وہ میری پسند نہ تھی، میرے
گھر والوں کی تھی، ماموں نے اسے میرے پَلّے باندھ دیا، میں دیکھتا رہ گیا، گھر والوں
کی مرضی تھی، اور کہہ بھی کیا سکتا تھا، مگر۔۔۔ پھر وقت سب سے بڑا ساتھی ہے، میں نے
اسے قبول کر ہی لیا، اور ۔۔ شاید اس نے بھی ۔۔۔ پھر نہ جانے کیا ہوا، ہم یک جان دو
قالب سے ہوگئے، نہ میں اس کے بغیر کہیں جاتا نہ کہیں آسکتا تھا۔۔اور نہ ہی کبھی اس
نے مجھے بیچ راستے میں چھوڑا، اگر وہ تھَک جاتی تو میں اس کا ساتھ دیتا، میں تھکن سے
چور ہوتا تو اس کے وجود کا احساس میرے سارے زخموں کا مرحم ہوتا۔۔ میں نے اس کی محبت
میں اپنے اطراف سے بےگانہ تھا، کسی کا مذاق/طعنے/بپھتی مجھے اس سے نہ دور کرسکی اور
نہ ہی متنفِّر، میں تو اس کیلئے سب سے لڑ بھی جاتا، اور پھر کسی غیر کیلئے میں
"اپنے" کو کیسے چھوڑ دوں۔۔۔ میں سوچتا بھی کیسے۔۔ آخر کو اس کا نام مجھ سے
جڑا تھا۔۔۔
کل مجھے اس کی ضرورت تھی،
آج اس کو میری ضرورت ہے، میں بےوفا نہیں، نہ مجھے کسی کی باتوں کی پرواہ ہے، آج آپ
میری یہ پوسٹ پڑھ کر شاید حیران ہوں۔۔۔ مگر میرا یہ ان سب کو پیغام ہے جو مجھے کہتے
رہتے ہیں کہ اس کھٹارا کی جان چھوڑ دو۔۔ میری پاک ہیرو کی سی ڈی سیونٹی بائیک، ہاں
پرانی ہے، کئی دفعہ انجن بن چکا ہے، پِسٹن پھر سے سُر نکالنے لگا ہے، جمپس نے میری
کمر میں درد کردیا، ہارن کے علاوہ سب چیزیں آواز کرتی ہیں، مگر اس ہی نے تو میرا ان
مواقع پر ساتھ دیا، جب کوئی نہیں تھا، جوہر، صدر، لیاری، کیماڑی، کورنگی، لانڈھی، نارتھ
کراچی، ناظم آباد۔۔۔ اور آج بھی اس کے ساتھ سپر ہائی وے روزانہ پچاس کلومیٹر کا سفر
کرتا ہوں اور اس کی خاموش رضامندی فرمانبرداری کو سراہتا ہوں۔۔۔۔
ابنِ سیّد
No comments:
Post a Comment