Wednesday, October 22, 2014

تین خبریں، تین کہانیاں


تین خبریں، تین کہانیاں
تحریر: ابنِ سید

آج ہر طرف روشنی ہے، ہر طرف خوشیاں، آج ہمارا قرآن مکمل ہوا، آج اس ہی خوشی میں تقریب ہے
اس تقریب میں کافی لوگ شریک ہیں، ہمارے استاد، اور وہ تمام بچے، جنہوں نے قرآن حفظ کیا
میں بہت خوش ہوں، اور میں ہی کیا میرے خاندان کے سارے افراد خوش ہیں
میرے والد اس تقریب میں شریک نہیں، وہ اس وقت گاڑی پر ہونگے،ٹرک جو چلاتے ہیں وہ، سارا ملک گھومتے ہیں
میں چشم تصور سے اپنی امّی کو وہ سند دکھاتا ہوں جو مجھے مدرسہ دے آج ملے گی، ان کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو دیکھتا ہوں
مگر مجھے کیا خبرتھی کہ۔۔۔

امی یہ ہر طرف اندھیرا کیوں ہے؟ بیٹا کرفیو لگا ہے
امی کیا ہم باہر نہیں جاسکتے؟ نہیں بیٹا!
امی مجھے بھوک لگی ہے، نہیں بیٹا ہم آگ نہیں جلا سکتے، نہ ہی کھانا پکا سکتے ہیں۔
امی۔۔۔۔ میرا بھوک سے برا حال ہو رہا ہے
امی ہم بہت دیر سے بھوکے ہیں، امی کھانا کھلا دیں
اچھا بیٹا، میں آگ جلاتی ہوں، یہ خطرہ مول لینا ہی پڑیگا، میں تمہاری بھوک کے آگے بےبس ہوں!
خبر: طالبان کے کئی ٹھکانوں فضائی حملے ، کئی شدت پسند کمانڈر ہلاک

ماں! کیا کریں ہم تو اس علاقے میں پھنس ہی گئے، ہمیں واپس گھر جانا ہوگا
بیٹا چلتے ہیں ذرا رک کر ابھی پولیس ہر طرف گھوم رہی ہوگی، ہمارے پاس پاسپورٹ تو ہیں لیکن یہ کمبخت رشوت لئے بنا کہاں چھوڑتے ہیں
چلو بیٹا نکل چلو! ماں! مجھے لگتا ہے کہ انہوں نے ہمیں دیکھ لیا، ماں وہ دیکھو ایک رینجرز کی چوکی، چلو اُن سے چل کر پولیس کی شکایت کرتے ہیں وہ ہی ان کو ٹھیک کریں گے!
ماں انہوں نے ہمیں یہاں روک کیوں لیا، ماں کیا ہم خطرے میں ہیں؟ مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے ماں۔۔۔
ماں یہ فائرنگ کیوں کررہے ہیں، ماں کہیں ہمیں لگ نہ جائے، بہت خون بہہ رہا ہے ماں۔۔۔۔ اللہ رحم


ابنِ سید

Thursday, October 9, 2014

ردِ عمل

Image from here
ایئر کنڈیشن کی ٹھنڈک سے پورا کانفرنس روم ڈیپ فریزر جیسا ہورہا تھا، ٹیبل کے گرد آرام دہ کرسیوں پر اَکڑے تھری پیس سوٹ پہنے ایگزیکٹیوز ہمہ تن گوش تھے، جبکہ دوسری جانب وہ اپنی رَو میں سب سے مخاطب تھا، اس کا انداز دلفریب اور دلائل مضبوط تھے، اس وقت وہ ملک کے مشرقی حصے کی صورتحال پر اظہار ِخیال کررہا تھا، سب دم سادھے اس کی باتیں سن رہے تھے، سوالات کی ممانعت نہ تھی پھر بھی بیچ میں اِکا دکا سا محتاط سا ہاتھ اٹھتا اور وہ اس پر سوال کرنے والے کے سوال کا مدلل جواب دیتا جو کہ ممکنہ اگلے کئی سوالوں کا بھی جواب ہوتا ، اس کی آواز میٹنگ روم کے آخر تک پہنچ رہی تھی،      "سر اِس خطہ میں ہمارے اندازے کے مطابق ایک لاکھ کے قریب دہشت گرد چھپے ہیں ، یہ ہمارے ملک کے لئے ہندوستان کے بعد دوسرا بہت بڑا خطرہ ہیں، بلکہ میں تو اپنے پیش روؤں سے ایک قدم آگے بڑھ کر یہ کہنا چاہوں گا کہ اس وقت پاکستان کو سب سے بڑا خطرہ یہی ہے، بحیثیت ایک اسٹریٹیجیک دفاعی تجزیہ کار اپنی گورنمنٹ اور سیکیورٹی اداروں کو میرا یہی مشورہ ہوگا کہ تمام ملٹری اس علاقہ میں لگا دی جائے۔۔۔" مزید کچھ دیر تک اس کی آواز گونجتی رہی، ۔۔۔"ہم ڈرون حملوں سے بھی بہت مدد حاصل کرسکتے ہیں!۔۔" اتنا کہہ کر وہ مسکرانے لگا، "لیکن سر!۔۔۔۔" ایک ہاتھ سوال کیلئے بلند ہوا۔۔۔  "جناب! کیا اس صورت میں سویلین اموات جنہیں ہم  کولیٹرل ڈیمیج کے نام سے پکارتے ہیں ، کیا  ان کی تعداد نہیں بڑھ جائے گی؟ اور کیا ہم عرصہ دراز سے اس کے نتائج نہیں بھگت رہے؟"۔۔۔ "اچھا سوال ہے!"۔۔ وہ گویا ہوا،"دیکھیں ! قومیں قربانی دیتی ہیں ، جب ملک حالت ِجنگ میں ہو، تو دو طرفہ حملوں سے کولیٹرل ڈیمیج اور سویلین  کی اموات ناگزیرہیں، لہذا میں اس سلسلے میں اتنا ہی کہوں گا جہاں سو دہشتگرد مارے جائیں اور وہاں بیس سویلین اموات ہوں تو یہ گھاٹے کا سودا نہیں ہے" ۔۔۔۔۔۔ "ایک منٹ سر!" وہ بولنے ہی لگا تھا کہ کسی نے اس کی بات کاٹ دی، "وہ پیچھے دیکھے بغیر گویا ہوا،  "ہمیں اس پریزنٹیشن کو مکمل کرنا ہے،لہذا مختصر سوال کریں۔۔"
"جی سر لیکن میری بات مکمل ہوجائے"، یہ کوئی اور نہیں بلکہ چائے سرو کرنے والا بوڑھا تھا، جو اس میٹنگ کے شرکاء کو چائے دینے کیلئے کمرے میں آیا تھا،  "سر جی! ان ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر، نرم کرسیوں کے درمیان، یہ سو پر بیس اموات کی منظوری دینا آسان ہے۔۔۔سر ہمارے کچے گھروں میں تپتی دھوپ میں آ کر دیکھو، سر جس سویلین اموات کی آپ بات کررہے ہیں وہ میرا پورا خاندان تھا، میری بیوی ،معصوم بچّے اور میرا بوڑھا باپ، سر جس سویلین اموات کی آپ بات کررہے ہیں وہ ہمارے جرگہ کہ سرکردہ افراد تھےیہ وہ بزرگ تھے جن کی عزت پورا علاقہ کرتا تھا، ہمارے علاقہ کے نمائندگان  ، سر جس سویلین اموات کی آپ اجازت دے رہے ہیں وہ ہمارے مدرسے میں پڑھنے والے معصوم طلباء اور ان کے اساتذہ تھے۔۔۔ سر !ہم موت سے نہیں ڈرتے ، وہ تو برحق ہے ایک دن آجائے گی، اور جو مرگئے اُن کی اُس ہی دن لکھی تھی، لیکن سر !مرنے کے بعد ہم یہ برداشت نہیں کرسکتے کہ ہم پر دہشتگرد کا لیبل چسپاں کیا جائے، ہمیں غیر ملکی کہا جائے، ہمیں ہندوستان کے ایجنٹ ہونے کا تمغہ ملے ، سر ۔۔۔ موت برحق ہے، اور جیسے مجھے اپنی موت کا یقین ہے، ویسے آپ سب کی موت کا بھی یقین ہے، اور جیسے اِدھر ناانصافی پر مایوس ہوں، میں آخرت میں مکمل انصاف پر پُر امید ہوں۔۔۔!!"
اتنا کہہ کر وہ اپنی ٹرے اٹھا کر پلٹ گیا، روم سے باہر  نکلتے ہوئے اس نے ایک بار پلٹ کر دیکھا، سب کے سر جھُکے ہوئے تھے۔کسی میں سوال کی ہمت نہ تھی، نہ جواب کا حوصلہ ، شاید ۔۔۔۔سب کو اپنے سوالوں کا جواب مِل چکا تھا! یا پھر وہ سب کے ذہن میں ہزاروں کُلبلاتے سوال چھوڑ گیا تھا!
ابن ِسید

Friday, October 3, 2014

گل پری

پیشگی معذرت کیساتھ۔۔۔۔ بعض لوگوں کے نام سے ایسا کیوں ظاہر ہوتا ہے جیسے کہ صنف نازک کے نام ہیں، مثال کے طور پر ہمارے آفس میں ایک صاحب ہیں جن کا نام نور ہے، محمد نور، اب جب میں کبھی ان کے بارے میں بات کروں تو جملہ کچھ یوں ہوگا "یار میں نے نور سے بات کرلی ہے"۔۔ اب آفس میں تو ٹھیک ہے سب جانتے ہیں کون ہیں وہ،لیکن اگر میں محلے میں یا دوستوں میں اس طرح کا جملہ کہتا پاؤں تو آگے سے کوئی عامر لیاوت والے اسٹائل میں کہے گا۔۔۔ اوہوں! نور سے کیا باتیں ہورہی ہیں۔۔ اب انہیں کون بتائے کہ نور ایک مکمل باریش انسان ہے
اس ہی طرح ہمارے اسکول میں ایک ساتھی ہوتے تھے، "گل"۔۔۔ جب کہ ایک خاتون بھی ہوتی تھیں "گل"۔۔۔۔ اب دوستوں میں بات کرتے کہ گل نے یہ کہا تو آگے سے سوال آتا۔۔ گل سے کب سے بات چیت ہوگئی تمہاری۔۔۔ اب سمجھاؤ انہیں یہ والا نہیں ۔۔ وہ "مرد" والا گل ۔۔ تو پھر سمجھ آتی۔۔ ؛)
یہاں تک تو پھر بھی ٹھیک ہے، اتنا تو بندہ سہہ لے، لیکن ہمارے اسکول میں ہمارا ایک دوست تھا جس کا نام تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔"انعم"۔۔۔۔۔۔۔ اب بولیں۔۔۔
ویسے جس طرح آج کل نت نئے فیشن آرہے ہیں، مردوں کے کرتا شلوار پر بھی ڈوپٹہ لازمی جز بنتا جارہا ہے، عجب نہیں کل کو وہ ڈوپٹے کرتے والے افراد باپ بنیں تو اپنے بچوں کے نام بھی کہیں نازکی سے متاثر ہوکر نہ رکھ دیں۔۔۔۔
اس بات پر گل نوخیز اختر کی ایک تحریر یاد آگئی ۔۔۔ خط و کتابت میں ان کی کسی سے قلمی دوستی ہوگئی، ایک دن ان کے دوست نے ان کو لکھا، "تم بہت نخرے کرتی ہو" جس پر ان کا دماغ کھٹکا اور انہوں نے اپنی ایک تصویر بمعہ ریش بھیج دی۔۔۔ جس پر انکے دوست کا دکھ بھرا خط موصول ہوا، کہنے لکھے "گل تیرا ککھ نہ رہے! میں نے تو ماں کو بھی راضی کرلیا تھا"
ابن سید

نوٹ: جن لوگوں کے اس سے ملتے جلتے نام ہیں ان سے معذرت تحریر بس ذرا موضوع تبدیل کرنے کیلئے لکھی گئی ہے۔
Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...

Facebook Comments