(تحریر : اِبنِ سیّد)
"مگر
ماں، یہ میرا شوق ہے" اس نے مچلتے ہوئے کہا، "یہ کیسا شوق ہے، نہ کسی سے
مِلنا نہ جُلنا، نہ کھانے کا ہوش نے پینے کا، نہ پہننے اوڑھنے کا، میں تمہیں اپنی زندگی
کیساتھ یہ کھلواڑ نہیں کرنے دوں گی" ۔۔ "مگر ماں! میں لکھنا چھوڑ نہیں سکتا،
یہی تو ایک ایسا کام ہے جو میں بچپن سے کرتا آ رہا ہوں، میرا شوق میرا جنون، میری سب
یادیں اس ہی شوق سے وابستہ ہیں" ۔۔۔۔ "بس!!! میں نے کہہ دیا تو کہہ دیا! "
"کیا
تم نے کبھی سوچا؟ کہ کیسے گزارو گے ساری زندگی؟ کماؤ کے کدھر سے کھاؤ گے کدھر سے، تم
اکیلے نہیں کئی اور جانیں تمہارے ساتھ جڑی ہیں، کون اٹھائے گا ان کا خرچ؟ تمہارے لکھنے
کا کیا فائدہ؟"۔۔۔۔۔۔۔۔
"لوگ
پڑھتے ہیں مجھے، لوگ میری باتوں کو سمجھتے ہیں، میرا ہر لکھا ہوا لفظ ان کو سوچنے پر
مجبور کرتا ہے، میں یہ صرف اپنے لئے نہیں، ان سب کیلئے کررہا ہوں، جو میرے لفظوں کیساتھ
جڑے ہیں، جو میری بات سمجھتے ہیں، میں ان کے جذبات کا احترام کرتا ہوں، میں یہ نہیں
چھوڑ سکتا، پلیــز
سمجھا کریں۔۔۔"۔۔۔۔۔۔۔۔
"بس
اب تمہیں ایک انتخاب کرنا پڑیگا، یا تو اپنی ماں کی بات مان لو اور لکھنا چھوڑ کر کوئی
ڈھنگ کا کام کرو، یا پھر میرا تم سے کوئی تعلق نہ ہوگا، میں بھول جاؤنگی کوئی بیٹا
بھی تھا میرا"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ کیسے ناراض کرسکتا تھا اپنی ماں کو، اس رات وہ بہت رویا،
باہر موسلا دھار برسات ہوتی رہی، گرج چمک، کان پڑی آواز بھی مشکل سے سنائی دیتی، اور
پھر جب طوفان تھما، سورج نکلا۔۔۔۔ نہ جانے کیوں اُس کی ماں بےقرار سی ہوکر بیٹے کے
پاس جا پہنچی،
چہرے
پر وہی مٹھاس لئے، وہ اس کا ننھا منا سا لعل لگ رہا تھا، اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے
ہوئے وہ اچانک چونک پڑی۔۔۔
پاس
ہی اس کا قلم ٹوٹا پڑا تھا، اس کی آنکھوں میں خوف اُتر آیا، ٹوٹے ہوئے قلم سے نکلا
ہوا لہو، جو نہ جانے کب سے بہتا ہوا اب جم کر کالا پڑ چکا تھا۔۔
ابن
سید
Image from here
No comments:
Post a Comment