Wednesday, May 13, 2015

آنکھیں


آنکھیں (تحریر: ابنِ سیّد)

کچھ زیادہ خاص نہیں، اور نہ ہی اس دن کوئی خاص بات تھی، وہ گھر سے نکلا، وہی معمول کی تیاری، بال سنوارتا، ہاں مگر آج اس کی آنکھوں پر ایک کالا چشمہ چمک رہا تھا، چلتے چلتے اُسے ایسا لگا جیسے کوئی اس کا تعاقب کررہا ہے، مگر ۔۔۔ پھر وہ بےپرواہ سا ہوکر چلنے لگا۔۔ اپنی دھُن میں مگن ۔۔۔

بَس میں بیٹھتے ہی اس کو اپنے تعاقب کرنے والے کا پتا چل گیا۔۔۔ وہ نقاب سے جھانکتی ہوئی دو آنکھیں، ایک لمحہ۔۔ یا شاید اس سے بھی کم اُن کی نظریں ملیں اور ۔۔ ایک شرم و حیا کا پیکر۔۔ وہ دونوں ہی گھبرا کر اِدھر اُدھر دیکھنے لگے ۔۔ ان کے لئے بہت بڑآ جرم تھا یہ ۔۔

نہ جانے کیوں وہ زیرِ لب مسکرانے لگا، اس کا انداز ۔۔۔ اس کی ادا، سب کچھ جیسے اس لمحے میں بدل سی گئی تھی ۔۔ اپنا رُخ تبدیل کرکے اس جانب بیٹھنا جہاں سے اس کے سائیڈ پوز پر وہ آنکھیں دیکھتی رہیں ۔مگر پھر اُن آنکھوں کی تمازت سے گھبرا کر خود ہی پریشان ہو جانا۔۔۔ اس کا بالوں کو ایک بار سنوارنا۔ اور ۔۔۔ پھر بار بار سنوارنا۔۔ پھر کچھ سوچ کر بالوں کی جانب بڑھتا ہوا ہاتھ روک لینا۔۔

وہ بس سے اُترنے لگا تو جیسے اس کا مَن ہی نہ تھا، مگر اُترنا تو تھا۔۔ سو اتر گیا۔۔

شاید پھر کوئی دن ۔۔ یاپھر شاید کوئی لمحہ بھی ایسا نہ ہو کہ وہ آنکھیں اس کیساتھ نہ ہوں، وہ کالج کی جانب جاتا تو سارے راستے ایک نگران فرشتے کی مانند وہ آنکھیں اس کی جانب رہتی ، وہ چلتا تو وہ آنکھیں اس کا راستہ تک رہی ہوتیں، وہ کھانا کھاتا۔ مگر کتنا۔۔ بھوک تو جیسے کوسوں دور جاچکی تھی ۔۔۔

شاید وہ پہلا لمحہ ، جو شاید مکمل لمحہ بھی نہ تھا نے اُس کو اُن آنکھوں کا گرویدہ بنا لیا تھا، وہ بڑی بڑی جھیل آنکھیں اس کے ذہن میں ایک ایک آنکھوں پر لکھا شعر آتا جاتا، وہ سوچتا جیسے سارے شعراء نے اب تک آنکھوں پر جو کچھ لکھا شاید اُن ہی دو آنکھوں کیلئے وہ سب کچھ تھا۔۔

مگر۔۔۔ پھر ایک دن ۔۔ جیسے وہ آنکھیں اُس کا ساتھ چھوڑ گئیں، وہ بیچ سڑک پر کھڑا گھنٹوں چاروں جانب دیکھتا رہا، لوگ اس کو پاگل سمجھ کر ہنستے اور گزر جاتے، مگر اسے کسی کی کوئی پرواہ کہاں تھی، یا شاید وہ خود کو سچ میں پاگل سمجھ رہا تھا، وہ نہیں سمجھ پارہا تھا کہ ایسی کیا غلطی ہوئی کہ اس سے یہ سب کچھ چھِن گیا۔

آج بھی وہ ان آنکھوں کا متلاشی ہے، وہ راہ تک رہا ہے، شاید وہ آنکھیں اس سے مان جائیں، ہاں ان آنکھوں کو وہ اپنا بنا لیگا، ہمیشہ کیلئے، مگر وہ آج بھی سخت دھوپ میں اُن گھنی پلکوں کے سائے کا منتظر ہے۔۔ کہ شاید ۔۔۔ شاید ایک بار وہ لمحہ۔۔ یا شاید لمحہ سے بھی کم لحظہ۔۔ اسے میسر آجائے ۔۔

ابن سید

No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...

Facebook Comments