Tuesday, July 7, 2015

کیسا تھا میرا پہلا روزہ (خدارا نہ ٹیگو کہ مجھے نہیں یاد!)


کیسا تھا میرا پہلا روزہ  (خدارا نہ ٹیگو کہ مجھے نہیں یاد!)

 اردو بلاگران کے اندر ٹیگا ٹیگی چل رہی ہے سب اپنے اپنے پہلے روزے کا حال سُنا رہے ہیں اور پھر کسی دوسرے بلاگر کو ٹیگتے ہیں کہ وہ بھی یہ عمل دہرائے ورنہ انجام کا ذمہ دار خود ہوگا لہذا دوسری جانب سے بھی یہی حرکتیں ہوتی ہیں،ادھر ہم اس ہی شش و پنج میں ہیں کہ آیا پہلا روزہ رکھا تھا بھی کہ نہیں یا سیدھا دوسرا یا پھر تیسرا روزہ ۔ہاں! مگر اتنا ضرور یاد ہے کہ ایک دن اسکول میں شدید پیاس سے بےحال ہو کر بھاگ کر کُولر کی جانب گئے ،جی بھر کر ٹھنڈا پانی پیا اور مست ہو کر کلاس کی جانب آ رہے تھے کہ اچانک یاد آیا کہ ہمارا تو روزہ تھا،  یہ بتانا ضروری نہیں کہ یہ واقعہ کئی بار (بلکہ ایک ہی دن میں کئی کئی بار) ہو جاتا تھا۔ اب بھی حال یہ ہے کہ بہت سی باتیں ، یادیں اور لوگ بھول جاتے ہیں مگر روزہ یاد رہتا ہے، نہ جانے کیوں!

کئی دفعہ ایسا ہوا کہ گھر میں افطاری پر سارا سامان سجا ہوا ہے اور ہم کہیں سے باہر سے ٹہلتے ہوئے آئے اور آتے ہی کوئی چیز اُٹھا کر منہ میں ڈال لی کہ اتنے میں اَمی نے ڈانٹ کر باور کرایا کہ روزہ ہے تو لَگے گھبرا کر خوخو خاخا کرنے مگر جو پیٹ میں اُتر چکا وہ کیاخاک باہر آتا۔

شرارتی تو بچپن سے ہیں اور اب بھی ہیں، بچپن سعودی عر ب میں گزرا، پاکستان اور سعودی عرب کا  روزہ کھُلنے میں غالباًایک گھنٹے کا فرق ہوتا تھا، ایک دفعہ اَمّی دسترخوان سیٹ کرکے کچن میں پکوڑے تَل رہیں تھیں، میں نے ٹی وی کھولاپاکستان میں روزہ کھُل چکا تھا اور پی ٹی وی پر اذانِ مغرب نشر ہورہی تھی، آوز بڑھا دی، امی نے آواز سُنی تو سمجھیں شاید روزہ کھُل چکا ہے لہذا بھاگ کر آئیں اور کھجور منہ میں نہ صرف رکھی بلکہ ہمیں بھی کہا کہ روزہ کیوں نہیں کھول رہے ، ہم نے جواباً کہا کہ روزہ تو کھُلا ہی نہیں! آگے کیا ہوا، نہ پوچھئے!

تراویح کا پورا وقت باہر ہی گزرتا تھا، چاہے تراویح پڑھیں یا نہ پڑھیں، یعنی شیڈیول کچھ یوں ہوتا تھا کہ عشاء کی نماز ہوئی اور ہم فرض پڑھ کر باہر آ گئے ، اب دوستوں کے پاس گئے کبھی فٹبال کھیلا کبھی کچھ اور کھیل کھیلا یہاں تک کہ نماز وتر کا وقت ہوگیا تو بھاگم بھاگ واپس آئے وتر ادا کی اور گھر کو چل دئے! یوں ہم ایک بھی تراویح نہیں چھوڑتے تھے ! بچپن میں کسی طرح پتا چل گیا کہ تراویح نفل ہے لہذا اس کی طرف سے غفلت برت جاتے تھے۔

سال تو مجھے یاد نہیں ، ہاں اتنا یاد ہے کہ پہلے سال تین روزے، دوسرے سال دس روزے اور پھر تیسرے سال الحمدللہ پورے روزے رکھے اور یوں روزے باقائدگی سے رکھنے شروع کئے۔ سحری روزے افطار اور تراویح ایک ساتھ ہی رکھتے تھے، یعنی یہ شغل بھی ہوا کہ جس دن روزہ نہیں اس دن نہ سحری کی نہ افطار کیا اور نہ ہی تراویح ۔۔۔

اتنا ضرور یاد ہے کہ دوسرے لڑکوں سے پہلے ہی روزہ رکھا کیوں کہ جب ہمارا پہلے پہل کا روزہ تھا اس وقت باقی سب کھا پی رہے ہوتے تھے لہذا یہی قیاس ہے کہ ہم نے عمر سے پہلے روزہ شروع کردیا تھا۔

ا س سب کے باوجود آج جب مُڑ کر ماضی میں جھانکتا ہوں تو نہ جانے کیوں وہ اپنا معصوم ساروزہ اور تراویح بہت پیاری نظر آتی ہے۔ گردش ایام اور دنیا کی بھاگ دوڑ ، معاش کی ریس نے اس بہت مصروف کردیا کہ سحری میں آنکھ کھُلنے کے وقت بھی بدن ٹوٹ رہا ہوتا ہے اور رات سونے سے قبل بھی ۔بس جب امی کی آواز سحری کے وقت کانوں میں آتی ہے ، "اویس! اُٹھ جاؤ وقت ہوگیا "، تو نہ جانے کیوں دل یہ کرتا ہے کہ جب اویس اُٹھے تو وہی ننھا مُنا سا پلنگ سے چھلانگ مارتا ہوا، جلدی جلدی سحری کرتا اور نمازِ فجر کے لئے بھاگتا ہوا۔۔۔اے کاش!

 
ابنِ سید (اویس مختار)

اس پوسٹ میں میں زید عفّان، ذہین احمق آبادی اور تفہیم احمد (تفہیمِ سحر) کو ٹیگ کررہا ہوں، اب آپ حضرات اپنا احوال سنائیں!

Photo By: Nasir Khan

12 comments:

  1. بہت اچھی تحریر ہے۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. جزاک اللہ ، یونہی ہمارے حوصلوں کو بلند کرتے رہیئے گا۔

      Delete
  2. ۔ ماں کی یاد سے گدگداتا۔۔۔ہلکے پھلکے انداز میں لکھا گیا ایک حساس بلاگ۔
    سب سے پہلے تو ٹیگ کرنے والے کو دعا دیں کہ اس نے نہ صرف آپ سے اتنی اچھی تحریر لکھوائی بلکہ آپ کے ذہن میں چھپی ایسی یادوں کو تازہ کیا جو دوسروں کے اسی موضوع پر بلاگ پڑھتے ہوئے آپ کے سامنے جگمگانے لگیں۔ لکھ لیں اپنی یادوں کو پرولتے ہوئے یہ بلاگ آپ کے اپنے لیے ایک اہم بلاگ ہے۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. بہت بہت شکریہ نورین باجی، آپ حضرات کے تبصرے میرا سیروں خون بڑھا دیتے ہیں
      یہ درست ہے اس بلاگ میں روزے س ےزیادہ ماں کی محبت شامل ہوگئی
      جب بھی یاد بچپن کی یادوں کا ذکر ہو تو ہمارے والدین کا نہ ہو یہ ممکن نہیں ۔ اللہ انہیں اچھا رکھے آمین :)

      Delete
  3. بچپن کے روزے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یادوں کی ایک مالا جس کا ایک ایک موتی اپنی مثال آپ ہے ہر "بلاگر" دوست کی اپنی یادیں اور اپنا انداز اور ہر کسی کا انداز جدا لیکن ان سب میں مشترک معصوم سابچپن اور محبت کرنے والی ماں
    یقیناً بچے اور مائیں تو سب کی سانجھی ہوتی ہیں

    ReplyDelete
    Replies
    1. جی بالکل ، میں نے یہ بلاگ لکھنے سے قبل کسی صرف شعیب بھائی کا بلاگ پڑھا تھا، مگر بعد میں جب میں نے باقی پڑھے تو دیکھا ہر کسی میں ماں کی محبت اور ماں کا ذکر ضرور تھا ۔ یہ ایک چیز اور دوسری بھول کر کھانا کھا لینا سب میں مشترک رہا :)

      Delete
  4. بچپن کی یادیں سب کی بڑی سہانی ہوتیں شرارتوں بھرا بچپن بہت ہی خوبصورت جو کبھی نہیں لوٹ سکتا بس اسکی یادیں ہی اک اثاثہ ہیں جو ہمیشہ ساتھ رینگی ۔بہت ہی خوب لکھا

    ReplyDelete
    Replies
    1. شکریہ اسریٰ باجی، جی بالکل بچپن بہت شرارتوں بھرا ہوتا ہے، میں تو پھر تھا ہی کچھ زیادہ ہی شرارتی ار نٹ کھٹ (اب بھی ہوں) اس لئے امی سے بہت مار کھاتا تھا۔۔۔ آج پٹائی کو مس کرتا ہوں تو دوبارہ امی کو کسی بہانے تنگ کرتا ہو تاکہ وہ تنگ آ کر کم از کم ایک ہاتھ ہی جڑ دیں )مگر بےسود)

      Delete
  5. یعنی کہ سعودی عرب میں قیام کے دوران آپ پاکستان وقت کے مطابق روزہ افطار کروانے کی جسارت کروا چکے ہیں. 😐
    خوب جناب عمدہ یادیں.

    ReplyDelete
    Replies
    1. جی اس وقت تھوڑی تھوڑی زید حامد کی روح حلول کرگئی تھی ;)
      شکر کریں اس وقت حکام نے نوٹس نہیں لیا ورنہ تو آٹھ سال قید اور ہزار کوڑے ۔۔۔۔

      Delete

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...

Facebook Comments