Saturday, May 31, 2014

اب گورا ہوگا پاکستان ؟؟

زبیدہ آپا وائٹننگ سوپ، اب گورا ہوگا پاکستان! یہ اشتہار دیکھ کر ماتھا ٹھنکا، یوں لگا جیسے گورا نہ ہونا ایک جرم ہے ایک کمی ہے کہ جس سے بچنا بےحد ضروری ہے۔ ساٹھ سال ہو گئے ہمیں انگریزوں سے آزاد ہوئے لیکن گوری چمڑی کے سحر سے آزاد ہونے کیلئے شاید کافی وقت بلکہ وقت سے زیادہ ایک مثبت سوچ درکار ہے! جنید جمشید معروف کپڑوں کے صنعتکار اور ماضی کے گلوکار ہیں انہوں نے ایک دفعہ اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ایک زمانے انہوں نے میں ایک گانا بنایا تھا "گورے رنگ کا زمانہ" لیکن پھر انہیں اس غلطی کا احساس ہوا جس کے بعد انہوں نے اپنے ملک کے سانولے رنگ کے اوپر ایک گیت بنایا "سانولی سنلونی سی محبوبہ"۔ جنید جمشید نے تو اپنی غلطی سدھار لی، بلکہ آج کل الحمدللہ دعوت و تبلیغ سے وابستہ ہیں لیکن باقی افراد اپنی غلطیاں کب سدھاریں گے؟
کیا کالا ہونا اتنا بڑا جرم اور کیا یہ بہت بڑی کمی ہے؟اتنی بڑی کمی کہ اس کیلئے مختلف نیشنل اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کو اتنی محنت کرنی پڑ رہی ہے۔ لیکن اس سب اشتہاری کمپین کے دوران شاید ہی کسی نے یہ بات سوچی ہو کہ یہ اشتہارات ملک کی ایک بڑی اکثریت جو کہ سانولی اور کم رنگ کی ہیں ان کی دل آزاری کا سبب بن رہے ہیں۔ لیکن انہیں کیا؟ انہیں تو پاکستان کی صورت میں اپنی مصنوعات کی ایک بڑی مارکیٹ ایک بڑی کھپت مل رہی ہے اور وہ اس مارکیٹ کو اپنے معاشی فائدے کیلئے استعمال کر رہے ہیں۔
میڈیا عوام کی سوچ بناتا ہے اور عوام کے اندر پنپنے والی سوچ کو میڈیا دکھاتا ہے۔ اس کالے رنک کو ایک "کمی" بنا کر پیش کیا گیا اور اب اس کمی کو پورا کرنے کیلئے مختلف کمپنیاں سامنے ہیں۔ فیئر اینڈ لولی، اولیویا، کیئرز، وغیرہ وغیرہ۔ ان اشتہارات میں اس طرح کے منظر کشی کرنا کہ ایک لڑکی کا رشتہ اس کے گورے رنگ کی وجہ سے نہیں ہورہا پھر کوئی اس کو رنگ گورا کرنے والی کریم استعمال کرنے کا مشورہ دیتا ہے۔ صاحبہ استعمال کرتی ہیں اور اگلے دن اٹھتی ہیں تو گوری ہوتی ہیں (ویسے یہ اگلا دن زیادہ بتا دیا بعض تو منٹوں میں گورا کرنے کا دعوی کرتے ہیں) بہرحال اسی لمحے ایک امیرزادے کی نظر ان پر پڑتی ہے اور وہ بے دھڑک اپنی والدہ سمیت رشتہ لئے پہنچ جاتے ہیں۔ اشتہار کا اختتام شہنائیوں کی آواز پر ہوتا ہے۔ کم و بیش رنگ گورا کرنے والی ہر کریم کے اشتہارات کی یہی تھیم ہوتی ہے۔
ہمارے معاشرے کا بھی یہی المیہ ہے خواتین اپنے بیٹے کیلئے چاند جیسی گوری بہو لانے کی جدوجہد میں نہ جانے کتنی ہی لڑکیوں کی دل آزاری کر گزرتی ہیں۔چاہے لڑکا دن کی روشنی میں نہ دکھائی دیتا ہوں لیکن لڑکی ایسی چاہئے جو رات کے اندھیرے کو بھی روشن کردے۔ نہ صرف شادی بلکہ دوسرے معاملات جیسے جاب وغیرہ میں بھی لڑکیوں کو شکل و صورت کا فائدہ حاصل رہتا ہے اور دوسری جانب کم رنگ اور سانولی رنگت والوں کو قابلیت ہونے کے باوجود نقصان۔
اپنی سرچ مجھے اولیویا کی ویب سائٹ تک لیگئی جہاں میں نے پاکستان بھر میں خواتین کالجز میں چلنے والی انکی مہم کے بارے میں پڑھا۔ جس میں ان کالجز کی طالبات کو اس کالے رنگ کی "بیماری" سے بچنے کے ٹوٹکے ماہر بیوٹیشنز دیتی ہیں۔ کیا سکھایا جارہا ہے؟ یہی کہ کالا رنگ تمہارے لئے ٹھیک نہیں رنگ گورا کرو تو فائدہ ہی فائدہ۔ اس سوچ کو ختم کرنے کی ضرورت ہے! اس ہی سوچ کیخلاف پڑوسی ملک بھارت میں "ڈارک اس بیوٹیفل" یعنی "گہرا رنگ خوبصورت ہے" کے نام سے ایک کمپین چلائی جارہی ہے جس میں میڈیا کو اس "رنگ کے تعصب" کے حوالے سے تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ رنگ کے حوالے سے مثبت یا غیر جابندارانہ رائے عامہ کو ہموار کیا جائے اور ایسے معاشرے کو نمونہ بنا کر پیش کیا جائے کہ جہاں پررنگ کی بنیاد پر کسی کے ساتھ ناروا سلوک روا نہ رکھا جائے اور نہ ہی رنگ کو ایک کمی یا فائدہ نہ سمجھا جائے۔ اس معاملے میں ہمارے مذہب سے اچھی تعلیمات کہیں اور نہیں ملیں گیں جہاں "کسی گورے کو کسی کالے پر اور کسی کالے کو کسی گورے پر کوئی فضیلت نہیں، فضیلت صرف تقوی کی بنیاد پر ہے" (مفہوم حدیث)

ابن سید

Friday, May 30, 2014

کیریئر یا صابن – دوسرا حصہ

کیرئیر کو پسند کرنے کے حوالے سے میں نے کل ایک پوسٹ لکھی تھی لیکن بہت سے افراد نے اس کو الگ ہی انداز میں لیا، جس کی اصل وجہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ شاید وہ ٹھیک سی میری بات نہیں سمجھ پائے یا پھر میں نے جو مثالیں دیں تھیں وہ کچھ اوکھی ٹائپ کی
Image from here
تھیں۔ بہرحال میں نے "کیریئر میں پسند اور نا پسند" کی بات کی تھی، ہوتا یہ ہے کہ جس کام کا آپکو شوق ہوتا ہے وہ کام آپ کرتے ہوئے تھکتے نہیں یا یہ کہہ لیں کہ آپکو تھکن کا احساس نہیں ہوتا، کھبی آپ نے کرکٹ یا فٹبال کے شوقین افراد کو دیکھا ہے؟ اگر وہ صبح سے لے کر شام تک کھیلتے رہیں تب بھی انہیں تھکن کا احساس نہیں ہوتا کیوں کہ وہ ان کا شوق ہوتا ہے۔ اس ہی طرح اگر کسی کو لوگوں سے ملنے ملانے کا شوق ہے یا پھر تقاریر کرنے کا شوق ہے تو وہ اپنے اس شوق کیلئے جان لگا دیگا لیکن اُسے وہ (نائن ٹو فائیو والی) تھکن کا احساس نہیں ہوگا۔
اب جب آپ اپنے شوق کو اپنا پروفیشن بناتے ہیں تو آپ اُس ہی شوق اور لگن سے وہ کام کرتے ہیں، اور اس ہی وجہ سے اپنے کیریئر میں بلندیوں کو چھو جاتے ہیں۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ جو لوگ اپنے شوق سے ہٹ کر کوئی دوسرا کام کرتے ہیں وہ کامیاب نہیں ہوسکتے ، ایسا بالکل نہیں وہ بے شک کامیاب ہوسکتے ہیں اور ہوتے بھی ہیں۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ انہوں نے بعد میں اپنے کیریئر کو اپنا شوق بنا لیا ہوگا۔ اب اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر خود سے پوچھیں! کیا آپ روز جب گھر واپس آتے ہیں تو تھکن سے چور کیوں ہوتے ہیں؟ اور کیا جب آپ اگلے دن آفس کو جاتے ہیں تو کیا آپکے دل میں یہ خیال ہوتا ہے کہ آج کا دن دلچسپ گزرے گا یا پھر آپ یہ سوچ کر بد دل ہوتے ہیں کہ پھر وہی پرانا روٹین، وہی روز کی جھک جھک۔ ۔ ۔؟
اب آتے ہیں اصل موضوع کی جانب ایک شخص مشینوں کا شوق رکھتا ہے، وہ چاہتا ہے کہ مکینکل انجینئرنگ کی فیلڈ میں جائے اب کسی وجہ سے اُس کو اس فیلڈ میں جانے کا موقع نہیں ملتا بلکہ اسے یہ کہا جاتا ہے کہ تم کیمیکل میں داخلہ لو، شاید وہ داخلہ لے بھی لے، پڑھ بھی لے، جاب بھی کرلے، اچھی تنخواہ بھی کما لے لیکن یہ احساس اس کے دل میں ہمیشہ رہیگا کہ وہ مکینکل میں شوق رکھتا تھا لیکن کسی وجہ سے اس کو یہ کام کرنا پڑ رہا ہے۔ اور بے شک اس بات کا وہ کسی سے اظہار بھی نہ کرے لیکن کام سے واپسی پر اس کا چہرہ یہ بات بتا دیگا کہ وہ کس حد تک مطمئن ہے!
باقی دوستوں نے کہا کہ روزی دینے والا اللہ ہے، آپکی فیلڈ آپکی تنخواہ کا فیصلہ نہیں کرتی یا پھر ایک بھائی نے کہا کہ یہ پاکستان ہے یہاں سب چل جاتا ہے۔ یہ تمام افراد کی باتیں ٹھیک ہیں لیکن یہ بحث کا موضوع ہی نہیں تھا :)

ابنِ ســــــــــیّد

Wednesday, May 28, 2014

کیریئر یا صابن

مجھ سے کسی نے مشورہ کیا کہ انجینئرنگ کرنی ہے. میں نے پوچھا کونسی انجینئرنگ؟ کہنے لگا سوفٹ ویئر انجینئرنگ. میں نے پرسنٹیج پوچھنے کے بعد اطمینان دلایا کہ اچھے مارکس ہیں انشاءاللہ ایڈمیشن ہوجائے گا... لیکن ..

عادت سے مجبور، میں یہ جتلانا نہیں بھولا کہ اگر اس طالبعلم کو کسی وجہ سے سوفٹویئر انجینئرنگ نہ ملے تو کوئی دوسری انجینئرنگ نہ کروانا. انکے وجہ پوچھنے پر میں نے پوچھا کہ اگر آپ منہ دھونے کا صابن لینے مارکیٹ جائیں اور صابن نہ ملے تو کیا سرف لے آئیں گے؟ نہیں ناں؟
میڈیکل اسٹور جائیں پیناڈول لینے اور اگر پیناڈول نہ ہو تو یقیناً آپ کھانسی کا شربت نہیں لیں گے!
بھئی چلیں میں آپ قارئین سے پوچھتا ہوں کہ اگر آپ جوتے خریدنے جائیں اور جوتا نہ ملے تو کیا سینڈل لے آئیں گے
Image from here
؟ وہی خریدیں گے ناں جس کی ضرورت ہو اور جو آپکو چاہیے ہو.
جب اتنے معمولی اور روز مرّہ کے معاملات میں اس قدر سمجھ داری تو کیریئر یعنی کہ وہ کام جو آپکو بقیہ ساری زندگی صبح نو سے شام پانچ بجے تک کم از کم کرنا ہے اس کو پسند کرنے میں اس قدر ناسمجھی کا مظاہرہ کیوں؟ یعنی جو مل گیا وہ کرلیں گے چاہے بقیہ زندگی اس پسند کو کوستے ہوئے گزاریں... سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں ورنہ پھر ساری زندگی صابن کے بجاۓ سرف سے منہ دھوئیں

فیصلہ آپکا..

آپ کیا چاہتے ہیں.

Monday, May 26, 2014

کراچی ٹِپس

Image taken from here

کراچی کے باسی چاول ہونے کے ناطے کراچی میں رہنے کے دس ٹوٹکے زبیدہ آپا کے ٹوٹکوں کی مقبولیت دیکھتے ہوئے مارکیٹ میں اتار رہا ہوں، امید ہے باہر سے آنے والوں کیلئے مفید ثابت ہونگے، اور جو باقی باسیان کراچی ہیں وہ تصدیق، تصحیح یا اضافہ فرما دیں گے:

ٹِپ نمبر ایک
ایک فائر ہوا، کچھ نہیں ہوا! کئی فائر ہوئے کچھ نہیں ہوا! لگاتار فائرنگ ہورہی ہے، ارے لگتا ہے پاکستان میچ جیت گیا ... ٹینشن مکاوا

ٹِپ نمبر دو
کل اے این پی کی ہڑتال ہے، بیٹا سہراب گوٹھ سے نہیں گزرنا. جسقم کی ہڑتال ہے، بیٹا صفورہ چورنگی سے نہیں گزرنا ... متحدہ کی ہڑتال ہے، بیٹا گھر سے ہی نہیں نکلنا!!! شہر بند ہونے کے کچھ دیر بعد... یار نائٹ میچ رکھا ہے آجاؤ گلی میں

ٹِپ نمبر تین
کہیں تصادم ہوجائے، یا خدانخواستہ کوئی قتل ہوجائے، یا بم دھماکہ ہوجائے، یہاں کوئی پلان کینسل نہیں ہوتا، کیوں؟ ... کیوں کہ پانچ منٹ بعد یہاں سب نارمل ہوجاتا ہے! لہذا چلتے رہو چلاتے رہو

ٹِپ نمبر چار
کوئٹہ والا پٹھان کا پراٹھہ کراچی میں ملتا ہے کوئٹہ میں نہیں.

ٹِپ نمبر پانچ
یہاں ووٹ ڈالنے کی زحمت نہیں کرنی پڑتی، مہربان بہت ہیں باقی سب کے بھی خود ڈال دیتے ہیں، "خدمت خلق" کی اعلی مثال!

ٹِپ نمبر چھے
پنجابی ہو یا پٹھان، سندھی ہو یا بلوچ، مہاجر ہو کہ بنگالی... یہاں پان گُٹکا سب کی مشترکہ پسند!
اور ماوا، جے ایم، ون ٹو ون، پان پراگ، راجا جانی، ٹیسٹی، سافٹ منٹ، چنٹو کینڈی، فانٹا، ڈنگ ڈانگ ببل، کوکومو، وغیرہ وغیرہ بھی،

ٹِپ نمبر سات
حیران نہ ہوں! "پرفیوم چوک، گلستانِ جوہر" کسی سیاسی جماعت کا نام نہیں!

ٹِپ نمبر آٹھ
فیشن کی شروعات زینب مارکیٹ سے ہوتی ہے!

ٹِپ نمبر نَو
مزار قائد پر فاتحہ خوانی کے علاوہ باقی سب کام ہوتے ہیں.

آخری ٹِپ: کراچی میں رہنا ہے تو جئے ________ کہنا ہے! (نوٹ: علاقے کے حساب سے خالی جگہ پُر کریں!)

ابنِ ســــــــــیّد

Friday, May 23, 2014

ہمارے تعلیمی نظام میں خامیاں

Picture from here
یونیورسٹی کے زمانے میں لوگ کہا کرتے تھے کے یہاں سے ماسٹرز نہیں کرنا یہاں کے ماسٹرز کی کوئی حیثیت نہیں. ماسٹرز تو صرف باہر کا ہی قابلِ قبول ہے. عملی زندگی میں نکلے تو معلوم ہوا کہ حیثیت نہ بیچلرز کی ہے نہ ماسٹرز کی نہ باہر سے ماسٹرز کر کے آنے میں، حیثیت ہے تو صرف اس بات کی ہے کے بندہ کیسا ہے بھلے وہ میٹرک ہی کیوں نہ ہو.
بہت سے کم تعلیم یافتہ افراد کو اعلی عہدوں پر اپنی محنت کے بل بوتے پر دیکھا تو دوسری جانب بہت سے اعلی تعلیم یافتہ (یا ڈگری یافتہ) افراد کو بیروزگار بھی دیکھا اور معمولی ملازمتوں پر بھی دیکھا. انجینئرز اور ایم بی اے'ز کو جاب کیلئے دھکّے کھاتے دیکھا تو ناخواندہ افراد کو بڑے بڑے کاروباروں میں پیسا کماتے دیکھا.
ہمیں شروع سے ہی یہ تربیت کی جاتی ہے کہ بیٹا پڑھو گے نہیں تو اچھی جاب کیسے ملے گی اور اچھی جاب نہیں ہوگی تو پیسے کیسے کماؤ گے. یعنی شروع سے ہی یہ ذہن میں ڈال دیا گیا کہ اچھی تعلیم مطلب اچھا پیسہ لیکن کیا تعلیم کا مقصد صرف پیسہ کمانا ہے؟
اوپر کی مثالوں سے واضح کرچکا ہوں کہ اگر مقصد صرف پیسہ کا حصول ہے تو واضح رہے کہ پیسہ کمانے کیلئے تعلیم ضروری نہیں. پھر کیوں پیسے کو ہمیشہ تعلیم سے جوڑا جاتا ہے.
ہمارے یہاں بہت سے ایسے افراد بھی موجود ہیں جنہوں نے اعلی تعلیم حاصل کی پھر مزید تعلیم حاصل کرنے باہر چلے گئے، باہر گئے تو پتا چلا کہ یہاں تو چھوٹے کاموں کے بھی اچھے پیسے مل رہے ہیں لہذا چھوٹی نوکریاں جنہیں آڈجابز بھی کہا جاتا ہے جیسے پیٹرول پمپ میں کام، ٹیکسی چلانا اور ہوٹلوں میں کام کاج وغیرہ، بہرحال ایک بار ان آڈجابز میں لگ کر بقیہ ساری زندگی یہی کام کرتے گزر جاتی ہے پھر کدھر گئی انجینئرنگ اور ڈاکٹری کی ڈگری ... ؟ اس ڈگری کا کیا اور کس حد تک استعمال ہوا؟
تعلیم کا مقصد تو یہ ہے کہ ایک اچھا مسلمان اور اچھا انسان بنا جائے. ایک تعلیم یافتہ شخص سے دنیا یہ توقع کرتی ہے کہ وہ اچھے اخلاق کا مالک ہوگا. لیکن کیوں کہ ہمارا پورا تعلیمی نظام صرف پیسہ بنانے کے گرد گھومتا ہے لہذا ہمارے تعلیمی اداروں کی ترجیہات بھی یہی ہیں اور اس ہی لحاظ سے یہ ادارے ایسے ڈاکٹر، انجینئر، اکاؤنٹنٹ وغیرہ پیدا کر رہے ہیں جو اپنے پیشے کے ذریعہ پیسہ کما کر دینے میں ماہر ہیں مگر دوسری جانب یہی ادارے اچھے انسان پیدا کرنے میں ناکام ہیں.
انکے شعور میں کیوں کہ یہ بات بیٹھی ہوتی ہے کہ تمہارا اصل مقصد پیسہ کمانا ہے لہذا جب ملک سے باہر جاکر معمولی نوکریوں میں زیادہ پیسہ ملنے لگتا ہے تو پھر اس بات کی فکر نہیں رہتی کے پیسہ انجینئرنگ سے آرہا ہے یا ٹیکسی ڈرائیونگ سے، آج ہمارے ایک اور بڑے مسئلہ (برین ڈرین) کا تعلق بھی براہ راست تعلیمی نظام سے ہے. اس موضوع پر بھی انشاءاللہ بہت جلد بات ہوگی.
ابنِ سیّد

تعاقب ....

Picture from here
وہ بہت ہی محتاط انداز میں اِدھر اُدھر دیکھتا ہوا آگے بڑھا اور آہستگی سے آکر سیٹ پر بیٹھ گیا. کافی دیر تک ایسا لگا جیسے تانے بانے ملا رہا ہے، بہت مشکلوں سے نظریں ملا کر اس نے اپنا مدعا بیان کیا، "ڈاکٹر صاحب! مجھے اکثر ایسا لگتا ہے کہ میرے پیچھے بہت سارے لوگ لگے ہوئے ہیں، میں اس ہی خوف کی وجہ سے رات کو سکون سے سو نہیں سکتا، کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ اِک آگ ہے جو میرا پیچھا کر رہی ہے اِس آگ کی تپش میں واضح طور پر اپنی پشت پر محسوس کرتا ہوں لیکن جب پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو کچھ نظر نہیں آتا. کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ چاروں اطراف سے بہت سارے لوگ میری جانب آرہے ہیں، وہ آگے بڑھتے ہیں، میں خوف سے آنکھیں بند کرلیتا ہوں، لیکن کچھ دیر بعد میں آنکھیں کھولتا ہوں تو وہاں کوئی نہیں ہوتا." اب وہ باقائدہ کانپ رہا تھا.
"آپکو یہ مسئلہ کب سے ہے یعنی کتنے عرصے سے یہ تکلیف ہے؟"
موبائل کی تیز رنگ ٹون نے بات مکمل نہ ہونے دی.
"ہیلو! ہاں! اوکے اوکے! لیکن خیال رکھنا بچنے نہ پائے اور کسی کو اس واقعہ کا سراغ ملا تو تمہاری خیر نہیں! باقی میں سنبھال لوں گا! ٹھیک ہے!"

"جی ڈاکٹر صاحب آپ کچھ پوچھ رہے تھے؟" وہ دوبارہ متوجہ ہوا.
"میں پوچھ رہا تھا کہ آپکو یہ مسئلہ کب سے ہے؟"
وہ کچھ دیر خلاؤں میں گھورتا رہا پھر سرگوشی کے سے انداز میں بولا، "آج سے پندرہ سال پہلے کی بات ہے کہ میں نے کسی بات پر مشتعل ہوکر اپنے ایک مخالف کے سر پر آہنی آلے کا وار کیا تھا جس سے وہ شدید زخمی ہوگیا تھا اور میں وہاں سے بھاگ آیا، اس کا خون بہتا رہا...."
"تو کیا اس دن آپکو پہلی بار ایسا لگا کہ بہت سے لوگ آپکے پیچھے ہیں؟؟"
"نہیں! نہیں! اس دن تو ایسا محسوس ہوا جیسے صرف ایک شخص میرا پیچھا کر رہا ہے پھر رفتہ رفتہ انکی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا، اور اب تو یہ ہزاروں کی تعداد میں میرا تعاقب کرتے ہیں ..." وہ اضطراب سے ہاتھ مل رہا تھا..

"میں آپکا مسئلہ سمجھ گیا ہوں، آپکو آرام کی سخت ضرورت ہے، یہ کچھ سکون کی دوائیں ہیں ایک صبح ایک رات سونے سے پہلے اور یہ والی....."

موبائل کی گھنٹی پھر بجتی ہے....

ابنِ سیّد

سبز پوشاک والے بزرگ / حکمرانو! امریکی پراکسی جنگ سے باہر آجاؤ

آئیں آج تاریخ کے ورق الٹتے ہیں، پینسٹھ اور اکھتّر کی جنگوں میں جب ہم اپنے روایتی حریف ہندوستان کیخلاف محاذ جنگ پر تھے، دورانِ جنگ کچھ ایسے کردار و واقعات بھی سامنے آئے جو بہت عجیب تھے، ان میں سے ایک کردار وہ بزرگ تھے جو جنگ کے درمیان سبز پوشاک پہنے نظر آتے تھے، بتانے والے بتاتے ہیں کہ انکے نظر آتے ہی معجزات رونما ہوجاتے، مختلف طریقوں سے غیبی امداد ملنی شروع ہوجاتی، یہاں تک کہ کچھ نے یہ بھی بیان کیا کہ یقینی شکست ہوتے ہوتے فتح میں بدل جاتی۔۔۔ بعض نے انہیں کوئی کراماتی بزرگ اور ولی قرار دیا تو بعض کے نزدیک یہ خدا کی جانب سے کوئی مدد کا فرشتہ تھے، انکے بارے میں مختلف کہانیاں مشہور ہوئیں لیکن یہ شخصیت راز ہی رہی۔۔۔
پھر وقت بدلتا ہے، منظر یکسر تبدیل ہوجاتا ہے، ہماری سب سے بڑی جنگ ہماری اندرونی جنگ بن جاتی ہے اور ہمارے بیرونی دشمنان ہمارے لئے غیر اہم ہوتے ہوتے آخر کار دوست (موسٹ فیورٹ نیشن) میں تبدیل ہوتے جاتے ہیں ۔۔۔ ہمارا اندرونی دشمن طاقتور سے طاقتور ہوتا چلا جاتا ہے ایک کے بعد ایک علاقوں میں جنگ چھڑتی چلی جاتی ہے جوان لڑتے، مرتے اور مارتے رہتے ہیں لیکن وہ علاقے فتح نہیں ہوپاتے، ملک اس دلدل میں دن بہ دن ڈوبتا جاتا ہے۔۔۔ مگر۔۔۔
مگر نہ جانے کیوں اس مصیبت کے دور میں وہ سبز پوشاک والے بزرگ اب کہیں بھی نظر نہیں آتے، ہمارے جوانوں کی آنکھیں ڈھونڈتے ڈھونڈتے پتھرا جاتی ہیں، لوگ توقع کررہے ہوتے ہیں کہ ابھی وہ بزرگ کہیں سے آ نکلیں گے، یکایک کرشمے ہوجائیں گے اور جنگ کا پانسہ پلٹ جائیگا، مگر شاید وہ بھی اس تمام صورتحال سے نالاں ہیں۔۔۔ نہ کوئی غیبی مدد آتی ہے نہ ہی کوئی اور معجزہ رونما ہوتا ہے ۔۔۔
کوئی تو پتا کرو کہاں ہیں وہ بزرگ کہیں سے انہیں ڈھونڈ کے لاؤ کہ یہ جنگ بہت پھیل چکی ہے، اب بس اور نہیں لڑا جاتا۔۔ لیکن شاید وہ بزرگ اب نہیں آئیںگے۔۔۔
یہی سوال لے کر میں اپنی سوچ کی وادیوں میں گم تھا کہ یکایک ایک بجلی کوندی اور ہر جانب دھواں سا پھیل گیا، اس دھوئیں میں مجھے سبز پوشاک نظر آئی، کیا دیکھتا ہوں کہ وہ بزرگ اس دھند سے نکل کر میری سوچوں میں میرے سامنے آئے، چشم تصور سے میں نے انہیں کہتے سنا۔۔۔
میں نے تو تمہاری مدد اُس وقت کی تھی جب تم ہندوستان سے لڑ رہے تھے، وہ کل بھی میرا دشمن تھا اور آج بھی میرا دشمن ہے مگر آج وہ تمہارا دوست ہے، بتاؤ میں کیسے تمہاری مدد کروں، کل یہ اندرونی دشمن جن سے تم آج لڑ رہے ہو یہ تمہارے شانہ بشانہ تمہارے لئے لڑ رہے تھے اور آج تم دونوں باہم دست و گریباں ہو، میں کیسے تمہاری مدد کروں؟
جاؤ میں نہیں آتا تمہاری مدد کرنے، بزرگ یہ کہہ کر واپس مڑتے ہیں اور اس دھوئیں میں غائب ہوجاتے ہیں، بم دھماکوں کے دھوئیں میں، ڈرون حملوں کے دھوئیں میں، خودکش حملوں کے دھوئیں میں، گولیوں کی تڑتڑاہٹ میں۔۔
رہ جاتی ہے تو بس ایک گونجدار آواز۔۔۔
"جاؤ! یہ میری جنگ نہیں!"


ابنِ سیّد

Tuesday, May 20, 2014

پاکستانی میڈیا : تصویر کا تیسرا رخ!!


میڈیا، خصوصاً پاکستانی میڈیا ہمیشہ سے میری دلچسپی کا موضوع رہا ہے، ان دنوں جب میں انگریزی بلاگس لکھا کرتا تھا ایک سے زائد بلاگ میں اس حوالے سے اپنا اظہار خیال کرچکا ہوں. موجودہ میڈیا کی لڑائی میں شاید "غائبانہ ہاتھ" کی انوالومنٹ کچھ لکھنے سے روکتی رہی، لیکن ایک لکھاری ایک حد تک ہی اپنے آپ کو روک سکتا ہے، لہذا آج اس موضوع پر بھی قلم اٹھا رہا ہوں. یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بہت سے لوگوں کو یہاں بیان کی گئی باتیں بری لگیں لیکن میں تصویر کا دوسرا بلکہ تیسرا اور چوتھا رخ بھی دکھانا اپنا فرض سمجھتا ہوں.
میں کبھی بھی جیو اور جنگ کا پرستار نہیں رہا اس سے بیشتر ایک بلاگ میں جیو اور دوسرے بلاگ میں امن کی آشا کے اوپر اعتراضات کرچکا ہوں لہذا جیو کے ایڈووکیٹ ہونے کی پبھتی لاحاصل ہے.
حامد میر پر قاتلانہ حملے سے شروع ہونے والا معاملہ آج اس حد تک بڑھ گیا کہ بعض "مخصوص" علماء کی جانب سے فتوے بھی برس گئے. پاکستانی میڈیا جس میں جیو، اے آر وائی، سماء، ڈان وغیرہ شامل ہیں، ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ انکی ڈوریں کدھر سے ہلتی ہیں اور تماشا کہاں پر ہوتا ہے. چاہے سوات والی جعلی ویڈیو پر واویلا ہو، یا پھر منور حسن کے بیان پر پروپیگینڈا یا پھر الطاف بھائی کی تین تین گھنٹے تک نشر ہونے والی تقاریر یا پھر تحریک انصاف کو قد سے بڑا کر کے دکھانے کی الیکشن کمپین، سب نے دیکھا کہ ڈوریں ہلتے ہی تمام معاملات اسکرین پر آئے اور اس ڈور کے رکتے ہی تمام معاملات پس منظر میں غائب! افسوس! اس حمام میں سارے ہی ننگے نکلے! اگر ہم نے کسی ایک کو بلّی کا بکرا بنا دیا تو کل باقی سب دودھ کے دھلے بن کر عوام کے سامنے آجائیں گے لہذا یہ موقع ہے ان سب کیخلاف ایک ساتھ کمپین چلانے کا تاکہ انکا کچھ حل نکل سکے!
اگر جیو کی امن کی آشا پر انگلیاں اٹھتی ہیں تو ایکسپریس ٹریبیون بلاگ کی ویبسائٹ بھی دیکھ لی جائے جہاں پاکستان سے زیادہ انڈیا موضوع ہے.
مارننگ شوز میں "توہین آمیز" میوزک بھی سب نے دیکھ لی، سماء پر بھی نشر ہوئی اور دوسرے چینل پر بھی! اور یہ توہین تو برس ہا برس سے مزارات اور خانقاہوں کی زینت بنتے رہے. جہاں خدا کے احکامات کے ہوتے ہوئے اللہ کا نام لے کر دما دم مست قلندر پر مخلوط بھنگڑے عام ہیں. یہ توہین روکنے کا کسے خیال آیا؟ کوک اسٹوڈیو میں صوفیانہ کلام پر مرد اور عورتوں کی دھما چوکڑی کسی ایک چینل نے بھی یہ موقع نہ چھوڑا. یوں سب گستاخی کے فاعل ہوئے.
ہوا کچھ یوں ہے کہ ان تمام گھوڑوں میں سے ایک گھوڑے پر چابک ذرا زور سے کیا پڑا کہ یہ تو رسی تڑا کے بھاگ نکلا اب گلے میں رسی نہیں تو منہ زوری اور آگئی ہے. گھڑسوار کو یہ ہرگز قبول نہیں لہذا اب سب گھوڑے یک دم چھوڑ دیے گئے کہ باغی گھوڑے کو جدھر پائیں رگڑ ڈالیں اس میں سبق بقیہ گھوڑوں کیلئے بھی ہے!!
کون دودھ کا دھلا ہے آئیں دیکھتے ہیں مبشر لقمان؟ جو کہ ملک ریاض سے پیسے لے کر شوز میں "کھری بات" کرتا ہے. جاوید چودھری جو اس ہی ملک ریاض کا بڈی ہے. مہر بخاری جن کی تصاویر سب کے ڈیکسٹاپ کی زینت ہیں یا پھر یو ایس کونسلیٹ میں ہونے والی نائٹ پارٹی میں شریک ہونے والے صحافی؟ ؟ نجم سیٹھی جو تجزیوں میں اداروں کا احترام بھول جاتا ہے. یا پھر کوئی اور... میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں سارے ایک ہی تھالی کے بینگن ہیں... لٹکائیں تو سب کو ساتھ لٹکائیں ورنہ لوگوں میں یہ تاثر آئیگا کہ باقی ٹھیک ہیں.
پہلے بھی اور آج بھی اور تمام چینل پر اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکامات کی توہین کھلے عام ہوتی تھی اور ہورہی ہے. یہاں صبح کا آغاز ناچ گانے بھرے مارننگ شوز سے ہوتا ہے اور یہ سلسلہ خبروں میں بیہودہ گانوں اور فلموں کی ریلیز کی خبروں سے ہوتا ہوا رات گئے تک جاری رہتا ہے. زیادہ دن نہیں گزرے جماعت اسلامی پارلیمنٹ میں میڈیا کی فحاشی کیخلاف ایک قرارداد لے کر گئی تو بہت سے جہلاء کی جانب سے تنقید سامنے آئی ریموٹ استعمال کا مشورہ دیا گیا... آج جیو نے یہی کیا تو انہیں ریموٹ استعمال کا خیال کیوں نہیں آیا؟
میں پھر بتا دوں میں جیو کی طرفداری نہیں کر رہا بلکہ میرا نکتہ سب کی منافقانہ روش بینقاب کرنا ہے. اس حمام میں سب ہی ایسے ہیں لہذا صاف کردو سب کو لیکن بے تکے مسائل اٹھا کر عوام کو جس چکر میں پھنسا کر سیاست کی جارہی ہے یہ غلط ہے.
مشرف کیس، جوئل کاکس کی گرفتاری، مذاکرات، نیٹو سپلائی، ڈرون بومبنگ، کراچی آپریشن ... سب خبریں ہی دب گئیں جیو غداری کیس میں ...
آئیں ایک بار نہیں بلکہ سو بار بائیکاٹ لیکن سب کا، پابندی سب پر، فتوی ایک کیخلاف آئے گا تو باقی جائز نہ سمجھ لئے جائیں لہذا فتوی سب کیخلاف، سب کو لائن میں کھڑا کیا جائے یا کمپین چلائی جائے تو سب کے خلاف ورنہ کسی ایک کو نشانہ بنایا گیا تو اگلی دفعہ چہرے تبدیل ہوجائیں گے کام وہی رہیگا اور کسی کو پتا بھی نہ چلے گا! کیوں کہ باقی سب تو "حلال" ہیں! !؟ کیوں؟

ابنِ سیّد
 
Image taken from here

Monday, May 19, 2014

کچھ یادیں ہیں ان لمحوں کی...این ای ڈی یونیورسٹی ...جمعیت

آج این ای ڈی یونیورسٹی مینجمنٹ سائنس کا ٹیسٹ دینے گیا، یہ دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ سیکیورٹی گارڈز ابھی تک بھولے نہیں محبت سے ملے حال چال پوچھا ٹیسٹ شروع ہوا مشکل تو بہت تھا کسی طرح مکمل کیا باقی قسمت کے سہارے کیا، دو گھنٹے بعد کلاس سے باہر آیا لیکن یونیورسٹی سے باہر جانے کے بجاۓ واپس اندر کی جانب چل پڑا. میرا ٹیسٹ سول ڈپارٹمنٹ کی کسی کلاس میں تھا جہاں سے چلتا ہوا میں مکینیکل ڈپارٹمنٹ کی جانب آیا، یہ ہے روم نمبر ساٹھ این ای ڈی میں داخلہ لینے کے بعد پہلی کلاس میری یہیں ہوا کرتی تھی ،کلاس کے اندر جاکر دیکھا، اِس کے سامنے ہی مکینیکل لیکچر ہال ہے جہاں اس دور میں فائنل ایئر میں کافی جماعتی ساتھی تھے اور سامنے ہی فرسٹ ایئر کلاس کی وجہ سے ان کا اور ہمارا رابطہ ہوا تھا. ہر کلاس کے بعد کوئی نہ کوئی حال چال پوچھنے آجاتا، اس ہی وجہ سے دوستی ہوئی اور جمعیت میں آنا ہوا. اس سے تھوڑا اندر کی جانب جا کر وہ تنگ سی گلی ہے جہاں پہلے ہی مہینے چند دوسری تنظیم کے لڑکوں نے مجھے روک کر نرم لہجے میں سوال کیا تھا کہ کیا بات ہے جماعتیوں میں بہت اٹھ بیٹھ رہے ہو؟ تھوڑی دیر اس ہی گلی میں رکا نہ جانے کیا دیکھتا اور سوچتا رہا اور پھر انڈسٹریل ڈپارٹمنٹ سے ہوتا ہوا مسجد آگیا، وضوخانہ میں لگے کولر سے پانی پی کر اُس جگہ آ کر بیٹھ گیا جہاں ہم روزانہ ظہر کی نماز پڑھنے کے بعد جمع ہوکر قرآن کی ترتیل کیا کرتے تھے. کچھ لمحے نہ جانے کیوں وہیں بیٹھے بیٹھے گزارے. مٹیرئیل ڈپارٹمنٹ کی پیشانی پر لکھی قرآنی آیت کو دیکھتا ہوا واپس چل پڑا، مکینیکل سے دوبارہ گزرا اور آڈیٹوریم کے سامنے سے ہوتا جمعیت کے یونٹ پر آپہنچا جو کہ اتوار کی وجہ سے خالی تھا. کچھ دیر ان بِنچوں پر بیٹھا رہا بیچ میں لگے اس درخت کو دیکھتا رہا جو شاید کبھی بھی دھوپ نہ روک پایا لیکن اس ہی ہلکی سی چھاؤں میں ہم اور ہم سے پہلے بھی بہت سے لوگ گرمی سہتے بیٹھے رہتے تھے .. پھر کیفیٹیریا کی جانب آیا، شہید تسنیم منظر عالم شہید کی تختی کو دیکھتا اور چھوتا رہا، کیفیٹیریا کے آس پاس درختوں کے پاس ٹہلتا رہا، ایک درخت پر وہ مل گیا جو ڈھونڈ رہا تھا یہ "سیّدی" کا لفظ انگریزی حروف میں ہمارے ایک ساتھی نے لکھا تھا، کیفیٹیریا کے دروازے پر جمعیت کے اسٹیکر دیکھتا رہا اور پھر واپس باہر کی جانب چل پڑا...

نہ جانے کیوں ذہن کسی اور ہی زمانے میں چل رہا تھا، کبھی دوستوں کی ہنسی سنائی دیتی، تو کبھی ٹیچر کے ساتھ اٹھکیلیاں، کبھی نعرہ تکبیر کی صدائیں تو کبھی کچھ اور ... اگر کوئی یہ سمجھے کہ یہ کیا بھئی اتنا جذباتی کیوں ہوا جارہا ہے تو میں واضح کروں کہ میرے لئے یہ کوئی عام جگہ نہیں بلکہ بہت مقدس جگہ ہے اس ہی جگہ سے میں نے اپنی زندگی کے شعوری سفر کا آغاز کیا، جمعیت سے متعارف ہوا، شاید زندگی کے سفر میں ہم سب بھول بھال گئے آج اس ہی سبق تو دوبارہ یاد کرنے کچھ پل ان در و دیوار کے ساتھ بِتائے ...
شاید میں اپنے جذبات کا صحیح طور پر اظہار اس تحریر میں نہیں کر پارہا اور شاید کر بھی نہ پاؤں ...

ابنِ سیّد

Friday, May 16, 2014

پاگل پن

Image taken from here
میں اگر آپ سے ایک ایسا کام کرنے کیلئے کہوں کہ جس میں آپکو ایک ایسے فرد کے ساتھ رہنا پڑے جو اپنے من کا موجی ہو، جب جی میں آئے کھائے جب جی چاہے نہ کھائے، جب دل کرے سو جائے اور جب دل کرے اٹھ جائے اور نہ صرف اٹھ جائے بلکہ آپکو بھی سوتے میں سے اُٹھا دے. اس کے تمام ناز نخرے اٹھانے کی ڈیوٹی نبھانی ہے بِنا پیسے! کر پائیں گے؟
کیا خیال ہے ایک ایسے انسان کے ساتھ رہنے کا جو اپنے چلبلے پن سے آپکو پریشان کر کے رکھ دے، کبھی چیزوں کو توڑ دے تو کبھی قیمتی اشیاء کو نقصان پہنچا دے، کبھی دوسروں کو تو کبھی خود کو نقصان پہنچا دے. کیا آپ رہ پائیں گے؟
کیا رویہ ہونا چاہئے ایسے انسان کیلئے جو اپنی پڑھائی کرنے کیلئے آپ سے تمام مدد لے اور آپکی جان کھا جائے لیکن جب کامیابی سے ہمکنار ہو تو آپکو بھول کر اس کامیابی کا سارا کریڈٹ بس خود کو دے. اپنے آپ کو سیلف میڈ کا تمغہ پہنائے بلکہ اس سب پر بھی آپکو اس کو مبارک دینا پڑے.
اور کیا آپ رہ پائیں گے ایسے انسان کیساتھ جو نوکری کر کے گھر آئے تو اس طرح رویہ رکھے جیسے اس نے کوئی بہت بڑا معرکہ سرانجام دیا ہو، اپنے سارے کام آپ سے کروائے، یہاں تک کہ پانی بھی آپکو اسے پیش کرنا پڑے اور شاید اس پر بھی وہ آپکا شکریہ ادا کرنے کے بجاۓ اعتراضات کرے کہ پانی ٹھنڈا کیوں نہیں اور کھانے میں نمک کیوں برابر نہیں؟ تو کیا آپ میں اس قدر برداشت ہے کہ اس سے مسکرا کر کہ سکیں کہ چلو کل پانی بھی ٹھنڈا ہوگا اور نمک بھی برابر ...
میرا خیال ہے بہت سے لوگ کہیں گے کہ ایسے بدتمیز، اکھڑ مزاج، ناشکرے انسان کی پرواہ کرنے سے بہتر ہے کہ پہلی فرصت میں اس انسان پر لعنت بھیجی جائے ..
اور اگر میں کہوں کہ یہ کام ایک نہیں بلکہ دنیا میں ہزاروں، لاکھوں انسان ان ہی طرح کے افراد کیلئے یہ کام کر رہے ہیں، اور بہت خوش اسلوبی سے ذمہداریاں اور خدمات نبھا رہے ہیں!
یقیناً آپکا جواب ہوگا کہ کوئی پاگل ہی یہ کام کرسکتا ہے!

اس جذبہ کا کچھ بھی نام رکھ دیں پاگل پن یا پھر "مامتا". دنیا بھر میں لاکھوں ہزاروں مائیں اپنے بچوں کے اس طرح کے رویہ، بدتمیزی، اکھڑ مزاجی، موڈی پن اور ناشکرے مزاج کو سہتی ہیں مگر پھر بھی جواب میں صرف محبت ہی محبت لٹاتی جاتیں ہیں، ہمارے بچپن میں اپنی نیندوں کو قربان کرکے، ہمارے لڑکپنے میں ہماری شرارتوں کو برداشت کرکے،جوانی میں ہمارے سخت رویّوں کو سہہ کر، اور بڑے ہوجانے پر ہمارے حاکمانہ رویّہ کو دیکھ کر، پھر بھی جواب میں ہمیں محبت، اچھی تربیت، ہماری دنیا اور آخرت سدھا دینے کی لگن لئے، کیا اس دنیا میں اس طرح کے رشتے کی اور کوئی مثال موجود ہے؟

یا پھر شاید کوئی اور اتنا "پاگل" نہیں

ابنِ سیّد

Image Taken From Here
Also read this pictures actual story from Here

Saturday, May 10, 2014

سب سے پہلے اسلام

کچھ لوگوں کا فلسفہ ہے کہتے ہیں کہ پہلے تم مسلمان نہیں سب سے پہلے تم انسان ہو، میں ان سے انسانیت کا معیار اور اخلاقی تعلیمات پوچھتا ہوں تو کچھ جواب نہیں ملتا، جو خود کنفیوژن کا شکار ہو وہ مجھے کیا ہدایت دے گا. انسانیت ہیومینیٹی، نیچرسٹ تو بے لباس رہنے کو بھی عین انسانیت سمجھتے ہیں انکے مطابق انسان تو بے لباس آیا تھا لباس تو یہاں آکر پہنا. کچھ یہی نظریہ انکا ہے جنہوں نے کہا کہ پہلے ہم انسان ہیں اسلام تو دنیا میں آکر ملا (جبکہ یہ بات بالکل غلط ہے)
میں پہلے ایک مسلمان کی حیثیت سے کیوں نہ اپنی پہچان کرواؤں کہ میرا مذہب ہی میری اصل پہچان ہے. میں سب سے پہلے مسلمان ہوں.
مجھ سے میری مسلمانیت کا وعدہ تو اللہ نے مجھ سے اس وقت لیا تھا کہ جب میں مکمل انسان بھی نہ تھا بلکہ صرف ایک روح تھا، عالم ارواح میں مجھ سے اور تمام عالم کے انسانوں سے بندگی کا وعدہ لیا گیا، یہ وعدہ مجھے پیدائش کے دن کان میں اذان کے طور پر دوبارہ یاد دلایا گیا اور پھر قرآن کی صورت میں بار بار یاد دہانی کرائی گئی، بعد ازاں اس وعدہ کو یاد دلانے کیلئے ہر دور میں نبی بھیجے گئے.
وہ کہتے ہیں انسانیت سب سے بڑا مذہب ہے اور پہلے ہم انسان اور بعد میں مسلمان ہیں، لیکن یہ اسلام کا فلسفہ نہیں بلکہ یہ خودساختہ تھیوری ہے کسی انسان کی بنائی ہوئی اور انسانی بناوٹ میں مکمل غلطی کی گنجائش ہے. لیکن میرے رب کا بیان کسی بھی قسم کی غلطی سے پاک ہے:
قرآن میں ہے...
"اور اے نبی، لوگوں کو یاد دلاؤ وہ وقت جبکہ تمہارے رب نے بنی آدم کی پُشتوں سے ان کی نسل کو نکالا تھا اور انہیں خود انکے اوپر گواہ بناتے ہوئے پوچھا تھا "کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟" انہوں نے کہا "ضرور آپ ہی ہمارے رب ہیں، ہم اس پر گواہی دیتے ہیں" (سورہ الاعراف آیت 172)

ـــــــ

ابن ســــــــــــــــــــــــیّد

Tuesday, May 6, 2014

انما المومنون اخوہ

الہی یہ کیسی محبت ہے اور یہ کیسی بے چینی ہے، میں دیکھتا ہوں کہ مصر میں چھے سو تراسی اخوان کو سزائے موت سنائی جاتی ہے اگلے ہی لمحہ پاکستان سے میرے دوستوں کے غم و غصّہ میں بھرے اسٹیٹس دیکھتا ہوں، کچھ لمحوں بعد میں وہی آنسو انڈیا کے ایک مسلمان بھائی کے آنکھوں میں دیکھتا ہوں، اور اگلے ہی لمحے بنگلہ دیش سے میرے دوستوں کے انہی جذبات سے لبریز پیغامات موصول ہوتے ہیں، ترکی میں موجود میرے بھائی بیقرار ہوکر نکل پڑتے ہیں. مشرق سے لے کر مغرب تک، نیل کے ساحل سے لے کے تابہءخاک کاشغر، اس طرح تکلیف جیسے ایک جسم کی مانند ہوں، جسم کے ایک حصّہ پر زخم کے لگنے کی دیر تھی کہ پورا جسم بیقرار ہوچکا ہے. یہ جسم جس کی آنکھوں سے آنسو رواں ہیں، دل غم و غصّہ سے بے حال ہے، سانسیں بے ربط ہوگئی ہیں، ہاتھ بے بسی سے آپس میں ملتے ہوئے سوچتے ہیں اپنے بھائی کی مدد کیلئے کیا کرجائیں. یہ جسم جس کا ایک حصّہ یورپ میں تو دوسرا عرب میں تیسرا ہند میں تو چہارم مشرق میں. ایک آگ ہے جو ایک سرے سے دوسرے سرے تک بھڑک اٹھتی ہے. میں اس محبت کو دیکھتا ہوں، رشک کرتا ہوں سوچتا ہوں کہ دور ایک مسلمان بھائی کے درد میں بیقرار ہونے والے انسان کا اپنے قریبی مسلمان بھائی کا کتنا خیال ہوگا.
مجھے چند آوازیں سنائی دیتی ہیں، کچھ طنز بھرے جملے، تلوار سے تیز الفاظ، جیسے چبھتے ہوئے نشتر ہوں، "پہلے اپنے ملک کی فکر کرلو، پہلے اپنے صوبے کی فکر کرلو، پہلے اپنے شہر محلہ گھر کی فکر کرلو!!" میں اس آواز کی جانب دیکھتا ہوں...سوچتا ہوں کیسے مسلمان ہیں یہ، کیا انہیں اپنے بھائی کا درد نہیں محسوس ہوتا؟ کیا واقعی یہ اس ہی جسم کا حصّہ ہیں؟ میں غور سے دیکھتا ہوں، اس تکرار کو سنتا ہوں، الفاظ بدل کر اور خول میں بند ہوچکے ہیں "اپنی فکر کرو صِرف اپنی فکر کرو" میں مدد کیلئے پکارتا ہوں لیکن جواب آتا ہے، پہلے ہم اپنی فکر کریں گے!
میرے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کا مفہوم ہے:"مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں کہ جسم کے ایک حصّہ میں تکلیف ہو تو پورا جسم بیقرار ہوجاتا ہے"
Nu'man b. Bashir reported Allah's Messenger (may peace be upon him) as saying: The believers are like one person; if his head aches, the whole body aches with fever and sleeplessness.
(Sahi Muslim,H:6260)

ابنِ سیّد

Picture Taken From Here

کامن سینس از ناٹ سو کامن

کامن سینس از ناٹ سو کامن 

 
ہمارے ملک کا دیسی لبرل طبقہ کہتا ہے کہ ملک میں شراب پر پابندی کی وجہ سے لوگ غیر قانونی شراب کی خرید و فروخت لاکھوں روپے کے حساب سے کر رہے ہیں، کہتے ہیں اس کے بجاۓ پابندی ہٹا کر ٹیکس لگا دینا چاہیے تاکہ ملک کی معیشیت کو فائدہ ہو، ویسے یہ سب سن کر مجھے ذرا بھی حیرت نہیں ہوئی جو لوگ امریکی بھیک کیلئے ایمان بیچ سکتے ہیں انکے لئے ایسا کہنا کوئی اچھوتا تجربہ نہیں.
حیرت اس بات پر ہے کہ بجاۓ اپنی پولیس کے نظام کو بہتر بنانے کی بات کرنے کے یہ لوگ پابندی ہٹا کر ٹیکس لگانے کا کہہ رہے ہیں. اگر شراب غیرقانونی فروخت ہورہی ہے تو اس کی ذمہداری پولیس پر ہے کہ وہ اپنا کام ٹھیک سے نہیں کر رہے.
اگر ہم ان کی اس ہی لاجک (اسکو لاجِک کہنا لفظ لاجِک کی توہین ہے) کو لے کر چلیں، تو جناب ملک میں زنا بھی عام ہے تو کیا اس پر بھی ٹیکس لگا کر ملکی معیشیت کو سہارا دیا جائے؟ چوری، ڈکیتی، موبائل اسنیچنگ کی بھرمار ہے تو کیا ہر ڈکیتی پر پندرہ فیصد ٹیکس لگا کر اسے لیگلائز کردیا جائے؟ اور تو اور دھماکے اور خودکش حملوں کی بھی دل کھول کر پیداوار ہے اس حوالے سے حکومت کو حملے کی ایک مقرّر کردہ فیس دے کر معیشیت مضبوط کی جائے اور دھماکوں کی کھلی چھوٹ دے دی جائے؟
اے کاش اس ملک کے لبرلز کیلئے کوئی کامن سینس ڈیویلپمنٹ کا شارٹ کورس ہوتا...

ابنِ سیّد

Image Taken From Here

Saturday, May 3, 2014

کھچڑی

انڈیا ہمارا دشمن ہے لیکن انڈیا کا دوست امریکہ ہمارا بھی مشترکہ دوست ہے. افغانستان ہمارا دوست ہے لیکن افغانستان کا دشمن امریکہ ہے. امریکہ ایران کا بھی دشمن ہے لیکن ایران پاکستان کا دوست ہے جس کا دوست امریکہ ہے. ایران اور انڈیا دوست ہیں لیکن انڈیا ہمارا دشمن. پاکستان کشمیر میں دخل اندازی کرتا ہے اور انڈیا بلوچستان میں ہلچل مچاتا ہے. ایران بھی بلوچستان میں اثر رکھتا ہے اور پاکستان پورے افغانستان میں. سعودی عرب اور پاکستان امریکہ کے دوست ہیں جبکہ ایران و افغانستان امریکہ کے دشمن.

کچھڑی پک چکی ہے، ہرا دھنیا اوپر سے چھڑک کر، روٹی کیساتھ نوش فرمائیں.

ابنِ سیّد

آمریت کے فائدے

Image from here, all credits goes to respective owners
جی دوستوں تو آج ہم پاکستان کے عوام کے سب سے مشہور ٹاپک پر بات کریں گے. باوجود اس کے کے بہت سے لوگ میری رائے سے متفق ہونگے لیکن بلاگ شیئر اور لائیک کرتے ہوئے شیطان ان کو روکے گا.
تو آج ہم بات کریں گے آمریت کے فائدے کے بارے میں، آمریت ہمارے مملکت کا سب سے پسندیدہ کھیل ہے جو کہ ہر دور اور ہر موسم میں کھیلا جاتا ہے. اس کھیل میں ایک جانب آمر اور دوسری جانب سیاست دان جب کے بیچ میں عوام موجود ہوتی ہے، کھیل کی مکمل تفصیل کسی اور بلاگ میں. بہرحال، آمریت کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ نہ صرف اچانک بلکہ بن بلائے آتی ہے، اسکے ساتھ ساتھ اس کے آنے کا ٹائم ہے لیکن جانے کا ٹائم کوئی نہیں. آمریت کی دوسری بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ قوم کے "وسیـــــــــــــــــــــــــــع" تر مفاد کو مدنظر رکھ کر آتی ہے بعض من چلے اسے ذاتی مفاد بھی کہتے ہیں لیکن آمریت میں کون کسی من چلے کی گیدڑ بھبکی سنتا ہے. آمریت کا تیسرا سب سے عظیم فائدہ میڈیا کو ہوتا ہے، کیوں کہ آمریت کی وجہ سے میڈیا کے اوقات اور میڈیا کی اوقات بین الاقوامی اسٹینڈرڈ کے مطابق ہوجاتے ہیں. جس کی وجہ سے صحافی حضرات "ایکسٹرا" کام کرنے سے بچ جاتے ہیں. ویسے بھی زیادہ کام صحت کیلئے کافی مضر ہے. (وزارتِ صحت)
وزارت سے یاد آیا آمریت میں آپ جتنی چاہو وزارتیں بنالو مسئلہ ہی کوئی نہیں. ہر وزارت کیلئے الگ قلم دان اور الگ اگالدان اور چند سیاست دان مفت دینے پڑتے ہیں، یہ سب پیکج میں شامل اور کوئی ایکسٹرا چارجز بھی نہیں.
آمریت وہ جادوئی "چھَڑی" ہے جس کے گھماتے ہی ہر ناجائز جائز اور حرام حلال ہوجاتا ہے. پھر چاہے آئین توڑو یا قانون، یا کسی کا سر، یا پیر، کسی کو قیدی بناؤ یا مسنگ پرسن، یا کسی کو گوانتانامو بھیج کر ڈالر کما لو، لیکن خیال رہے یہ سب کچھ کرتے ہوئے قوم کا وسیــــــــــــــــــــــــــــع تر مفاد مدنظر ہو!
ابنِ سیّد


Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...

Facebook Comments