اور
پھر لاٹھی چارج اور آنسو گیس کی بوچھاڑ ، پولیس ہر جانب سے آکر ٹوٹ پڑی، یہ نہیں دیکھتی
کہ یہ بوڑھا ہے کہ جوان، کمزور ہے کہ طاقتور، اور پھر ہم دیکھتے ہیں کہ ایک آدمی جس
کی داڑھی کے بال سفید ہوچکے ہیں چٹان بن کر کھڑا ہوجاتا ہے، ڈنڈے کھاتا ہے گرفتار ہوجاتا
ہے، یہاں نہ پلٹ پروف ٹرک ہے نہ کنٹینر، یہ اس وقت تک کھڑا رہتا ہے جب تک اس کے کارکناب
باحفاظت گھروں کو نہ چلے جائیں، اور پھر گرفتاریاں اور قید و بند ۔۔۔ یہ ہیں قاضی حسین
احمد
اور
پھر میری آنکھوں نے چشمِ تصور سے یہ بھی دیکھا کہ مصر کا رابعہ اسکوائر ہے اور وہاں
پر تاریخ کا بد ترین قتل عام کیا گیا، ڈھیروں لوگ مارے گئے، اندھا دھند فائرنگ، مارنے
والے پولیس والے بھی ہیں اور غیر پولیس والے بھی جو اونٹوں پر تلواریں لئے جھنڈ میں
بلا تفریق سب کو کاٹ ڈالتے ہیں ۔۔۔ اور پھر ایک معروف لیڈر کی بیٹی شہادت کا رتبہ پاجاتی
ہیں۔۔۔ یہ ہیں اسماء البتاجی، جو شہادت کا رتبہ پاتی ہیں اور انکے والد ملٹری آمر سیسی
کے ہاتھوں گرفتار ہوجاتے ہیں۔ یہاں نہ اقرباء پروری نہ اپنی حفاظت کا معاملہ بلکہ سب
سے پہلے لیڈران اور انکے اہل خانہ اپنی جانیں دینے کیلئے آگے بڑھتے ہیں ۔ ۔۔
اور
پھر میں دیکھتا ہوں مرسی جو نامعلوم مقام پر قید کردیا جاتا ہے، اور پھر میں دیکھتا
ہوں شیخ یاسین جو کہ ایک اپاچی کا نشانہ بنتے ہیں، اور اس ہی طرح کی ہزاروں مثالیں
۔۔ ۔
میں
حیران ہوں کہ انہیں کیوں اپنی حفاظت کا خیال نہیں، کیوں یہ اتنے سر پھرے ہیں نہ بلٹ
پروف جیکٹ پہنتے ہیں نہ بم پروف کنٹینر، نہ حفاظتی گارڈز کا جھنڈ رکھتے ہیں اور نہ
ہی ہٹو بچو کی صدائیں، کیا انکی جانوں کو خطرات نہیں۔ ہیں! بالکل ہیں سب سے زیادہ ہیں
لیکن یہ لیڈر ہیں! لیڈر! اور ایسے ہی لوگ انقلاب لاتے ہیں۔
سن
لو میرے دوستوں، ٹھنڈے کمروں اور بند کنٹینروں سے انقلاب کے سوتے نہیں پھونٹتے!
ابن
سید
No comments:
Post a Comment