Thursday, October 31, 2013

"The Leadership of Muhammad Morsi" - By Syed Owais Mukhtar

Abtract: This article covers reviews and focuses the certain aspects of leadership of the president of Egypt Mr. Muhammad Morsi, the member of the most influential organization Ikhwan ul Muslimoon (Muslim Brotherhood), who ran election campaign from the platform of Freedom and Justice Party, and got successful.

Muhammad Morsi the newly elected president of Egypt, previously the president of Freedom and Justice Party since April 30, 2011, participated in the elections from the platform of Freedom and Justice Party and elected as the president of Egypt. He joined the office of president on June 30, 2012. He was a loyal member of the Muslim Brotherhood (Al Ikhwan ul Muslimoon) the biggest and the most influential Islamic movement in the Arab world. He is associated with Muslim Brotherhood since his youth.
Ikhwan ul Muslimoon, the Muslim Brotherhood is the most influential Islamist group in the Arab world, it is perhaps the biggest movement of its kind, the members of Brotherhood are well known for their honesty, loyalty and discipline. Although certain criticism on their movement and way of working they are still growing in numbers and are widely supported by the local population. The movement is based on Quran and Sunnah and mostly the activist of Brotherhood is tend to follow the vision, but in this entire scenario we can not neglect the presence, motivation and leadership of the leaders of Brotherhood without which they might it seemed impossible to reach the destination. Similarly Muhammad Moris worked a lot in order to develop himself, along with the God-gifted skills he got.
Introduction: Muhammad Morsi was born in the village of Edwa in the northern Egypt Al Sharqia Governorate (translated as Eastern Governorate) in August 20, 1951. He got his early education in Edwa [2] which is a small undeveloped area, then for higher education he came to Cairo where he completed his graduation in 1974 and post-graduation degree in 1978 [3] from the Cairo University. He then traveled to United States and got his Ph.D. degree from the University of Southern California in 1982 [4]. He joined California State University as an Assistant Professor in 1982 up to 1985. After 1985 he came back to Egypt and joined Zaqaziq University as a professor [5] where he remained until his presidency.
Leadership of Morsi: Just like the founder of the Muslim Brotherhood Hassan al-Banna, Muhammad Morsi also selected teaching as his profession. [6]. He looks like a typical worker of Muslim Brotherhood and an ordinary man. Though being an ordinary person his character and loyalty for his organization makes him respectable in the eyes of other members of the organization. The charisma in his personality brings a common man of Egypt near the vision of Brotherhood, and this charisma urged them in order to get attached with the personality as well.
Verbal and Nonverbal Communication Skills: Muhammad Morsi has dynamic communication skills, verbal and nonverbal both. This can be seen from his interview which was taken by Al Jazeera [7] shows his preparation for the interview as well the answering to the cross questioning in an excellent manner. His show of nonverbal communication was shows when he had a speech in the Tehrir Square after elected as president, where he opened his chest showing no bullet proof jacket [8] which is the contrast to the former president Hosni Mubarak who used to take a large security squad with him. [9]
Muhammad Morsi opening and showing his chest to a public gathering in the celebration ceremony at Tehrir Square. [10]

Problem solving: Muhammad Moris just like the other brothers solve the problems and tasks related to the organization through the mutual understanding of the respected members of the organization. He used to tackle all such problem through mutual agreement with his fellow Brotherhood workers. This is the reason the organization was able to tackle some very difficult situations in the past, few cases which include the involvement of army in the presidential election procedure which was fought through public power, after his success he was facing opposition from certain political parties this situation was resolved through giving proper representation of all political parties in the parliament.

References:
[1] [3] [4] [5] http://www.sis.gov.eg/En/Story.aspx?sid=62578
[2] http://www.economist.com/node/21557803
[6] http://www.islamtimes.org/vdcd.j0s2yt0jfme6y.html
[7] http://www.aljazeera.net/home/print/0353e88a-286d-4266-82c6-6094179ea26d/ec1af614-ab8b-4f33-9e16-b7969e03e175
[8] http://www.telegraph.co.uk/news/worldnews/africaandindianocean/egypt/9367022/Nazir-Ali-How-Mohammed-Morsi-Egypts-first-Islamist-president-interprets-Sharia-law-will-be-a-crucial-test.html
[9] JOHN DANISZEWSKI | TIMES STAFF WRITER, Los Angeles Times, http://articles.latimes.com/1999/sep/07/news/mn-7572
[10] Picture from Dispatch.com

داخلہ ٹیسٹ: فائدہ یا نقصان؟ (پہلا حصہ)

داخلہ ٹیسٹ: فائدہ یا نقصان؟
آج کل تقریباً تمام جامعات میں داخلہ سے پہلے داخلہ ٹیسٹ لیا جاتا ہے. لیکن یہ لیا کیوں جاتا ہے؟ تاکہ ان افراد کو لسٹ سے خارج کیا جاۓ جو غیرقانونی طریقے سے نمبر لیکر آئے ہیں. پرائیوٹ جامعات سے ابھی لاتعلق رہیں پہلے ان اداروں کی بات کی جائے جو حکومت چلا رہی ہے جیسے جامعہ کراچی، جامعہ این ای ڈی، داؤد کالج، جامعہ اردو وغیرہ، ان میں سے تمام جامعات میں داخلہ کیلئے آپکو داخلہ ٹیسٹ دینا پڑیگا شاید ان کے نزدیک آپکا انٹر کا رزلٹ مشکوک ہے. یعنی ایک حکومتی ادارے (مثلاً جامعہ کراچی) کو دوسرے حکومتی ادارے (مثلاً انٹر بورڈ) پر اعتبار نہیں؟ اب اگر جامعات سے بات کی جائے تو جواب یہ ہوگا کہ ہم ان درخواست گزاروں کو خارج کرنا چاہ رہے ہیں جو معیار پر پورے نہیں اترتے. اب سوال یہ پیدا ہوتا ہیکہ "معیار" کیا ہے؟ اگر معیار اس ہی کا نام ہے جو جامعات کے انٹری ٹیسٹ میں شامل ہے تو پھر بجاۓ اسکے کہ ان سے انٹر کی مشقّت لی جاۓ جب انکو آگے انٹری ٹیسٹ میں ہی پرکھنا ہےتو انکو اس کی ہی کیوں نہ تیاری کرائی جائے؟
مسئلہ کا حل صرف اتنا سا ہیکہ انٹر کی تعلیم کو معیاری بنایا جائے اور اس کو اس نہج پر لیجایا جائے کے وہ سرٹیفیکیٹ جامعات کیلئے قابل قبول ہوجائے. لیکن مسئلہ کی جڑ کو ختم کرنے کے بجاۓ سب مسئلہ کے حل کی کوشش میں طلبہ کیلئے مشکلات کھڑی کئے جارہے ہیں!
جب ایک چیز میں پیسے کی فراوانی آجائے تو وہ خود ہی مشکوک ہوجاتی ہے اور یہی حساب انٹری ٹیسٹ کا ہے اس میں کئی کے مالی مفاد موجود ہیں اور اس ہی لئے اس سسٹم کو مزید تقویت دی جارہی ہے. سب سے پہلا فائدہ تعلیمی ادارے کا ہے. ایک تعلیمی ادارہ یا جامعہ جب داخلوں کا اعلان کرتا ہے تو اس نتیجہ میں اسکو ہزاروں کی تعداد میں درخواستیں موصول ہوتی ہیں. ہر درخواست کی ایک مخصوص فیس ہوتی ہے قطع نظر اسکے کہ وہ درخواست قبول ہوتی ہے کہ ردی کا حصہ بنے. اس طرح داخلہ سے پہلے سیٹوں کی تعداد سے کہیں زیادہ درخواستیں موصول ہوتی ہیں جس کی وجہ سے جامعہ کو ایک بھاری رقم ملتی ہے. ٹیسٹ کی مخصوص رقم بھی ہر سال سو دو سو روپے کے حساب سے بڑھ رہی ہے. اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا ایک طالبعلم کے ٹیسٹ میں بیٹھنے کا اتنا خرچہ آتا ہے؟ یا یہ سب جامعہ کے اکاؤنٹ کی زینت بنتا ہے؟
اس ٹیسٹ سے دوسرا مفاد ان اداروں کا ہے جو پورا پورا سال طلبہ کو ٹیسٹ کی تیاری کراتے ہیں. ان میں سے ہر ادارہ طلبہ کو ایڈمیشن ٹیسٹ پاس کرنے اور داخلہ کی گارنٹی دیتا نظر آتا ہے. جبکہ اکثر اوقات جامعات کی راہ پر چلتے یہ ادارے مخصوص نشستوں سے بھی زیادہ طلبہ کو انرول کرلیتے ہیں. ظاہر ہے ان میں سے کئی کا دعوی فیل ہوتا ہوگا مگر آڈٹ کون کرے ان سے پوچھنے والا کون؟ بہتی گنگا میں سب نہا رہے ہیں!
واللہاعلم
(ابنِ سیّد)
نوٹ: پہلا پارٹ ہے، انشاءاللہ تحقیق کے ساتھ ساتھ اگلی معلومات کا تبادلہ کرتا رہوںگا.

Thursday, October 24, 2013

بچوں پر کارٹون کے اثرات!

بچوں پر کارٹونز کے اثرات:
کچھ دن پہلے ایک صاحب کی پوسٹ  پڑہی جس میں وہ بتارہے تھے کے کس طرح "ہم" ٹی وی پر آنے والے ڈراموں میں اخلاق سے گرے ہوئے ڈائیلاگ نئی نسل پر برا اثر ڈال سکتے ہیں.
میں اس میں تھوڑا مزید اضافہ کرنا چاہتا ہوں، ڈرامے دیکھنے والے نوجوان پھر بھی ذرا میچور ہوتے ہیں اور اچھے برے میں تمیز کر سکتے ہیں لیکن ایک بچّہ شاید اس میں تمیز نہ کرپاۓ. اگر آپ ان کارٹون پر نظر دوڑائیں جو آج کا بچہ دیکھ رہا ہے تو آنے والا وقت اخلاقی طور پر مزید بھیانک دکھے گا. مثلاً:
-ایک کارٹون میں دکھایا جا رہا ہے گرل فرینڈ بوائے فرینڈ ریلیشن، جس میں لڑکا اسکو ڈنر پر مدعو  کرنے میں ہچکچا رہا ہے، وغیرہ
-تُو تڑاپ کا استعمال بچوں کی زبان.خرابی کا باعث
-ٹپُوری زبان کا استعمال
-"تمہاری ماں کی آنکھ" ایک کارٹون کا دوسرے کارٹون سے مکالمہ
یہ تو صرف چند مثالیں ہیں جبکہ جو معصوم ذہن سارا سارا دن کارٹون دیکھتے ہیں انکے ذہنوں میں کیا کیا جاتا ہوگا اور آنے والے دور میں کیا گُل کھلا سکتا ہے! بہرحال یہ ایک لمحہِ فکریہ ہے.
(ابنِ سیّد)

Tuesday, October 22, 2013

قیامِ پاکستان اور علماء کا کردار

قیام پاکستان کے وقت علماء کے دو گروہ ہوگئے تھے. ایک کا کہنا تھا کہ پاکستان کا بننا مسلمانوں کی طاقت کا بٹوارہ ہے کیوں کہ اس طرح دور کی وہ ریاستیں پاکستان میں شامل نہ ہو پائیں گی. نتیجہ کہ مسلمانوں کے درمیان ایک خلیج حائل ہوجاۓ گی.
اسکے ساتھ ہی دوسرے گروہ کا کہنا تھا کہ پاکستان میں بہتر طور پر اسلام کی کھل کر ترویج و اشاعت  ہو سکتی ہے. اپنے اپنے لحاظ اور عقل علم و سمجھ کی بنیاد پر دونوں گروہ ٹھیک ہوسکتے ہیں.
اور جب پاکستان بنا تو علماء کے دونوں گروہوں نے اس کو دل سے تسلیم کیا. انکا کہنا تھا کہ مسجد بنائی جاۓ یا نا بنائی جائے اس پر اختلاف ہو سکتا ہے لیکن جب مسجد بن جاۓ تو مسلمان پر اسکی حفاظت لازم ہوجاتی ہے. انہوں نے اس طرح پاکستان کو مسجد کا درجہ دیا.
دونوں گروہوں نے آپس کے اختلاف ختم کئے اور مل کر پاکستان کی خدمت اور اسلام کی اشاعت میں زندگیاں کھپا دیں.
آج کے دور میں اگر بعض افراد جن کا تعلق ان دونوں علماء کے ساتھ رہا ہو یا غیرتعلق رہے ہوں اگر اس مسئلہ کو بنیاد بنا کر اسکی بنأ پر رنجشیں پیدا کریں تو یہ نری جہالت ہوگی اور گڑے مردے اکھاڑنے سے مترادف ہے.
(مولانا مسعود اظہر کی ایک کتاب میں کچھ اس بارے میں پڑھا تھا اسکو اپنے الفاظ میں لکھ دیا مختصراً، امید ہے کچھ لکھنے میں غلطی ہو تو احباب تصحیح فرمادیں گے. جزاک اللہ)
(ابنِ سیّد)

Saturday, October 19, 2013

آبادی: کیا یہ "مسئلہ" ہے یا "مسائل کا حل"؟

عابدہ حسین  جنگ کی معروف کالم نویس ہیں لکھتی ہیں کہ ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ آبادی ہے(کالم آبادی کا بم پھٹ چکا ہے)،انکے مطابق انسان کو یہ سوچنا چاہئے کہ اپنے بچوں کا کھانا پینا رہائش تعلیم کر بھی سکے گا کہ نہیں اور نہیں کر سکتا تو فُل اسٹاپ.جبکہ ہم جانتے ہیں اس دنیا میں ہر شخص کا رزق نہ اسکے ماں باپ فراہم کرسکتے ہیں نہ حکومت بلکہ اللہ اسکا رزق مقرر کرتا ہے. جن ممالک نے آبادی کو مسئلہ سمجھ کر روکا آج وہ پچھتا رہے ہیں وہاں معمر افراد بڑھ رہے ہیں اولڈ ہوم  بھر رہے ہیں کیوں کہ بوڑھوں کو سنبھالنے والی اولاد موجود نہیں. اسلام کی تعلیم یہی ہے کہ ہر شخص اس دنیا میں اپنا رزق خود لاتا ہے،اللہ ہر جاندار کو رزق پہنچاتا ہے.
اسکے علاوہ انکے کالم کا دوسرا نکتہ جس پر مجھے تشویش ہے کہتی ہیں شادی تیس سال سے پہلے نہ کریں.جبکہ یہ تو معاشرہ جس اخلاقی تنزلی کی جانب جا رہا ہے اسکی رفتار دوگنی کرنے کے مترادف ہے.
(ابنِ سیّد)

Friday, October 18, 2013

خود بدلتے نہیں قرآں بدل دیتے ہیں

زنا کی سزا میں چار گواہ اسلام کا مطالبہ ہے، قرآن کا مطالبہ  ہے یہ کسی مولوی کا فتوی نہیں قرآن کھولو تو خود مل جائیگا. لیکن باوجود اس کے جب اس مسئلہ پر بات ہوتی ہے یہ لبرل اور بعض وہ لوگ جو خود کو مسلمان کہتے ہیں یہ  بات کرتے ہیں کہ فلاں مفتی نے ایسا کہا جبکہ اس مفتی نے تو قرآن سے رہنمائی لی تھی. یہ لوگ اسلام کو کھل کر برا نہیں کہ سکتے انہیں اسلامی احکامات پسند نہیں لہذا اسکا حل انہوں نے یہ نکالا کہ جو حکم پسند نہ آئے اسکو کسی مفتی سے نتھی کرکے اس مفتی کو برا کہنا شروع کردو. جب کہ اگر خود قرآن کھولتے تو واضح آیت انکے سامنے ہوتی. یہ تو ایک مثال ہے جبکہ اطراف میں نظر دوڑائیں ہر دوسرا  بندہ آپکو علماء کی تضحیک کرتا ملیگا، وہ جو بھی وجہ بتائے مگر اکثر اوقات بات یہی ہوتی ہے کہ انکے نفس کو اسلام کا وہ حکم پسند نہیں آتا.
 خود بدلتے نہیں قرآن بدل دیتے ہیں
(ابنِ سیّد)

Tuesday, October 15, 2013

دائیں اور بائیں بازوؤں کا توازن


شاید موضوع آپکو ذرا وکھری ٹائپ کا لگے لیکن بہرحال ایک خیال ہے جسکا میں سمجھتا ہوں کہ اظہار ضروری ہے. کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے کہ شاید غلط اور صحیح کی جنگ جو کہ ازل سے جاری ہے اور بہت ممکن ہے کہ ابد تک جاری رہے. اس جنگ کے دو اہم ٹیمیں ہیں اور کھلاڑی بھی اسی لحاظ سے ہیں. دائیں بازو اور بائیں بازو کے درمیان یہ جنگ معاشرے میں ایک توازن برقرار رکھی ہوئے ہے. دونوں طرف کے افراد علم اور ریسرچ کے حوالے  سے خاصے منجھے ہوئے ہیں. بعض دفعہ لبرلز کچھ ایسے حوالے دیتے ہیں جو ہم نے دیکھے نہیں ہوتے اور بہت دفعہ ایسا بھی ہوا جب دائیں بازو کے اراکین کچھ ایسے اقوال کا حوالہ دے جاتے ہیں کہ مخالف سر کھجاتا رہ جاتا ہے. لیکن ایک چیز دونوں میں مماثل ہے اور وہ یہ کہ دونوں قبیلوں کے افراد ہی نہایت قلیل تعداد میں ہیں. ایک قبیلے کی گرفت معاشرے کے اقتدار اور مواصلات کے اوپر ہے تو دوسرے قبیلے کی رسائی معاشرے کے اندر. اور یہ دونوں انتہاؤں کے درمیان معاشرے کا ایک بڑا حصہ جو کے نہ اِدھر کا ہے نہ اُدھر کا اور اسی طبقے کو اپنے اپنے قبیلوں میں لانے کیلئے دونوں طرف کے لوگ لاتعداد محاذوں پر ان علمی بحثوں میں مشغول ہیں. لیکن بہرحال ان دونوں طبقات کی وجہ سے معاشرے میں ایک توازن ہے.
(ابنِ سیّد)

Monday, October 14, 2013

ایک "بہادر" سپہ سالار کا قصہ

یہ ان دنوں کا واقعہ ہے جب ہمارا ملک گوں نا گوں کیفیات سے گزر رہا تھا یہ وہی دور تھا جس کو بڑے لوگ تاریخ کا نازک ترین موڑ کہتے ہیں جب پاکستان میں ہر طرف خوف کا راج تھا عوام بھوکی مرتی تھی ایسے میں ایک سالارِ اعظم سامنے آیا اور اس نے پاکستان کو ملک کے وسیع تر مفاد میں مشرف با مشرف کیا. یہ شخص جو ایک نڈر سپاہی تھا اب قوم کی امیدوں کا مرکز بنا! اس کے اقتدار میں آتے ہی امریکہ، انڈیا، اسرائیل کے ایوان ہل کے رہگئے. جب امریکہ نے اس کو فون کر کہ کہا ک پتھر کے دور میں پہنچا دونگا تو اس نے پاکستانی فلم کے ہیرو کی طرح للکار کر کہا "نہیییییییں" اور پھر گرج کر "سب سے پہلے اسلام" کا نعرہِ مستانہ بلند کردیا. آخر کار امریکہ کو اس کے قدموں میں بیٹھنا پڑا. اور جب امریکہ نے کہا کہ وہ افغانستان پر حملہ کریگا تو اس بہادر سالار نے کہا کہ "ہماری لاشوں سے گزرنا پڑیگا" اور جب امریکہ نے ڈرون کے لئے ہوائی اڈا مانگا تو اس نے تاریخی جملہ کہا "میں خود کو مسلمانوں کا قاتل نہیں کہلانا چاہتا" اور جب امریکہ نے کہا کہ ہمیں نیٹو سپلائی لیجانے کا رستہ دو تو اس نے کہا کہ اگر اس پاک سرزمین سے مسلمانوں کے قتل کا سامان گزرا تو میرے منہ پر لعنت. انہی دنوں ملکی چینلوں پر نت نئے پروگرامات آئے جس میں لوگوں کو اسلام کا درس دیا جاتا. تمام ملک کے لوگ اسلام کے سچے پیروکار بن گئے اور مخلوط میراتھن جیسی چیزوں کا بائیکاٹ کردیا. اس نے ملک کی وفادار جماعتوں کے ساتھ وفا کی اور انہیں کراچی میں امن کا چارج دیا جس کے بعد کراچی میں امن کا راج ہوا اور ٹارگٹ کِلّر بھوکوں مرنے لگے. بھتّہ دینے والے ڈھونڈتے پھرتے تھے مگر کوئی بھتہ لینے والا نہ ملتا.
یہی وہ شخص تھا کہ جب رخصت ہوا تو قوم.کی آنکھوں میں آنسو تھے اور وہ دامن پھیلا پھیلا کر دعائیں دے رہے تھے. دعائیں؟ جی ہاں دعائیں!
Note: All characters appearing in this work are fictitious. Any resemblance to real persons, living or dead, is purely coincidental.

Sunday, October 13, 2013

Nust: My Right To Wear!


جب دنیا کے کسی ملک میں حجاب پر پابندی  لگتی ہے یا حجاب پہننے پر کسی خاتون کو نشانہ بنایا جاتا ہے، بعض اوقات تو شہید کردیا جاتا ہے (شہیدِ حجاب مروی کی مثال موجود ہے) تب تو یہ لبرلز اور روشن خیال افراد کا گروہ دم سادھے بیٹھا رہتا ہے. اس وقت نہ انکو کوئی حقوق کی خلاف ورزی نظر آتی ہے نہ کوئی (My Right To Wear) والا قبیلہ آواز اٹھاتا ہے.  لیکن جب کسی جامعہ میں کچھ طلباء و طالبات پر نامناسب کپڑے پہن کر آنے پر انکو جرمانہ کیا جاتا ہے تو اس وقت سارے زمانے کا دکھ، انکے حقوق اور ضیا الحق کا دور انہیں یاد آنا شروع ہوجاتا ہے جیسے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہی یہی ہو. یہ ہے ان نام نہاد روشن خیال لوگوں کی نہایت ہی چھوٹی ذہنیت...
جتنا بڑا مسئلہ اس ملک میں تعلیم کا معیار ہے اتنا ہی بڑا مسئلہ طلباء کی مناسب تربیت ہے اور ایک اچھا تعلیمی ادارہ اپنے طلباء میں نظم و ضبط قائم رکھنے کیلئے ہر اقدام کرتا ہے. دنیا کی معیاری پانچ سو جامعات میں نسٹ کا نام ایسے ہی نہیں آگیا!
(ابنِ سیّد)

Saturday, October 12, 2013

12 October!

12 اکتوبر...
یہی گرم دن اور حکومت بھی یہی، کارگل کی شکست کے زخم بھرے بھی نہ تھے کے پتہ چلا کہ قومی چینل پر صرف ملی نغمے آرہے ہیں اور پھر وہی آواز "میرے عزیز ہم وطنوں!" ایک بار پھر آمریت دیواریں پھلانگ کر ایوان میں آچکی تھی پھر ایک نئے دور کا آغاز، پاکستان کے عوام مہنگائی سے بے حال تھے، کیوں نہ ہوتے کوئی نئی وجہ تو نہ تھی کب ہم نے دیکھا یا کب سنا کہ مہنگائی ننہیں لیکن یہ وجہ تو نہ تھی.بلکہ ایک ہی وجہ تھی "انا" اور اسی اناپرستی کی آگ نے فوج کو اقتدار کا رستہ دکھایا. وہ آئین جس کو سب نے متفقہ منظور کیا تھا معطل کردیا گیا ایک بندوق کی نال کے زور پر.
لوگ خوش تھے، بیوقوف تھے! سیاسی حلقے پریشان تھے...پھر زوال شروع ہوا وہ سپہ سالار جس کو قوم بہادر سمجھی تھی وہ تو نرا بزدل نکلا، سب سے پہلے کشمیر بکا، پھر جھاد کا نام بکا، پھر سب سے پہلے پاکستان کے نعرے پر افغان مسلمانوں کی جانیں بکیں..پھر کیا کیا نہ بکا میڈیا کی آزادی کے نام پر افکار بکے، روشن خیالی کے نام پر میراتھن ہوئی عزتیں نیلام ہوئیں، ہوائی اڈّے بِکے اور اس کے ساتھ ساتھ اپنوں کی جانیں بِکیں...مائیں بہنیں بکیں عافیہ بکی...آج تمہارا مجرم ضمانتوں پر ضمانتیں کروا رہا ہے، لیکن ہر عروج کو زوال ہے، ہمارے افکار کا سوداگر بچنے نہ پائے، کیا بھول گئے ہو اے لوگو!....
(ابنِ سیّد)

Thursday, October 10, 2013

"Welcome to Pakistan" article published in SIO-India's Magazine

یہ ہے میرے اس آرٹیکل کا عکس جو ایس آئی او (انڈیا) کے میگزین وِمارش میں شائع ہوا. جس کو آپ اس لنک سے بھی دیکھ سکتے ہیں ( http://thecompanion.in/vimarsh/ebook/august13/#27/z ) یہ آرٹیکل انگریزی زبان میں بھی انکی ویب سائیٹ پر شائع ہوا جسے آپ یہاں سے دیکھ سکتے ہیں ( http://thecompanion.in/welcome-to-pakistan/ )
زیادہ حیرت مجھے اس بات پر ہے کہ یہ آرٹیکل اگست کے شمارے میں شائع ہوا جو کہ دونوں ممالک کیلئے خاص مہینہ ہے حب الوطنی عروج پر ہوتی ہے. لہذا پاکستان میں اگست میں کوئی انڈیا پر آرٹیکل لکھے تو ہم اسے انڈین ایجنٹ کا خطاب دینے میں دیر نہیں لگائینگے. لیکن ایس آئی او والوں کی ہمت کو داد ہے جو انہوں نے ایک اقلیت ہوتے ہوئے انڈیا میں رہتے ہوئے اگست میں اپنے شمارے میں پاکستان کے اوپر ایک مثبت آرٹیکل کو جگہ دی جبکہ دونوں ملکوں میں کشمکش اس وقت بھی بارڈر پر جاری تھی. اپنی قیمتی آراء سے ضرور آگاہ کیجئے گا. جزاک اللہ

Wednesday, October 9, 2013

جمعیت سے کیا پایا



جمعیت سے باضابطہ رشتہ، رفاقت کی صورت بنتا ہے. جمعیت سے میرا تعارف ٢٠٠٧ میں ہوا اور اسی سال رفیق بنا، اِس بے معنی اور بے مقصد زندگی کو جیسے ایک شعور ایک راستہ مل گیا.اسلام کے حقیقی تصور سے واقف ہوا. صرف چھے سال کی رفاقت نے وہ کر دکھایا جو شاید بچپن سے اب تک کی تربیت نہ کر سکی. اس بزدل وجود کو حق کے لئے جان کی بازی لگانا سکھایا. اس لرزتی زبان کو مجمع میں بولنا سکھایا. سب سے بڑھ کر اس فانی دنیا کی حقیقت کھول کے بتا دی اور آخرت کی ابدی تصور سے روشناس کرایا. مجھے اب بھی یاد ہے میں گلے میں چین پہنتا تھا یہ شاید فیشن سے متاثر ہو کر یا پھر انگریزی رسم و رواج کی زنجیر تھی جو گلے میں عرصے سے پڑی ہوئی تھی، جس سے نجات ملی. اور سب سے بڑھ کر بھائیوں سے بڑھ کر زیادہ محبت، ایثار کرنے والے تحریکی بھائیوں سے ملایا. اے جمعیت تو سلامت رہے تاقیامت رہے...
(ابن سیّد)

Tuesday, October 8, 2013

9 ٹو 5 : نئے دور کی غلامی


ہم دنیا میں غلامی کے خاتمے کیلئے بڑی بڑی تحریکیں چلاتے ہیں لیکن کیا کسی نے اس بات کا بھی بغور جائزہ لیا کہ ہماری موجودہ زندگیاں بھی تو غلامی سے کم نہیں، صبح اٹھ کے آفس جانا، نو دس گیارہ گھنٹے کے بعد واپس آنا،اور اسکے نتیجے میں کھانا رہائش بمشکل پورا ہونا. اور اس ہی شیڈیول کی پابندی کرتے ہوئے اسی ایک چکر میں کولہو کے بیل کی طرح گھومتے رہتے ہوئے بھی ہم خود کو آزاد سمجھتے ہیں. ہم اپنی خواہشات کے برعکس ساری زندگی وہ کام کرتے رہتے ہیں جو ہمیں ایک آنکھ نہیں بھاتا،اس کام سے واپس لوٹنے کے بعد ہم ذہنی طور پر نہ صرف تھکے ہوئے ہوتے ہیں بلکہ بے اطمینان بھی ہوتے ہیں. یہی تو ذہنی غلامی ہے بیشک ہمارے ہاتھوں اور پاؤوں میں زنجیر نہیں لیکن اس روزانہ کے شیڈیول سے ایک انچ بھی آگے پیچھے ہوتے ہوۓ ہمیں کئی بار سوچنا پڑتا ہے. اس نظامِ غلامی نے ہماری سوچ کو صرف اتنا محدود کر دیا کہ ہماری بات چیت میں صرف اس بات کا ذکر ہوتا ہے کہ کس چیز کی قیمت بڑھی اور کس کی قیمت بڑھنے والی ہے. مگر اس سب کے باوجود بھی ہم اگر خود کو ایک آزاد فرد تصور کریں تو اچنبھے کی بات ہے...
(ابن سیّد)

مل کر بنا رہے ہیں اک روشن پاکستان

یو ایس ایڈ امریکی عوام کی طرف سے!
امریکی اور پاکستانی عوام مل کر بنا رہے ہیں ایک روشن پاکستان. اس روشن پاکستان کو بنانے کیلئے جو روشنی مستعار لی جارہی ہے وہ ان ڈرون میزائلوں کی روشنی جو امریکیوں کی جانب سے قبائلی علاقوں پر کئے جاتے ہیں. اس روشنی سے کئی چراغ بجھ بھی جائیں تو کیا ہوا، وہ چراغ جل بھی جاتے تو اتنی روشنی نہ پیدا کر سکتے جتنی روشنی یہ یو ایس ایڈ کرجاتی. یہ توانائی، صحت اور تعلیم کے شعبوں میں کام کرینگے. توانائی میں اس لئے کیونکہ ایٹمی توانائی کے باوجود شاید ہم وہ توانائی پیدا نہیں کر پارہے جو یہ یو ایس ایڈ والے چاہتے ہیں. صحت، ہاں اس شعبے میں ضرور کام کریں کیونکہ یہ شعبہ بہت اہم ہے خصوصاً ان علاقوں میں جہاں ڈرون باری ہوتی ہے تاکہ ان متاثرہ لوگوں کی مدد کی جاسکے جو اپاہج ہوگئے ڈرون کی بدولت اور جب وہ صحتمند ہوجائیں تو مزید ڈرون مارے جا سکیں اور تعلیم کا شعبہ تو رہ گیا یاد تو ہوگا پہلا ڈرون حملہ باجوڑ میں ایک مدرسے پر ہوا تھا اور قریباً اسّی بچے شھید ہوئے تھے، خیر میں بھی کیا ہر بات میں ڈرون درمیان میں لے آتا ہوں..ہاں تو میں کہہ رہا تھا..
امریکی اور پاکستانی عوام مل کر بنا رہے ہیں ایک روشن پاکستان...
(ابن سیّد)

Monday, October 7, 2013

ہماری ترجیحات کیا ہیں

اتفاق سے میرا بھی تعلق کئی تعلیمی اداروں سے رہا. میرے ساتھی کلاس فیلوس مختلف پروگرامات کراتے تھے اور ان میں سے کئی موسیقی سے بھرپور ہوتے تھے. میں نے اور چند دوست جو مذہبی ذہن کے حامل تھے سوچا کہ اس طرح بھی ہو سکتا ہے کہ دین کی بات کلاس میں کی جائے لیکن جب ہم نے ایسا کرنے کا سوچا تو ہمیں روک دیا گیا. کافی دفعہ یہ سوال کیا جاتا کہ کس تنظیم کے ہو اور تمہیں اتنی کیوں فکر ہے لوگوں کہ ذہنوں میں اسلامی تعلیم انڈیلنے کی،میں سوچتا تھا کہ جب تعلیمی اداروں میں موسیقی کے پروگرام ہوتے ہیں تو ان سے اس پروگرام کا مقصد کیوں نہیں پوچھا جاتا؟ این ای ڈی میں ایک عرصہ گزارا صدی پرانی جامعہ جس میں کئی نئے نویلے ڈپارٹمنٹ بننے کے باوجود قریباً 2009میں مسجد کی توسیع ہوئی. ایک دفعہ Fast یونیورسٹی جانا ہوا مسجد ڈھونڈنے کے بعد گراؤنڈ کے اک کونے میں کچی زمین پر چند جاء نمازیں بچھی دیکھیں اس وقت بھی اسکا شمار اچھے اداروں میں ہوتا تھا اب سنا ہے اچھی بن گئی ہے مسجد. ایک دینی پروگرام Marriot میں ہوا تھا ہوٹل کے باھر ٹوٹی پھوٹی مسجد دیکھ کر شدید دکھ ہوا.
بتانے کا مقصد صرف اتنا تھا کہ ہماری ترجیحات کیا ہیں ہم دنیا کے لئے کتنا خرچ کرتے ہیں اور آخرت کے لئے کتنا. ہم آفس کی عمارت کیلئے پلازہ کھڑا کردیتے ہیں لیکن مسجد کے لئے بیسمنٹ کے کونے پر ٹوٹی پھوٹی جگی ہی ملتی ہے. بچوں کی تعلیم او لیولز میں ہونی چاہئے اسکے لئے دس ہزار فیس بھی کم اور گھر پر آنے والے قاری صاحب کی پانچ سو روپے فیس پر بھی تکرار...
(ابن سّید)

شریف آدمی....



کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے ایک جگہ سے گزر رہا تھا کہ چند بائیک سواروں نے روکا اور موبائل چھیننے کی کوشش کی،تمہیں تو پتا ہے میں ایک "شریف آدمی" ہوں میں نے مزاحمت نہ کی اور چپ چاپ موبائل دے دیا.
ایک عرصہ پہلے کی بات ہے کہ میں ایک جگہ سے گزر رہا تھا رستے میں دیکھا کہ ایک شخص کسی خاتون کے ساتھ بد تمیزی کر رہا ہے. ایک لمحے کو تو میں رکا لیکن تمہیں تو پتا ہے میں ایک "شریف آدمی" ہوں لہذا میں نے عافیت اسی میں سمجھی کے چپ چاپ گزر جایا جائے.
اور پھر بقر عید کے وہ دن عید کی نماز کے بعد ہم گھر کو آئے کہ اپنی قربانی اللہ کی راہ میں پیش کریں، بڑے چاؤ سے بکرا لیکے آئے تھے کہ اتنے میں چند سیاسی پارٹی کے لوگ آئے کہنے لگے صاحب "خدمتِ خلق" میں آپ بھی حصہ ڈالیں، کھال ہم آ کے لے جائیں یا یونٹ آپ خود پہنچا دینگے؟ تمہیں تو پتا ہے میں ایک "شریف آدمی" ہوں لہذا میں نے خود کھال انہیں پہنچائی.
اکثر میں دیکھتا ہوں لوگ مجھ سے کسی مدد کا مطالبہ کرتے ہیں، کسی زخمی کو سڑک پر پڑا دیکھ لوں، یا کوئی اور پیچیدہ مسئلہ ہو لیکن میں انکی مدد سے قاصر ہوتا ہوں... تمہیں تو پتا ہے میں ایک "شریف آدمی" ہوں ..
(ابن سیّد)

ہماری جنگ؟


اسکا سینہ فخر سے پھلا ہوا تھا آنکھوں میں آنسو مگر دل طمانیت سے لبریز تھے، اور کیوں نہ ہوتے اعزاز ہی ایسا تھا اسکا بیٹا شہید ہوا تھا ،ھمیشہ کی زندگی پاگیا تھا. مگر اسے کیا فکر اِس دن کے لئے تو اس نے پالا تھا ان ہی خطوط پر تو اسکی تربیت کی تھی. وہ بھادر تھا! ہزاروں فٹ بلند پہاڑوں کو پار کرکے کشمیر کی وادیوں میں گم ہوا اس نے دشمن آرمی کے خلاف کاروائیاں کر کے ان کی نیندیں اڑا دیں تھی.
مگر کچھ عرصہ گزرتا ہے ٹی وی پر "میرے عزیز ہم وطنوں" کی آواز گونجتی ہے، اسکے گھر پر ریڈ پڑتی ہے اسکے باپ اور بھائی سے پوچھا جاتا ہے کہ اور کتنے دھشت گردوں کو اس نے تربیت دی ہے، یہ پوچھنے والے اسکے ملک کے ہیں اسکے اپنے، آج تو وہ ڈی ایس پی بھی غائب ھے جو اسکے بیٹے کی شھادت پر مٹھائی لیکے آیا تھا. دشمن ملک میں تو آتنک وادی ہونا انکا فخر تھا مگر اپنے ملک میں اس خطاب کا مِلنا انکے لئے بہت بڑا صدمہ تھا.
وقت گزرتا ہے ٹی وی پر آنے والے نغمے "اے دنیا کے منصفوں.." کی صدا دھیمی ہوتی ہے اور ماضی میں گم ہوجاتی ہے..
آج وہ باپ بھی گُم ھے اور بھائی بھی نہ جانے کدھر ہیں، سنا ہے کچھ دن پہلے اسکی ماں اپنے شوہر اور بیٹوں کی تصاویر لئے گمشدہ افراد کے کیمپ میں بیٹھی دِکھی تھی...
(ابن سیّد)

Thursday, October 3, 2013

Employee Motivation through Communication :)

Most of the people think that employee motivation is necessary for a better working environment, but they must think about the other way, "a better environment will make a motivated employee", think about the place where you spent a comparably large amount of our time which is your workplace your office for at least 9 hours to 10 12 14 hours, in that case how you will like that place to be? If the environment is not good you will not be motivated with motivational speeches or even increase in salary will not bring results.

The lesser will be the workplace restrictions the better will be the motivation, if a person spending 10 hours in office he will need space to speak, to laugh, to use mobile, to even play games on computer, it is necessary to keep him motivated and make him less stressful. But if you will put restriction on every thing they are doing they will be annoyed with it and start looking for new jobs where they can spent their time as they wish. Playing a game for a few minutes on the computer will not harm the business, but a less motivated employee will!

And if you are a boss and you are running a whole department, it is better to stay cheerful with your employees and team members rather than frowning every time you meet them. They will work better for you.

Make a personal connection with your team members, rather than keeping the boss-subordinate relation. A personal connection is however sometimes make things harder because its a two way relationship, but if you keep a slight bossy style, it will be beneficial for you and will help in motivation of the team.
Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...

Facebook Comments