Saturday, January 3, 2015

جس کا کام اُسی کو ساجھے

جس کا کام اُسی کو ساجھے

کہتے ہیں ایک جنرل صاحب کسی مشاعرہ کی صدارت کررہے تھے، پہلا شاعر آیا، شعر سنتے ہی سامعین کو آگ لگ گئی، واہ واہ کے ساتھ ہی مکرر مکرر کی صدا لگ گئی، شاعر نے پھر سنایا، واہ واہ کی صدا، مکرر مکرر کی صدا۔ جنرل صاحب جو ان سب بکھیڑوں سے نابلد منہ کھولے یہ سب دیکھ رہے تھے، اپنے ساتھ والے (غالباً جنہوں نے کام نکلوانے کیلئے انہیں صدارت سونپ دی تھی) کو کان میں کہا "یہ لوگ کیا کہہ رہے ہیں؟" جواب ملا "لوگ شعر دوبارہ سنوانے کی فرمائش کررہے ہیں" یہ سنتے ہیں جنرل صاحب کے نتھنے پھُل گئے، کان کھڑے ہوگئے، بوٹ کے تسمے کستے ہوئے ڈائیس پر چڑھے آئے اور کہنے لگے ۔۔ ۔۔ "جس کو شعر سننا ہے پہلی بار میں سنے، شاعر تمہارے باپ کا نوکر نہیں ہے کہ بار بار سنائے!"
اور یوں۔۔۔۔ سامعین آدھ گھنٹے بعد اپنے اپنے گھروں کو تھے۔

آپ ایک سیکیورٹی گارڈ رکھیں، چند دن بعد ہی اس کی بےکاری دیکھ کر آپ کے ہاتھ میں کھجلی شروع ہوجائے، آپ سوچیں سارا دن تو بیٹھا رہتا ہے، یہ لو پیسے جاؤ بازار سے سودا لے آو، جاؤ ذرا بچوں کو اسکول سے لے آؤ، کبھی بیگم اس کو مٹر چھیلنے پر لگا دیں، بے چارہ پیاس بھی کاٹے اور اپنے آنسو بھی پونچھ رہا ہو، پھر سارے دن کام کاج کا تھکا اب رات کو کیا سوئے بھی نہیں؟ اور پھر کبھی خدانخواستہ گھر پر ڈکیت آجائیں، مگر یہ کیا ۔۔۔گارڈ تو بازار سے سودا لینے گیا ہوا ہے، بچوں کو بھی تو اسکول سے لے کر آنا ہے ۔۔ ۔

کیا کہا؟ اس کہانی کا مقصد؟ ارے کچھ مقصد نہیں بس یونہی کچھ یاد آگیا تو کہہ دیا، کل کچھ اور یاد آجائے گا تو کچھ اور کہہ دینگے، میرا تو "کام" ہی یہی ہے، "کیڑے نکالنا" ۔۔ جس کا جو کام ہے وہ تو اس کو کرنا چاہئے؟ ہے ناں؟ کیوں دوستو؟


ا-س

No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...

Facebook Comments