیم ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں. مگر ادرک کیا جانے بندر کا مزہ اور یعنی الٹا کوتوال چور کو ڈانٹے اور آ بھینس مجھے مار، سمجھ تو آپ گئے ہونگے.
فرانس کی ملکہ نے تو روٹی کی جگہ کیک کھانے کی ہدایت کی تھی جبکہ ہمارے سیاست دان اس طرح کے مشورہ دینے میں نہایت سخی واقف ہوئے ہیں لہذا ہو دوسرے دن کوئی ٹرین میں آیت الکرسی پڑھ کے بیٹھنے کا مشورہ دیتا ہے تو کوئی ٹماٹر کی جگہ لیموں استعمال کا مشورہ، اس بات کا تخمینہ بھی لگوایا گیا ہے کہ اگر ان کے مشورہ اسی رفتار سے ملتے رہے تو جلد یہ زبیدہ آپا کاریکارڈ توڑ ڈالیں گے. آپکو تو معلوم ہے عوام کتنے رحم دل ہیں لہذا انہوں نے سیاست دانوں کو چپ رہنے کا عندیہ دے دیا ہے تاکہ زبیدہ آپا کا گھر ہنستا بستا رہے اور روزگار چلتا رہے.
اور آخر میں وہی گھِسا پٹا شعر عرض ہے:
 
اندازِ بیاں گرچہ مِرا شوخ نہیں ہے
شاید کہ تِرے دل میں اتر جائے مری بات

ابنِ سیّد

Because IJT stood against injustice!



Those who stand for the truth have to face consequences, this is the reason Jamiat is paying price of being firm against an unjust decision which was made by university administration as they cancelled allotment of the whole one boy’s hostel. Emptying a hostel means minimum of 5000 students will be homeless, and this was done by using force without the will of students. At this point Jamiat stand for justice, they are recognized as a student power and representatives of students of Punjab university, on behalf of the students they recorded their protest for not emptying the hostel, but against their will the police was called in the campus and the hostel was evacuated from boys by using force. If this is democracy then every student individual must have the right to protest and Jamiat was protesting in the campus on which again police was used to sabotage this peaceful protest, the resultant of which we are seeing, chaos.
By the analysis of the above situation we can clearly state that university administration is at fault. Students are the future of nation, using force on students can not be tolerated, in a democratic environment one must solve issues through talks and negotiations, but when strength is used then the first person to use it is guilty, and in this case the university administration is!
The role of media was surprising, seems like they were waiting for some news against Jamiat, so this time they break the news without any confirmation, the police did not identified who torched the bus, but the same media who use every violent news related to Karachi with the title of "unidentified armed men" this time they are publishing a fake story blaming Jamiat, without any proof without any evidence.
Every person can have differences on the concepts and ideology of the organization, but even those who are against Jamiat can endorse them for their trustworthy behavior and their pure character, even the strongest opponent can not blame Jamiat for corruption & vulgarity. But this time the media have shown a different story "wine"... do you ever drunk a wine with your party badge in it? This certainly prove how foolishly the story was cultivated, I wonder they did not get the idea of putting a Jamiat sticker on the bottle. Remember what they say, “Naqal Kay Liye Bhi Aqal Ki Zarurat Hoti Hai.”
And don’t forget vice chancellor and teachers who are been sued for doing bad with the students, the administration (vice chancellor) is creating this issue to hide his negligence in performing his duty but media is not showing this side, which shows true face of media. Media is not neutral but playing a part of a rival party.
In a talk show, the people from Jamaat Islami and Muslim League defended the character of Islami Jamiat Talba, because every person know this world is mortal, we have to answer on day in front of Allah, all lies will be exposed there. So be careful while giving your honest opinion about Islami Jamiat Talba.

Wednesday, December 4, 2013

دین میں کوئی جبر نہیں



بعض لوگوں کا مذہبی بحثوں میں پہلا جملہ یہ ہوتا ہے کہ آپ ڈنڈے کے زور پر لوگوں کو اسلام کی جانب نہیں مائل کر سکتے. یہ غلط ہے وہ غلط ہے اور درپردہ اس کے بعد اس کی آڑ میں اسلامی احکامات کو لتاڑنا شروع کردیتے ہیں.
اسلام کبھی بھی اس چیز کا حمایتی نہیں رہا کہ ایک اسلامی حکومت بھی چلتی رہے اور اس کے نیچے لوگ گناہ میں مبتلا زندگیاں گزاریں. اسلام کا تصوّر حکومت وہی سسٹم ہے جہاں تمام افراد اسلامی احکامات و قوانین کی پابندی کر کے زندگی گزاریں یہ کبھی نہ ہو سکے گا کہ گناہ کے کاروبار بھی آباد رہیں اور اس کو آزاد خیالی کا نام دیا جائے بہرحال لیبل لگانے سے ہیئت نہیں بدل جاتی. جہاں پر شریعت کے منافی کام ہوگا اس کی روک تھام کے لئے مناسب اقدام ایک اسلامی حکومت کا فرض ہے.
اور اسی سے بات آگے بڑھا کر لوگ افغانستان میں طالبان کی حکومت کو اس آیت کے مخالف قرار دے کر باطل قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں.
سب جانتے ہیں کوئی بھی معاشرہ قوانین کے بغیر نہیں چلتا اور ان قوانین کی پابندی کرانے کیلئے ایک فورس ضروری ہے. اب چاہے وہ پولیس ہو یا فوج یا ایف سی وغیرہ کام انکا قوانین کو لاگو کرانا ہے اور اگر کوئی ان قوانین کے مخالف جائے تو یقیناً اس پر الزام عائد ہوگا اور عدالت میں ثابت ہونے پر اس کو سزا دی جائیگی. یقیناً یہاں تک کسی کا اختلاف نہیں.
یہی چیز تو طالبان نے کی اقتدار انکے پاس تھا لہذا اسلامی اور قرآنی قوانین کے حساب سے جو اس کے خلاف جاتا تو اس کو اس ہی حساب سے جرم ثابت ہونے پر سزا دی جاتی. اب یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ایک ملک میں جرائم کی روک تھام اگر پولیس کرے تو کسی کو کوئی اعتراض نہیں لیکن جب یہی کام افغانستان میں منصبِ اقتدار پر فائز طالبان کریں تو اسے "لا اکراہ فی الدین" کے منافی گردانا جان کر اس پر جبر اور ظلم کا لیبل چسپا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے.
ابنِ سیّد
(درج بالا مضمون ایک اسلامی احکام کے بارے میں ہے، اگر اس میں کوئی بات غلط لکھ دی گئی ہے تو ضرور تصحیح فرمادیں. جزاک اللہ)

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...

Facebook Comments