Friday, October 3, 2014

گل پری

پیشگی معذرت کیساتھ۔۔۔۔ بعض لوگوں کے نام سے ایسا کیوں ظاہر ہوتا ہے جیسے کہ صنف نازک کے نام ہیں، مثال کے طور پر ہمارے آفس میں ایک صاحب ہیں جن کا نام نور ہے، محمد نور، اب جب میں کبھی ان کے بارے میں بات کروں تو جملہ کچھ یوں ہوگا "یار میں نے نور سے بات کرلی ہے"۔۔ اب آفس میں تو ٹھیک ہے سب جانتے ہیں کون ہیں وہ،لیکن اگر میں محلے میں یا دوستوں میں اس طرح کا جملہ کہتا پاؤں تو آگے سے کوئی عامر لیاوت والے اسٹائل میں کہے گا۔۔۔ اوہوں! نور سے کیا باتیں ہورہی ہیں۔۔ اب انہیں کون بتائے کہ نور ایک مکمل باریش انسان ہے
اس ہی طرح ہمارے اسکول میں ایک ساتھی ہوتے تھے، "گل"۔۔۔ جب کہ ایک خاتون بھی ہوتی تھیں "گل"۔۔۔۔ اب دوستوں میں بات کرتے کہ گل نے یہ کہا تو آگے سے سوال آتا۔۔ گل سے کب سے بات چیت ہوگئی تمہاری۔۔۔ اب سمجھاؤ انہیں یہ والا نہیں ۔۔ وہ "مرد" والا گل ۔۔ تو پھر سمجھ آتی۔۔ ؛)
یہاں تک تو پھر بھی ٹھیک ہے، اتنا تو بندہ سہہ لے، لیکن ہمارے اسکول میں ہمارا ایک دوست تھا جس کا نام تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔"انعم"۔۔۔۔۔۔۔ اب بولیں۔۔۔
ویسے جس طرح آج کل نت نئے فیشن آرہے ہیں، مردوں کے کرتا شلوار پر بھی ڈوپٹہ لازمی جز بنتا جارہا ہے، عجب نہیں کل کو وہ ڈوپٹے کرتے والے افراد باپ بنیں تو اپنے بچوں کے نام بھی کہیں نازکی سے متاثر ہوکر نہ رکھ دیں۔۔۔۔
اس بات پر گل نوخیز اختر کی ایک تحریر یاد آگئی ۔۔۔ خط و کتابت میں ان کی کسی سے قلمی دوستی ہوگئی، ایک دن ان کے دوست نے ان کو لکھا، "تم بہت نخرے کرتی ہو" جس پر ان کا دماغ کھٹکا اور انہوں نے اپنی ایک تصویر بمعہ ریش بھیج دی۔۔۔ جس پر انکے دوست کا دکھ بھرا خط موصول ہوا، کہنے لکھے "گل تیرا ککھ نہ رہے! میں نے تو ماں کو بھی راضی کرلیا تھا"
ابن سید

نوٹ: جن لوگوں کے اس سے ملتے جلتے نام ہیں ان سے معذرت تحریر بس ذرا موضوع تبدیل کرنے کیلئے لکھی گئی ہے۔

No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...

Facebook Comments