Monday, August 24, 2015

پروفیشنل گداگری اور حکومتی اقدامات


پروفیشنل گداگری  اور حکومتی اقدامات
(میرا یہ فیچر آپ جسارت سنڈے میگزین کی اگست 2015 کی اشاعت میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔ شکریہ)

(سید اویس مختار)

وہ اتوار کی شام تھی ہم کچھ مختلف این جی اوز کے نمائندگان اور سوشل ورکرز کراچی کے ایک معروف شاپنگ مال صائمہ مال کے فوڈ کورٹ میں جمع ہوئے، ہمارے جمع ہونے کا مقصد یہ تھا کہ نت نئے آئیڈیاز پر بات کی جائے ۔دورانِ گفتگو ہم نے اس پر بات کی کہ کس طرح جو افراد بھیک مانگتے ہیں چاہے وہ مانگنے کے عادی ہیں یا مستحق ہیں انہیں قومی دھارے میں شامل کیا جائے، ان سے بھیک کی عادت چھڑوا کر انہیں عزت دار پیشے دلائے جائیں تاکہ وہ ایک باعزت شہری کی حیثیت سے ملک و قوم کی خدمت کرسکیں۔ اس دوران ایک دوست کی فون کال آئی وہ اُٹھا اور دور جاکر بات کرنے لگا کہ ایک ننھی منی سی بچی جس کی عمر تقریباً  سات آٹھ سال ہوگی اس کے پاس آئی اور اس کو اپنی مجبوری بیان کرنے لگی اس نےجیب سےایک نوٹ نکال کر اس کے حوالے کیا اور دوبارہ فون پر مصروف ہوگیا، کچھ دیر بعد ہمارے پاس واپس آیا اور کہنے لگا کہ ایک چیز نوٹ کرو، ہمارے پوچھنے پر بتانے لگا کہ اپنے اطراف میں ان دو ننھی منی بچیوں کی حرکات دیکھتے رہو، ہم نے دیکھنا شروع کیا، اور ان بچیوں کی پھُرتی دیکھ کر حیران رہ گئے ایک لمحہ وہ ایک ٹیبل پر دکھائی دیتیں تو دوسرے ہی لمحے وہ دوسری ٹیبل پر کسی کو اپنی مجبوری بیان کررہی ہوتی،غالباً دس سے پندرہ منٹ میں انہوں نے اندازاً پندرہ سو روپے جمع کرلئے تھے،ہم نے اندازہ لگایا کہ اگر پندرہ منٹ میں پندرہ سو روپے تو ایک گھنٹے میں تو چھے سات ہزار روپے اور اس ہی انداز میں رات گئے بارہ بجے تک محنت لگن سے کام کیا جائے تو صرف چھے گھنٹوں کی کمائی مبلغ چھتیس ہزار  بنتی ہے۔ ہم اپنی جگہوں سے اُٹھے اور چند لوگوں کے پاس جاکر سروے کیا جس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ وہ بچیاں ہر ٹیبل پر جاکر ایک ہی بات کرتیں کہ ہم نے کھانا نہیں کھایا اور ہمیں کھانے کے پیسے چاہئے کیوں کہ ایک شاپنگ مال کا فوڈ کورٹ تھا لہذا کھانے کی ضرورت بیان کرنا کسی کا بھی دل پسیجنے کیلئے کافی ہوتی ہے اور دھڑا دھڑ وہ اپنی جیبوں کے منہ ان کیلئے کھول رہے تھے۔ ابھی یہ صورتحال جاری ہی تھی کہ ایک بڑی لڑکی کی انٹری ہوئی جس کی عمر غالباً ستائیس سے تیس سال کی ہوگی اور دونوں بچیاں اس کیساتھ جاکر ناصرف بیٹھ گئیں بلکہ اپنے کارناموں کا احوال بھی سُنانے لگیں ، بس یہی وقت تھا کہ ہمارے دوستوں کا پارہ ہائی ہوگیا اور ہم اپنی ٹیبل سے اُٹھ کر ان کے پاس جا پہنچے ، وہاں جا کر ہم نے کہا کہ یہ کیا ہورہا ہے جس پر پہلے تو انہوں نے صاف انکار کیا کہ ہم نے کسی سے کوئی پیسے نہیں لئے لیکن ہمارے زور دینے پر اور مال کے سیکیورٹی گارڈ کو بُلانے پر اپنی سیٹ سے اُٹھ کر باہر کی جانب لپکیں لیکن ہمارے پیسے حرام کے نہیں تھے لہذا ہم نے اس سے اپنے پیسوں کا تقاضا جاری رکھا۔ اس دوران مال انتظامیہ بیچ میں آگئی اور اس نے گروپ لیڈر ، دونوں بچیوں اور ہمارے دو نمائندوں کو اپنے آفس میں بُلا لیا۔ آفس میں پہنچ کر حیرت انگیز طور پر انتظامیہ اور گروپ لیڈر کے دوران بےتکلف گفتگو جاری رہی۔اس دوران انتظامیہ نے واجبی سی سرزنش کے بعد کہا کہ اِن صاحب کے پیسے اِن کو واپس کریں  اور سیکیورٹی گارڈز سے کہا کہ ان کو نیچے چنچی تک چھوڑ آئیں ہمارے نمائندے بھی ان کیساتھ نیچے تک گئے جہاں نام نہاد چنچی دراصل ایک برانڈ نیو کلٹس گاڑی تھی!

ہم نے اس تمام واقعہ کے حوالے سے جب مختلف افراد سے رائے لی تو بیشتر افراد کا کہنا یہ تھا کہ ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ مال انتظامیہ بےخبر ہو ، اس قسم کے تمام معاملات میں انتظامیہ براہ راست ملوث ہوتی ہےجس کے اشیرباد کے بغیر یہ سب ہونا تقریباً ناممکن ہے، جو بھی پیسہ جمع ہوتا ہے اس کا کچھ حصہ مال انتظامیہ کو بھی جاتا ہے جس کی وجہ سے اس طرح کے گداگر گروپوں کو انتظامیہ مال میں کھُلی چھوٹ دیتی ہے۔ اس طرح کے اسپاٹ جہاں زیادہ بھیک ملنے اور زیادہ آمدنی موقع ہو اس کے باقائدہ ٹھیکےدئے جاتے ہیں ۔

جب ہم نے لوگو ں سے دریافت کیا کہ کیا حکومت اس سلسلے میں اقدامات کرسکتی ہے تو لوگوں نے کہا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس حوالے سے پارلیمنٹ کے ذریعہ کوئی قانون پاس ہو تاکہ پیشہ ور گداگری کا مکمل سد باب کیا جاسکے۔مگر اس کے ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ یہ ہوتا بظاہر ممکن نظر نہیں آتا کیوں کہ جو گروپ اس گداگری کے گھناؤنے کام میں ملوث ہیں ان کے ہاتھ مضبوط کرنے والے یہی لوگ ہیں جنہیں ہم لوگ منتخب کرکے پارلیمنٹ بھیجتے ہیں۔ایک صاحب نے اس بات کا بھی خیال ظاہر کیا کہ ، اس کاروبار میں بڑے بڑے نام شامل ہیں جن میں انڈر ورلڈ اور سیاست دان بھی ملوث ہیں، زیادہ کمائی والے بعض علاقوں کی باقائدہ خرید و فروخت ہوتی ہے۔یہ افراد جن جگہوں پر اپنی ڈیوٹیاں سرانجام دیتے ہیں ان کے سرپرست ان کی مکمل نگرانی کرتے رہتے ہیں جو کہ کسی بھی مسئلہ کی صورت میں فوراً ردعمل ظاہر کرتے ہیں اور مار پیٹ سے بھی گریز نہیں کرتے، علاقہ پولیس بھی ان کے ساتھ ملی ہوتی ہے لہذا ان معاملات میں پولیس سے شکایت بھی مؤثر ثابت نہیں ہوتی۔

بعض افراد کا کہنا تھا کہ ہم نے مال میں جو کچھ کیا اس کا کوئی خاطر خوا ہ نتیجہ برآمد نہیں ہوا اس لئے ہمیں اس معاملہ میں ہاتھ ڈالنا نہیں چاہئے تھا اور اگر معاملہ شروع کیا تھا تو اس کو مکمل کرنا چاہئے تھا۔ان کا کہنا تھا کہ مال میں موجود لوگوں کی مدد سے پولیس کو اس سارے معاملے میں شامل کیا جاتا تاکہ اس واقعہ کی مکمل تحقیقات ہوتیں اور ذمہ داران کا تعین ہوپاتا تاکہ ان کے خلاف کوئی مؤثر کاروائی کی جاسکتی ، مگر چونکہ یہ سب نہ ہوسکا لہذا ان کے نزدیک یہ سب بےسود رہا۔

جہاں کچھ لوگوں نے اس جانب بات کی وہیں کچھ افراد نے بالکل ہی نئے پیرائے پر اظہار خیال کیا، ان کا کہنا تھا کہ جب حکمران ہی دوسرے ممالک کے آگے بھیک مانگیں گے تو آپ کیسے اس کلچر کو نیچے اترنے سے روک سکیں گے۔ ایک دوست نے ان الفاظ میں اظہار خیال کیا کہ، " میں نے تو حرم پاک کے عقب میں روڈ پر بھی اپنی ہی قوم کے افراد کو بھیک مانگتے دیکھا اور سارا وقت اس بات کی حسرت ہی رہی کے کسی اور قومیت کے بھکاری کی شکل دکھائی دے، اللہ ہی اس قوم کی بھوک دور کرے ، نہ تو اس کے حکمران کھا کھا کر سیر ہوئے اور نہ ہی یہ قوم"، ایک اورصاحب نے بھی کچھ ایسا ہی کہا کہ جہاں تمام سفیر اپنے اپنے درجے پر دوسرے ممالک سے بھیک مانگتے ہیں وہاں ایک انفراد ی شخص کے بھیک مانگنے پر تعجب نہیں ہونا چاہئے۔ ایک اور صاحب نے کہا کہ "وہ قوم جو خود آئی ایم ایف کے قرضے اور ڈبلیو ایچ او کے صدقے پر چلتی ہو ان کو اتنی راست گوئی زیب نہیں دیتی"۔

کوئی بھی اٹھایا گیا انفرادی قدم اس وقت تک مؤثر ثابت نہیں ہوسکتا جب تک اس کو قانون کی شکل دے کر حکومت کی جناب سے نافظ نہ کیا جائے ، جیسے شادیوں میں خرچے کم کرنے کی نصیحت کی جاتی رہی لیکن جیسے ہی حکومت کی جانب سے ون ڈش کا قانون پاس ہوا سب راہ راست پر آگئے تھے بالکل اس ہی طرح شادی ہالوں کی رات بارہ بجے کے بعد بندش کا معاملہ ہے، بالکل ایسے ہی جب حکومت اس گداگری کے مسئلے کو سنجیدگی سے لے گی اور اس کو ایک قانون کی شکل دے کر اس کو بزور ِقوت نافذ کرے گی اور ذمہ داران کا تعین کرکے اس پر ایکشن لے گی تو بہت ممکن ہے کہ یہ قصہ کچھ ہی عرصہ میں ماضی کا حصہ بن جائے۔

(سید اویس مختار)

No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...

Facebook Comments