Thursday, October 9, 2014

ردِ عمل

Image from here
ایئر کنڈیشن کی ٹھنڈک سے پورا کانفرنس روم ڈیپ فریزر جیسا ہورہا تھا، ٹیبل کے گرد آرام دہ کرسیوں پر اَکڑے تھری پیس سوٹ پہنے ایگزیکٹیوز ہمہ تن گوش تھے، جبکہ دوسری جانب وہ اپنی رَو میں سب سے مخاطب تھا، اس کا انداز دلفریب اور دلائل مضبوط تھے، اس وقت وہ ملک کے مشرقی حصے کی صورتحال پر اظہار ِخیال کررہا تھا، سب دم سادھے اس کی باتیں سن رہے تھے، سوالات کی ممانعت نہ تھی پھر بھی بیچ میں اِکا دکا سا محتاط سا ہاتھ اٹھتا اور وہ اس پر سوال کرنے والے کے سوال کا مدلل جواب دیتا جو کہ ممکنہ اگلے کئی سوالوں کا بھی جواب ہوتا ، اس کی آواز میٹنگ روم کے آخر تک پہنچ رہی تھی،      "سر اِس خطہ میں ہمارے اندازے کے مطابق ایک لاکھ کے قریب دہشت گرد چھپے ہیں ، یہ ہمارے ملک کے لئے ہندوستان کے بعد دوسرا بہت بڑا خطرہ ہیں، بلکہ میں تو اپنے پیش روؤں سے ایک قدم آگے بڑھ کر یہ کہنا چاہوں گا کہ اس وقت پاکستان کو سب سے بڑا خطرہ یہی ہے، بحیثیت ایک اسٹریٹیجیک دفاعی تجزیہ کار اپنی گورنمنٹ اور سیکیورٹی اداروں کو میرا یہی مشورہ ہوگا کہ تمام ملٹری اس علاقہ میں لگا دی جائے۔۔۔" مزید کچھ دیر تک اس کی آواز گونجتی رہی، ۔۔۔"ہم ڈرون حملوں سے بھی بہت مدد حاصل کرسکتے ہیں!۔۔" اتنا کہہ کر وہ مسکرانے لگا، "لیکن سر!۔۔۔۔" ایک ہاتھ سوال کیلئے بلند ہوا۔۔۔  "جناب! کیا اس صورت میں سویلین اموات جنہیں ہم  کولیٹرل ڈیمیج کے نام سے پکارتے ہیں ، کیا  ان کی تعداد نہیں بڑھ جائے گی؟ اور کیا ہم عرصہ دراز سے اس کے نتائج نہیں بھگت رہے؟"۔۔۔ "اچھا سوال ہے!"۔۔ وہ گویا ہوا،"دیکھیں ! قومیں قربانی دیتی ہیں ، جب ملک حالت ِجنگ میں ہو، تو دو طرفہ حملوں سے کولیٹرل ڈیمیج اور سویلین  کی اموات ناگزیرہیں، لہذا میں اس سلسلے میں اتنا ہی کہوں گا جہاں سو دہشتگرد مارے جائیں اور وہاں بیس سویلین اموات ہوں تو یہ گھاٹے کا سودا نہیں ہے" ۔۔۔۔۔۔ "ایک منٹ سر!" وہ بولنے ہی لگا تھا کہ کسی نے اس کی بات کاٹ دی، "وہ پیچھے دیکھے بغیر گویا ہوا،  "ہمیں اس پریزنٹیشن کو مکمل کرنا ہے،لہذا مختصر سوال کریں۔۔"
"جی سر لیکن میری بات مکمل ہوجائے"، یہ کوئی اور نہیں بلکہ چائے سرو کرنے والا بوڑھا تھا، جو اس میٹنگ کے شرکاء کو چائے دینے کیلئے کمرے میں آیا تھا،  "سر جی! ان ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر، نرم کرسیوں کے درمیان، یہ سو پر بیس اموات کی منظوری دینا آسان ہے۔۔۔سر ہمارے کچے گھروں میں تپتی دھوپ میں آ کر دیکھو، سر جس سویلین اموات کی آپ بات کررہے ہیں وہ میرا پورا خاندان تھا، میری بیوی ،معصوم بچّے اور میرا بوڑھا باپ، سر جس سویلین اموات کی آپ بات کررہے ہیں وہ ہمارے جرگہ کہ سرکردہ افراد تھےیہ وہ بزرگ تھے جن کی عزت پورا علاقہ کرتا تھا، ہمارے علاقہ کے نمائندگان  ، سر جس سویلین اموات کی آپ اجازت دے رہے ہیں وہ ہمارے مدرسے میں پڑھنے والے معصوم طلباء اور ان کے اساتذہ تھے۔۔۔ سر !ہم موت سے نہیں ڈرتے ، وہ تو برحق ہے ایک دن آجائے گی، اور جو مرگئے اُن کی اُس ہی دن لکھی تھی، لیکن سر !مرنے کے بعد ہم یہ برداشت نہیں کرسکتے کہ ہم پر دہشتگرد کا لیبل چسپاں کیا جائے، ہمیں غیر ملکی کہا جائے، ہمیں ہندوستان کے ایجنٹ ہونے کا تمغہ ملے ، سر ۔۔۔ موت برحق ہے، اور جیسے مجھے اپنی موت کا یقین ہے، ویسے آپ سب کی موت کا بھی یقین ہے، اور جیسے اِدھر ناانصافی پر مایوس ہوں، میں آخرت میں مکمل انصاف پر پُر امید ہوں۔۔۔!!"
اتنا کہہ کر وہ اپنی ٹرے اٹھا کر پلٹ گیا، روم سے باہر  نکلتے ہوئے اس نے ایک بار پلٹ کر دیکھا، سب کے سر جھُکے ہوئے تھے۔کسی میں سوال کی ہمت نہ تھی، نہ جواب کا حوصلہ ، شاید ۔۔۔۔سب کو اپنے سوالوں کا جواب مِل چکا تھا! یا پھر وہ سب کے ذہن میں ہزاروں کُلبلاتے سوال چھوڑ گیا تھا!
ابن ِسید

No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...

Facebook Comments