Saturday, January 31, 2015

ابن سید

ابنِ سیّد
آج اتنے دنوں بعد اُسے دیکھ کر میں چونک گیا، آنکھیں پھاڑ کر دیکھا، وہ بھی پھیکی سی مسکراہٹ مسکرانے لگا، میں نے حیرت سے کہا ... یہ تم ہی ہو نا.. دل میں سوچا کیسا تھا...کیسا ہوگیا ... جواب ملا: ہاں! یہ میں ہی ہوں... مگر تمہیں کیا..
اُس کا جواب نما شکوہ سُن کر دِل کھٹکا اور دل چاہا زمین پھٹے اور اس میں سما جاؤں...
مگر اس نے بات جاری رکھی.. ہاں یہ میں ہی ہوں، پہچان نہیں پا رہے ناں؟ کبھی دیہان دو تو معلوم ہو کس حال میں ہوں، کیا کھاتا پیتا ہوں، کیا کرتا ہوں، کیا سوچتا بولتا لکھتا ہوں...تمہیں تو بس اپنے مصنوعی کردار "ابنِ سیّد" کی پڑی رہتی ہے... میں کہتا بھی کیا، شرمندگی سے سنتا گیا... سچ تو کہہ رہا تھا، میں کب سے نہیں ملا اس سے، نہ بات کی، نہ حال پوچھا، نہ دیکھا کب جاگتا ہے کب سوتا ہے، کب کھاتا پیتا ہے... اس کو یوں بیچ منجدھار میں چھوڑ کر اپنے اطراف میں اس قدر مگن ... مگر... پھر میں نے بھی وعدہ کیا آج اتفاق سے صحیح مل تو گیا مگر اب اُسے کسی صورت اکیلا نہیں چھوڑوں گا...
یہ سوچ کر.. آئینے کے سامنے سے ہٹ گیا.. مبادا کوئی دیکھ کر سَرپھِرا ہی نہ سمجھ بیٹھے ..
عنوان : خودکلامی
تحریر : سیّد اویس مختار

No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...

Facebook Comments