Wednesday, August 5, 2015

جہیز

(میرا یہ فیچر آپ جسارت سنڈے میگزین کی 2 اگست 2015 کی اشاعت میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔ شکریہ)
 
 
 
جہیز! (تحریر: سید اویس مختار)
کمپیوٹر پر مختلف آنلائن شاپنگ ویبسائٹ پر سر کھپاتے دیکھ کر بالآخر میں نے اس کا کاندھا تھپتپا کر پوچھ ہی لیا۔۔۔ "کیا تلاش رہے ہو بھائی؟" اُس نے کہا، "بیڈسیٹ اور مختلف گھریلو اشیاء۔۔۔" وجہ پوچھی تو جواب ملا: "عنقریب شادی ہے!"
"تو۔۔۔ جہیز؟" بالآخر میں نے بھی یہ سوال کرلیا۔۔۔ اس نے سکون سے میری جانب دیکھا اور کہا: "جہیز کی تو کہانی ہی نہیں کرنی یار! کیا میں اِس قابل نہیں ہوں کہ یہ چیزیں خود خرید سکوں؟"
اُس لمحے اس کی سوچ پر بہت رشک آیا۔ دل چاہا اس مرد مجاہد کو سُلوٹ پیش کروں۔ مانا یہ سوچ بہت اچھی ہے ۔۔۔ مگر افسوس اُتنی ہی نایاب ہے!!
سوچتا ہوں بڑے بزنس مین، اعلیٰ کلاس کے پروفیشنلز، پوش علاقوں میں لاکھوں کڑوڑوں روپے کے گھروں میں رہنے والوں کے پاس جب ٹرک بھر کر مانگے کے جہیز کی صورت میں ایک لعنت آتی ہوگی تو کیسا لگتا ہوگا؟ مردانگی کا تقاضا تو یہی ہے کہ چُلو بھر پانی میں ہی شرم سے ڈوب مرا جائے، مگر کم ہی ایسا ہوتا ہے!
حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ جب قبل اَز شادی اکثر نوجوانوں (باتوں کے شیروں) سے رائے لی جائے تو جہیز کی شدید مخالفت کرتے نظر آتے ہیں مگر جب وہی جہیز جِسے لعنت سے تشبیہ دیتے نہیں تھکتے انہیں دیا جاتا ہے تو اس لعنت کو اپنے ماتھے کا جھومر بناتے انہیں شرم نہیں محسوس ہوتی۔
وہ تو پھر الگ ہی موضوع ہے جہاں جہالت کی بنیاد پر نہ صرف جہیز مانگا جاتا ہے بلکہ کم ملنے پر رشتے ریجیکٹ اور بعد از شادی لڑکی کو اذیتیں دی جاتی ہیں۔ یہ تو موضوعِ گفتگو نہیں اس وقت یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ وہ کیا وجوہات ہیں جِن کی بناء پر ایک پڑھا لکھا، اَپر مِڈل کلاس اور مالی طور پر مستحکم لڑکا جہیز لینے پر شرم محسوس نہیں کررہا؟
جب میں نے یہ سوال سماجی رابطوں کی ویبسائٹ پر اپنے دوستوں اور رابطے میں رہنےوالوں سے کیا تو میرا سامنا متفرق خیالات کے افراد سے ہوا، کئی باتیں اور جہتیں نئی پتا چلیں جنہیں آپ سے بیان کرتا چلوں۔
ہم نے صحافت سے وابستہ مڈل کلاس سے تعلق رکھتے چند افراد سے رابطہ کیا جن کا خیال تھا کہ ، ہمارے یہاں کچھ مڈل کلاس فیمیلیز ایسی بھی ہوتی ہیں جو اپنی بیٹیوں کو خود جہیز دینا چاہتی ہیں اور جب لڑکے یا اس کے گھر والوں کی جانب سے جہیز کے لئے منع کیا جائے تو بجائے اس کا خیرمقدم کرنے کے اُلٹا ناراض ہوجاتے ہیں جس کہ وجہ وہ کچھ یوں بیان کرتے ہیں کہ " ہم کوئی گِرے پڑے لوگ نہیں نہ ہی ہماری دُختر کوئی یتیم لڑکی ہے!" اور اگر اس سب صورتحال میں لڑکا اگر اپنی جانب سے سختی کرے تو اُسے اَکھڑ مزاج اور سخت طبیعت کا سمجھا جانے لگتا ہے۔ یہ دراصل ایک مائینڈ سیٹ ہے جسے تبدیل ہونے کی ضرورت ہے اور یہ کوشش دونوں خاندانوں کی جانب سے ہونی ضروری ہے۔
پیشے کے لحاظ سے صحافت سے وابستہ ایک متوسط گھرانے کے فرد نے بیان کیا کہ انہوں نے اپنی شادی میں اس بات پر پورا زور لگایا تھا کہ کسی بھی قسم کا جہیز نہ لیا جائے، ان کا موقف یہ تھا کہ لڑکی کو گھر والوں نے پڑھا لکھا دیا اب جبکہ وہ لڑکے کے گھر جارہی ہے توپھر اُس کی ساری ذمہ داری لڑکے کے ذمہ ہے۔ان کی کوششوں سے شادی سادگی سے ہوئی مگر اس دوران دونوں گھرانوں میں مکمل ذہنی ہم آہنگی ہونے کے باوجودسسرال "عجیب سے احساس " کا شکار رہا۔ معلوم یہ ہوتا ہےکہ ایسی تمام رسموں میں سماجی دباؤ اس قدر زیادہ ہے کہ چاہتے نہ چاہتے ہوئے بھی ایک فرد اس میں ملوث ہوجاتا ہے ، اور بہت بات ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ اپنی سی کوشش کرنے کے بعد ہار کر اپنے آپ کو حالات کے دھارے پر چھوڑ دیتا ہے ۔
جہاں کچھ افراد کی یہ رائے تھی وہیں کچھ افراد کا خیال ہے جہیز ایک لعنت نہیں بلکہ مانگ کر اور خواہش کرکے لینے والا جہیز ایک لعنت ہے۔کم اور مناسب جہیز دینا تو ہمارے پیارے نبیﷺ سے ثابت بھی ہے۔ لیکن اگر لڑکی والے ہی جہیز دینے پر بضِد ہوں تو اِس کو مجبوری سمجھ کر مان لیا جائےتاکہ سارے معاملے میں کسی کی دِل آزاری نہ ہو۔
اس سلسلے میں ہمارے ایک دوست نے ایک دلچسپ واقعہ سنایا، کہتے ہیں کہ انکے ایک دوست نے اپنی پوری کوشش کرکے لڑکی والوں کو جہیزنہ دینے پر رضامند کرلیا تھا ، شادی کے کچھ دن بعد ان کے گھر ایک فریج کا پارسل آیا، بڑے حیران ہوئے کیوں کہ انہوں نے آرڈر نہیں کیا تھا خیرجب اس کو کھولا گیا تو اس پر لگی پرچی پر لکھا تھا کہ ، "خالہ کی جانب سے اپنی بھانجی کیلئے تحفہ پُرخلوص"۔جب بیگم سے دریافت کیا تو انہوں نےبھی کہہ دیا کہ انہیں اس بارے میں علم نہیں۔اس کےبعد کیا تھاہر دوسرے دن کسی کی جانب سے تحفہ آ جاتا اور یوں دو ہفتے میں ہی جہیز پورا ہو گیا۔
جہاں کچھ افراد نے اس قسم کے واقعات سُنائے وہیں ایک دوست نے اپنی رائے کا اظہار کچھ یوں کیا کہ خود فرمائش کرکے جہیز کے نام پر من پسند چیزوں کا حصول اور اس کیلئےضد اور اختلاف کرکے روایتی لڑکے والے ہونے کا ثبوت دینا انکے نزدیک ایک نہایت شرمناک فعل اور سراسر ظلم ہے! غیروں کی اندھی تقلید اس رسم کو پھیلانے اور اس کو مضبوط کرنے کی ایک بڑی وجہ ہے ۔ یہ ہمارے اجتماعی جاہلانہ طرز عمل کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ لڑکے والوں کی جانب سے جہیز کی ڈیمانڈ نہ ہونے کے باوجود بھی لڑکی والے اپنے دِل میں نہ صرف خوف رکھتے ہیں بلکہ بہت کچھ دے دلا کر اپنی تَسلّی مکمل کرتے ہیں! اس کا حل یہ ہے کہ سب سے پہلے تو لڑکا خود اپنے اندر اور اپنے گھر والوں میں شعور پیدا کرے، پھر لڑکی والوں کو یہ بات پیار سے سمجھائی جائے اور اس بات کا یقین دلایا جائے کہ جہیز نہ لینے کی وجہ سے کبھی بھی اس ازدواجی تعلق میں دراڑ نہیں ڈالی جائیگی۔لڑکی اپنے باپ کی شہزادی ہوتی ہے اور گھر والوں کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اس کو ایسے تحفے دیں جو کہ دیر پا ہوں تاکہ وہ اس کو آئندہ زندگی میں استعمال میں لا سکے، اس لئے اگر وہ اپنی خوشی سے ضروری اشیا ء دینا چاہیں تو ضرور دیں مگر اس کو شادی کا ایک اہم جُز بنا دینا یا اس سلسلے میں لڑکی والوں کو مجبور کرنا سراسر ایک ظلم ہے۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ہم جہیز تو خوب دیتے ہیں مگر لڑکی کےجائیداد میں اصل حق میں ڈنڈی مار جاتے ہیں حالانکہ جہیز فرض نہیں بلکہ جائیداد میں حق دینا ایک فرض عمل ہے مگر رسم و رواج میں جکڑے معاشرے میں یہ پُکار نقار خانے میں طوطی کی آواز سمجھی جاتی ہے۔
اِن آراء سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہےکہ ایک بڑی تعداد یہ بات جانتی ہے کہ بھاری جہیز لینا اور دینا نہ صرف ایک غلط روایت ہے بلکہ یہ لڑکی والوں پر شادی کے اخراجات کے علاوہ ایک اضافی بوجھ اور رقم ہے جوکہ دینا ناگزیر سمجھا جاتا ہے۔اس ادراک کے باوجود اس مسئلہ کو سمجھنے اور تدارک کیلئے آج کا نوجوان کوئی ٹھوس اور عملی قدم اُٹھانے پر تیار نہیں اور نہ اس سلسلے میں کسی تلخی کو جھیلنے کیلئے راضی ہے بلکہ وہ اس رسم کو قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کرتا ہے۔ یوں یہ روایت ہر گزرتے سال کے ساتھ نہ صرف مزید پُختہ ہوتی جارہی ہے بلکہ اس میں جدت ، نمود و نمائش ، فضول خرچی بھی جَڑ پکڑتی جارہی ہیں جس کا نتیجہ مزید مسائل کی صورت میں نکل رہا ہے۔
جب مضبوط کردار کا حامل ایک لڑکا اس بات کا عہد کرلے کہ وہ کسی بھی قبیح رسم کا حصہ نہیں بنے کا تو پھر اس کو نہ معاشرہ کی فرسودہ روایات اپنے موقف سے ہٹا سکتی ہیں اور نہ ہی کسی کی زور زبردستی ، ہاں یہ ضرور ذہن میں رکھا جائے کہ معاشرے میں اس رسم کو سُدھارنے کا بیڑا جب بھی آپ اُٹھائیں گے تو راستے میں رُکاوٹوں کا آنا ناگزیر ہے لیکن مردانگی کا ثبوت یہی ہے کہ ان تمام رُکاوٹوں کا بہادری کیساتھ مقابلہ کیا جائے۔
سید اویس مختار

2 comments:

  1. buhat khub owais! Jahan tak main ne apne muaashre ko parkha hai, mera nahi khayal k kisi ladki k waaldain apni beti ki sahulat or asani k liye usay saaz o samaan dete hain, bal k aksar o beshtar dikhawa, competition, logon ki baton ka khof or rasm o rivaaj ki pabandi jese fail jahaiz dene ka maqsad bante hain.

    ReplyDelete
    Replies
    1. جی بالکل ۔ آپ ٹھیک کہتے ہیں، ہم کتنی بھی تاویلیں دیں مگر یہ بات سچ ہے کہ یہ معاشرے کی ایک ظالم رسم ہے جو کہ نکاح کو مشکل بنا رہی ہے

      Delete

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...

Facebook Comments