Thursday, December 18, 2014

سانحہ پشاور اور ہمارا مجموعی رویہ


جب یہ سانحہ ہوا، پوری قوم کا دل غم سے لبریز ہوا، ہمارے دل زخمی تھے
ایسے میں جماعت اسلامی سامنے آئی،
سب سے پہلے جماعت کے رضاکاروں نے جائے وقوع پر پہنچ کر امداد شروع کی
الخدمت کے مرکز میں ہنگامی صورتحال تھی
الخدمت ایمبولینسیں روانہ ہوئیں
رضاکاروں نے شہداء کے کفن دفن جنازوں کا اہتمام کیا
امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق ہسپتال پہنچے
جماعت کے لیڈران کی واقعہ کی سخت الفاظ میں مذمت آئی
سراج الحق، لیاقت بلوچ، منور حسن، اور دیگر نے اس سانحہ کی سخت الفاظ میں مذمت کی، اور سراج صاحب نے کہا کہ دہشتگرد یاد رکھیں قیامت کے روز یہ معصوم بچے اللہ کے ہاں فریاد کریں گےاور دہشتگرد ی کی یہ کارروائی اللہ کے غیظ وغضب کو بھڑکانے کا سبب بنے گی
اُس ہی شام جماعت اسلامی، جمعیت طلبہ، پاسبان وغیرہ کے افراد کراچی پریس کلب پر پہنچے اور اپنے غم کا اظہار کیا
ادارہ نور حق اور منصورہ میں اگلے دن عصر کی نماز کے بعد غائبانہ نماز جنازہ پڑھی گئی، تمام شہروں میں اجتماعات میں دعا کی گئی اور فاتحہ خوانی کا انعقاد ہوا
سراج الحق اور دیگر قائدین کئی بچوں کی نماز جنازہ میں شریک ہوئے، کئی کے جنازوں کی امامت کی، کندھا دیا، لحد تک گئے
اس سانحہ پر ہمارا دل دُکھی ہے، دل غم سے لبریز ہیں
اور اِن تمام کاوشیں بدلے میں کچھ پانے کیلئے نہیں، نہ ہی کچھ چاہئے، نہ مانگتے ہیں، صرف آخرت کے اجر کی طلب
اور پھر بھی ہمارے خلاف چند متعصب افراد سوشل میڈیا پر متحرک، ہمیں دہشت گردوں کا حامی، ساتھی، مددگار بنانے پر تُلے ہیں، طرح طرح کی تصاویر، سراج صاحب کی تصاویر ایڈٹ کرکے، منور صاحب کے نام سے جھوٹے بیانات پھیلائے جارہے ہیں، جماعت پر پابندی کے مطالبات کئے جارہے ہیں، مخالفت در مخالفت، مسلکی تعصب کی انتہا دِکھائی جارہی ہے (گو کہ جماعت مسلکی جماعت نہیں)، ان سب افراد کو میرا یہ پیغام ہے
جماعت اسلامی ایک اسلامی شورائی جمہوری پُر امن جماعت ہے، جماعت نے اس سے بھی بُرے حالات میں کام کیا ہے، جماعت پر کئی آمِروں نے پابندی بھی لگائی، ہمارے منتخب ارکانِ اسمبلیوں کو شہید کیا، پھر بھی یہ وہ جماعت ہے کہ اپنے مسلمان بھائیوں کے خلاف نہ کھڑئ ہوئی نہ ہوگی اور نہ ہی ہم اس طرح کے کسی فیصلے کی حمایت کرتے ہیں، لہذا ان تمام متعصب افراد کے مطالبات و اعتراضات کو ہم ردی کی ٹوکری کی نذر کرتے ہوئے انہیں پیغام دیتے ہیں۔۔۔
آسمان کا تھوکا اپنے ہی منہ پر آتا ہے اور ۔۔۔
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا!!! انشاءاللہ
ابنِ سیّد

Tuesday, December 2, 2014

اور قلم ٹوٹ گیا!

اور قلم ٹوٹ گیا! 
(تحریر : اِبنِ سیّد)

"مگر ماں، یہ میرا شوق ہے" اس نے مچلتے ہوئے کہا، "یہ کیسا شوق ہے، نہ کسی سے مِلنا نہ جُلنا، نہ کھانے کا ہوش نے پینے کا، نہ پہننے اوڑھنے کا، میں تمہیں اپنی زندگی کیساتھ یہ کھلواڑ نہیں کرنے دوں گی" ۔۔ "مگر ماں! میں لکھنا چھوڑ نہیں سکتا، یہی تو ایک ایسا کام ہے جو میں بچپن سے کرتا آ رہا ہوں، میرا شوق میرا جنون، میری سب یادیں اس ہی شوق سے وابستہ ہیں" ۔۔۔۔ "بس!!! میں نے کہہ دیا تو کہہ دیا! "
"کیا تم نے کبھی سوچا؟ کہ کیسے گزارو گے ساری زندگی؟ کماؤ کے کدھر سے کھاؤ گے کدھر سے، تم اکیلے نہیں کئی اور جانیں تمہارے ساتھ جڑی ہیں، کون اٹھائے گا ان کا خرچ؟ تمہارے لکھنے کا کیا فائدہ؟"۔۔۔۔۔۔۔۔
"لوگ پڑھتے ہیں مجھے، لوگ میری باتوں کو سمجھتے ہیں، میرا ہر لکھا ہوا لفظ ان کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے، میں یہ صرف اپنے لئے نہیں، ان سب کیلئے کررہا ہوں، جو میرے لفظوں کیساتھ جڑے ہیں، جو میری بات سمجھتے ہیں، میں ان کے جذبات کا احترام کرتا ہوں، میں یہ نہیں چھوڑ سکتا، پلیــز سمجھا کریں۔۔۔"۔۔۔۔۔۔۔۔
"بس اب تمہیں ایک انتخاب کرنا پڑیگا، یا تو اپنی ماں کی بات مان لو اور لکھنا چھوڑ کر کوئی ڈھنگ کا کام کرو، یا پھر میرا تم سے کوئی تعلق نہ ہوگا، میں بھول جاؤنگی کوئی بیٹا بھی تھا میرا"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ کیسے ناراض کرسکتا تھا اپنی ماں کو، اس رات وہ بہت رویا، باہر موسلا دھار برسات ہوتی رہی، گرج چمک، کان پڑی آواز بھی مشکل سے سنائی دیتی، اور پھر جب طوفان تھما، سورج نکلا۔۔۔۔ نہ جانے کیوں اُس کی ماں بےقرار سی ہوکر بیٹے کے پاس جا پہنچی،
چہرے پر وہی مٹھاس لئے، وہ اس کا ننھا منا سا لعل لگ رہا تھا، اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے وہ اچانک چونک پڑی۔۔۔
پاس ہی اس کا قلم ٹوٹا پڑا تھا، اس کی آنکھوں میں خوف اُتر آیا، ٹوٹے ہوئے قلم سے نکلا ہوا لہو، جو نہ جانے کب سے بہتا ہوا اب جم کر کالا پڑ چکا تھا۔۔

ابن سید

Image from here
Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...

Facebook Comments