ہمارا
مسئلہ یہ ہے کہ ہم دو پہاڑوں کے درمیان پِس رہے ہیں. اس میں سے ایک طرف طالبان ہیں
تو دوسری جانب ملکی اسٹیبلشمنٹ. ظلم؟ ظلم تو دونوں جانب سے ہی ہے، میانہ روی، رواداری
دونوں جانب سے ہی غائب ہے. ایک جانب سے خوارج، خارجی، انڈین ایجنٹ اور تکفیری ہونے
کے الزام لگتے ہیں تو دوسری جانب سے مرتد، ناپاک اور امریکی پٹھو ہونے کا فتوی! جبکہ
دونوں ہی مسلمانی کا دعوی کرتے ہیں اور دوسرے کو کافر قرار دینے پر بضد ہیں. ایک جانب
سے خودکش حملے ہوتے ہیں تو بیگناہ مارے جائیں، دوسری جانب سے جیٹ طیّاروں سے بمباری
ہو تو بیگناہ اُدھر بھی مارے جائیں. اس کولیٹرل ڈیمیج کی فکر دونوں اطراف سے کسی کو
بھی نہیں، ہاں اپنی حمایت اور طاقت میں اضافہ کیلئے اس ڈیمیج کی اصطلاح کو استعمال
کرنا دونوں جانب کا پسندیدہ مشغلہ ہے. اس سب صورتحال میں جماعت اسلامی کا موقف اب تک
سب سے بہتر ہے اور وہ یہ ہے کہ: "نہ خودکش حملوں سے شریعت کا نفاذ ہوسکتا ہے اور
نہ ہی جیٹ طیاروں کی بمباری سے آئین کا نفاذ۔
آگ
بھڑک جائے تو پھر سب کے مکان جلتے ہیں پھر آگ نہیں دیکھتی کہ کدھر کی ہَوا ہے. دونوں
اطراف کے متشددین اپنی اپنی صفوں میں واپس جائیں اور ملک کی تقدیر کا فیصلہ اس ملک
کے باشعور عوام کو کرنے دیں. تمام جمہوری سیاسی جماعتیں بھی ملک میں جمہوری و مشاورتی
کلچر کے فروغ کیلئے اپنا کردار ادا کریں نہ کے آمریت کیلئے راہ ہموار کرنے کی سازشوں
کا حصہ بنیں. اس ملک میں امن کیلئے کام کریں ورنہ بعید نہیں کے اللہ کی "ضربِ
کاری" پڑے تو گیہوں کیساتھ گھن بھی پِس جائیں۔
ابنِ
سیّد
No comments:
Post a Comment