image from here |
میں انتظار میں تھا کہ یہ قصہ ختم ہو تو ایک آدھ تفصیلی
کالم لکھوں لیکن یہ تو شیطان کی آنت اور موم کی ناک کی طرح کھنچتا اور اپنی ہیئت
تبدیل کرتا جارہا ہے۔ اس وقت دارلحکومت میں ایک گروہ اپنی انا کی جنگ لڑ رہا ہے،
لیکن اب گروہ سے زیادہ یہ جنگ اس لیڈر کی اپنی ذات کی اور عزت کی جنگ بن چکی ہے،
ہر نیا دن ایک نیا مطالبہ اور ہر مطالبہ ڈھیروں شرائط اور پھر نتیجہ وہیں کا وہیں،
لاکھوں کا مجمع چلا اور ایک لیڈر نے کھڑے ہو کر نوے ہزار موٹر سائیکلیں بھی گن لیں
لیکن جب یہ مجمع دارلحکومت پہنچا تو بن دھلے کپڑے اور نئی نویلی دلہن کی طرح سکڑا
سمٹا سا لگا، یہاں تک کہ لیڈران کو التجا کرنی پڑی کہ خدا کیلئے گھروں سے نکل آؤ
اور اس جلسے میں شامل ہوجاؤ۔
معاملات تو اس وقت ہی شروع ہوچکے تھے جب بارہ مئی سے کچھ
عرصہ پہلے عمران خان صاحب نے کہا تھا کہ ہم بارہ مئی کو دھاندلی کا ایجنڈا لے کر
یومِ سیاہ منائیں گے، اس دوران (علامہ) طاہر القادری بھی اس میں شامل ہوگئے۔ کچھ
لوگوں کی جانب سے اس جلسے کے اوپر بحث ہوئی تو پتا چلا عوام اب اس دھرنے، الزامات
کی سیاست سے اکتا چکی ہے۔ نیا پاکستان کا وعدہ جو کہ بارہ مئی 2013 کا تھا، اب
2014 تک بھی نہ پورا ہوچکا، وہ کرپشن جو کہ 90 دن کے اندر ختم ہونے والی تھی وہ
365 دن کے بعد بھی اپنے حال کی منتظر ہے۔ غرض عوام کی سوچ بہت حد تک تبدیل ہوچکی
تھی، الیکشن کے دوران خان صاحب کی مقبولیت کے حوالے سے جو سروے ہوئے بہت ممکن ہے
کہ ان سرویز کا بھی نتیجہ بدل چکا ہو۔ لیکن پھر ہم نے دیکھا کہ لندن میں ایک میٹنگ
کے بعد ایک بڑی تحریک کا اعلان ہوا اور دن چنا گیا 14 اگست، تحریکِ انصاف کے دوست
جن میں سرفہرست جماعت اسلامی ہے کے امیر نے اس پر یہ بھی کہا کہ 14 اگست ملکی
اتحاد کا دن ہے اس کو سیاست کی بھینٹ نہ چڑہایا جائے۔ لیکن جوش، طاقت، اور کسی حد
تک غرور و تکبر نے اس کو رکنے ہی نہ دیا۔ کاش تحریک سے پہلے ایک اور سروے کروا لیا
جاتا۔
مجھے یاد ہے الیکشن سے پہلے جماعت اسلامی اور تحریک انصاف
میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی بات طے ہوئی مگر پھر تحریک انصاف کے اسی اوور کانفیڈینس نے
اس کمیٹی کو آپس میں ملنے نہ دیا، نتیجہ یہ ہوا کہ تحریک انصاف صرف ایک ہی صوبہ
میں خاطر خواہ کامیابی حاصل کرسکی، کراچی مکمل طور پر سپرد کردیا گیا، کہنے کا
مقصد یہ کہ کاش ان غلطیوں سے سبق سیکھا جاتا، اس اوور کانفیڈینس کو کم کیا جاتا
لیکن ایسا نہیں ہوا۔ یہی مزاج اِدھر بھی دیکھنے میں آیا، 14 اگست مارچ کے اعلان
کیساتھ ہی نہ اتحادیوں سے پوچھا گیا اور نہ ہی کسی اور سے، قادری صاحب کا اشیرباد
ملا اور پھر مارچ کا اعلان ہوگیا۔
14 اگست آگئی، انقلاب جلسہ گاہ بھی نہ پہنچا، 15 اگست آگئی
عوام انتظار کرتی رہی، 16 اگست جلسہ کا آغاز ہوا، لیکن عوام دیکھ کر حیران رہ گئی
جب اس ہی رات عوام کے ہجوم سے سارے لیڈران رات گزارنے اپنے نرم بستروں کی جانب چل
پڑے۔ یہ عوام کیلئے ایک دھچکا تھا۔ پھر اتوار بھی گزرا، پیر کو لوگوں کے آفس جانے
کا وقت آگیا لیکن انقلاب نہ آسکا، پھر ٹیکنوکریٹ کی حکومت کا مطالبہ اور ہاشمی
صاحب کی ناراضگی، ہاشمی صاحب مانے تو ایک اور دن گزر چکا تھا۔ پھر سول نافرمانی کا
حکم آیا پھر اس پر بھی یو ٹرن لینے کے بعد ریڈ زون میں داخلے کی دھمکی ، پھر کچھ
یوں ہوا کہ "جن پر تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے"۔ جی ہاں، فوج نے بیان
دیا کہ سرکاری عمارات کی حفاظت فوج کی ذمی داری ہے لہذا سب اپنی اپنی جگہ پر رہیں۔
پھر ریڈ زون میں داخلہ ہوا۔ پہلے کہا گیا کہ چور ڈاکوؤں سے کوئی مذاکرات نہیں
ہونگے پھر مذاکرات بھی شروع ہوئےشرائط بھی تسلیم ہوئیں۔
آج جب ان سطور کو لکھا گیا تو اس معاملے تو دس دن پورے ہو
چکے ہیں، انقلاب اور آزادی کا نام ایک گالی کی صورت اختیار کرچکا ہے۔ بیشتر کالم
نگار اس بارے میں اپنا اظہار خیال کرچکے ہیں اور اس کوشش کو مارشل لاء کی اس دعوتی
تحریک کا نام دے چکے ہیں جس میں مہمانوں نے شرکت سے انکار کردیا۔ سوشل میڈیا میں
جنگ اور طوفانِ بدتمیزی کا ایک نیا دور شروع ہوچکا ہے، چہرہ بچانے کے کئی موقع خان
صاحب گنوانے کے بعد اب ایک ڈیڈ لاک میں آکر پھنس چکے ہیں اور حالت وہی ہے
"کوئی امید بر نہیں آتی، کوئی صورت نظر نہیں آتی"۔عوام اس گیم سے اکتا
کر چینل تبدیل کرچکی ہے۔ ایک انقلابی عوامی لیڈر اپنی غلطیوں، ناسمجھیوں اور
بےاعتماد حواریوں کی وجہ سے سیاسی خودکش حملہ کرچکا ہے۔ مجھے خان صاحب اور انکے
چاہنے والوں سے ہمدردی ہے اور رہیگی۔
ابن سید (سید اویس مختار)