Wednesday, July 15, 2015

ایک بےنام سی تحریر


کالے آسمان ہر تارے کچھ اس طرح سے چمک رہے تھے جیسے کسی نے مخملی کپڑے پر ستارے ٹانک دئے ہوں، رات کا سناٹا گہرا ہوتا جا رہا تھا، کبھی تو ایسا لگتا کہ یہ خاموشی کہیں میرے کانوں کے پردے ہی نہ پھاڑ دے ۔۔ ماحول میں رچی بسی ٹھنڈک اور ہوا میں ہلکی سی تیزی تھی، میرے قدموں پر جب خشک پتے چُرمُرا کر احتجاج کرتے تو ایسا معلوم ہوتا کے جیسے اپنی موجودگی کا احساس دلا رہے ہوں اور یوں اس سناٹے میں اس لمحے ایک خوشگوار احساس پیدا ہو جاتا کہ جیسے میں یہاں اکیلا نہیں کوئی اور بھی میرے ساتھ ہے، مگر پھر رکتے قدم کیساتھ ہی پھر وہی سناٹا ۔۔ یہ خوشگوار لمحہ ایک قدم سے دوسرے قدم کی خاموشی کا فاصلہ طے کرتا ۔۔ مگر۔۔ آخر کب تک ۔۔ مسلسل کب تک چلوں ۔۔ مجھے رُکنا ہی پڑا ۔۔ اور رُکتے ہی پھر وہی خاموشی میرے حواس پر طاری ہونے لگی ۔۔ مجھے ایسا لگا کہ جیسے میں کسی اندھے کنویں میں گِر رہا ہوں، لمحہ بہ لمحہ نشیب کی جانب سفر کرتا ہوا میرا جسم ۔۔ پھر میں نے حالات کے دھارے پر خود کو چھوڑ دیا اور کہیں دور نشیب میں خود کے گرنے کا انتظار کرتا رہا ۔۔ مگر۔۔ انتظار ہی کرتا رہا، انتظار طویل ہوتا گیا مگر وہ فاصلہ ۔۔ وہ طے نہیں ہوا۔۔ ماحول کی پُراسراریت ہر گزرتے لمحے کیساتھ بڑھتی جارہی تھی ۔۔ ہوا میں ٹھنڈک اب خنکی کی جانب سفر شروع کرچکی تھی ۔ اندھیرا دبے پاؤں چلتا ہوا اطراف کے ماحول سے اب میرے دل پر طاری ہو رہا تھا۔ ایک انجانا سا خوف میرے رک و پے میں سرایت کرنے لگا۔۔ ۔مگر ۔۔
پھر نہ جانے کیوں ایسے لگا جیسے کسی نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا ہو، مجھے میرا نام لے کر پُکارنے والا یہ کون تھا، مجھے لگا یہ آواز تو میرے بالکل قریب سے آرہی ہے، برف جیسے پگھل رہی تھی، ماحول سے ٹھنڈک غائب ہو رہی تھی۔۔ میرے اطراف کی تاریکی میں جیسے چاروں طرف روشنی کی کرنیں اپنا رقص کرنے لگیں، میں نے غور کیا میں اپنے پیروں پر کھڑا ایک جانب سفر شروع کر چکا تھا، ماحول کے سناٹے کو ایک مدھم سی مسلسل آواز ختم کررہی تھی، مجھے لگا ۔۔ میں بھی شاید مسکُرانے لگا تھا۔۔

ایک بےنام سی تحریر
از اِبنِ سَیّد (اویس مختار)



Photo By Dr Scott

No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...

Facebook Comments