Wednesday, July 16, 2014

(قاتل طیارے) گیم آف ڈرونز!

Image from here
٢٠٠٤ سے لے کر ٢٠١٣ تک امریکی رپورٹ کے مطابق ڈرون حملوں کی تعداد ٣٦٩ ہے جبکہ اس میں ان کے مطابق ٢٨٥١ افراد کی ہلاکت ہوئی جس میں سے ٢٢٩١ شدت پسند، ٢٨٦ سویلین اور ٢٧٤ وہ افراد ہیں جن کے بارے میں معلومات ہی نہیں ، یعنی حملے ہوگئے لوگ مرگئے اور مارنے کے بعد یہ دیکھنا ہی گوارا نہیں کیا گیا کہ مرنے والے آخر تھے کون. جمائما خان کی ڈرون حملوں کے حوالے سے ڈاکومنٹری میں بتایا گیا کہ ایک جگہ حملہ ہوا اور کہا گیا کہ "اہم طالبان کمانڈر" ہلاک، جبکہ دراصل اس دن ایک بچے کی ہلاکت ہوئی جو کہ گاڑی میں اپنے دوستوں کو فٹبال کھیلنے کیلئے جمع کررہا تھا، اس ہی ڈاکومنٹری میں ایک ڈرون آپریٹ کرنے والا فوجی بتا رہا ہے کہ ڈرون کے کیمرے میں ہمیں اس بات کا اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ ہم نے کس پر حملہ کیا یہ سب انٹیلیجنس اطلاعات پر ہوتا ہے اور سب جانتے ہیں یہ اطلاعات بعد میں غلط بھی ثابت ہوتی ہیں، یعنی صرف شک کی بنیاد پر افراد کی جان لے لی گئی اور پھر پوچھا تک نہ گیا کہ مرنے والا تھا کون... کیا صرف کولیٹرل ڈیمیج کہہ کر جان چھڑا لی جائے گی؟
یہ اعداد و شمار تو صرف ہلاکتوں کے ہیں جبکہ زخمیوں کی تعداد اس کے علاوہ ہے. اور سب سے بڑی بات کے یہ اعداد امریکی ذرائع کے مطابق ہیں لہذا ان پر پوری طرح اعتبار نہیں کیا جاسکتا.
بیورو آف انویسٹیگیٹیو جرنلزم کے اعداد مزید بھیانک ہیں ، حملوں کی تعداد ٣٨١، ہلاکتیں ٣٦٤٦، سویلین ہلاکتیں ٩٥١، بچوں کی ہلاکتیں ٢٠٠، زخمیوں کی تعداد ١٥٥٧. (تعداد زیادہ سے زیادہ ، جنوری ٢٠١٤)
ملک بھر میں عوام نے ان حملوں کے خلاف احتجاج کیا جس سے مجبور ہوکر بالآخر حکومت پاکستان نے بھی امریکی حکومت سے احتجاج کیا لیکن یہ سب ایک ڈھکوسلہ تھا کیوں کہ ٢٠٠٦ میں فاکس نیوز نے سیٹلائٹ تصاویر شائع کیں جن میں تین ڈرون طیاروں کو شمسی ایئربیس پر کھڑا دکھایا گیا تھا. واشنگٹن پوسٹ نے کہا کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان ایک خفیہ ڈیل کے نتیجہ میں یہ سب کچھ ہورہا ہے جس کی تردید اس وقت کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کی تھی.

ابن سید

(جاری ہے، ساری دنیا سے اور بالخصوص پاکستان کے قبائلی علاقوں سے عوام کا رد عمل، اگلی قسط میں)


"امن" دونوں اطراف سے

ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم دو پہاڑوں کے درمیان پِس رہے ہیں. اس میں سے ایک طرف طالبان ہیں تو دوسری جانب ملکی اسٹیبلشمنٹ. ظلم؟ ظلم تو دونوں جانب سے ہی ہے، میانہ روی، رواداری دونوں جانب سے ہی غائب ہے. ایک جانب سے خوارج، خارجی، انڈین ایجنٹ اور تکفیری ہونے کے الزام لگتے ہیں تو دوسری جانب سے مرتد، ناپاک اور امریکی پٹھو ہونے کا فتوی! جبکہ دونوں ہی مسلمانی کا دعوی کرتے ہیں اور دوسرے کو کافر قرار دینے پر بضد ہیں. ایک جانب سے خودکش حملے ہوتے ہیں تو بیگناہ مارے جائیں، دوسری جانب سے جیٹ طیّاروں سے بمباری ہو تو بیگناہ اُدھر بھی مارے جائیں. اس کولیٹرل ڈیمیج کی فکر دونوں اطراف سے کسی کو بھی نہیں، ہاں اپنی حمایت اور طاقت میں اضافہ کیلئے اس ڈیمیج کی اصطلاح کو استعمال کرنا دونوں جانب کا پسندیدہ مشغلہ ہے. اس سب صورتحال میں جماعت اسلامی کا موقف اب تک سب سے بہتر ہے اور وہ یہ ہے کہ: "نہ خودکش حملوں سے شریعت کا نفاذ ہوسکتا ہے اور نہ ہی جیٹ طیاروں کی بمباری سے آئین کا نفاذ۔
آگ بھڑک جائے تو پھر سب کے مکان جلتے ہیں پھر آگ نہیں دیکھتی کہ کدھر کی ہَوا ہے. دونوں اطراف کے متشددین اپنی اپنی صفوں میں واپس جائیں اور ملک کی تقدیر کا فیصلہ اس ملک کے باشعور عوام کو کرنے دیں. تمام جمہوری سیاسی جماعتیں بھی ملک میں جمہوری و مشاورتی کلچر کے فروغ کیلئے اپنا کردار ادا کریں نہ کے آمریت کیلئے راہ ہموار کرنے کی سازشوں کا حصہ بنیں. اس ملک میں امن کیلئے کام کریں ورنہ بعید نہیں کے اللہ کی "ضربِ کاری" پڑے تو گیہوں کیساتھ گھن بھی پِس جائیں۔
ابنِ سیّد
Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...

Facebook Comments