دِل کی
آواز
تحریر:
ابنِ سید
سُنو۔۔۔میں
نے کچھ سُنا۔۔ کیا ۔۔۔۔تم نے بھی؟ ؟؟ رات کی تاریکی میں اپنی آنکھوں کے دیئوں کو ٹمٹماتے
ہوئے اُس نے پوچھا۔
ہُش! چُپ۔۔۔
اُس نے خوفزدہ آنکھوں سے اُس کی جانب دیکھا۔۔۔۔ تم نے کچھ نہیں سُنا۔۔ نہ ہی سننے کی
ضرورت ہے۔۔۔۔!!
مگر۔۔
۔۔میں نے کچھ سُنا ہے۔۔ یہ آواز مجھ سے کچھ کہتی ہے۔۔
خدارا۔۔
مت آزمائش میں ڈالو مجھے۔۔ اپنے حال پر رحم کرو۔۔تم نے کچھ نہیں سنا۔۔ یہی حقیقت ہے۔۔۔
اس نے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا۔۔
"مگر
۔۔۔۔ " ،،، اس نے کچھ کہنا ہی چاہا تھا کہ ۔۔
اس کا جملہ
مکمل نہ ہوا تھا کہ اُس نے اپنے ہاتھ کَس کر اُس کے کانوں پر رکھ دئے۔۔۔ اور اشارے
سے کہنے لگا۔۔ "نہیں نہیں، کوئی آواز نہیں ہے"
اس نے اپنے
تئیں کو کوشش کرلی تھی، مگر۔۔ وہ خود بھی مطمئن نہ تھا۔۔
یہ آواز
اس کے دل کو بھی چیر رہی تھی ۔۔
اور جب
چوتھی بار بھی اس نے یہی کہا تو وہ خود کو بھی روک نہ سکا۔۔
ہاں ۔۔
وہ بھی آواز سن رہا تھا۔۔ وہ کب تک روکتا خود کو۔۔
اور پھر۔۔
دونوں چل پڑے۔۔۔
"بابا! کیا
آپ نے بھی آواز سن لی؟" ہاں بیٹا! میں تو کئی عرصہ سے سن رہا ہوں۔۔ مگر ۔۔۔ اس
کے الفاظ اس کے حلق میں جم گئے ،،، خوف اس کی آنکھو سے عیاں تھا۔۔۔
سنو،،،
اس آواز کو مت دبانا۔۔۔
وہ دونوں
چلتے رہے ۔۔
صبح تک
۔۔ بادشاہ کے کارندوں۔۔ اور پورے شہر کو پتا لگ چکا تھا۔۔
منادی کرا
دی گئی تھی۔۔۔
پھانسی
کے پھندے تیار تھے۔۔
پھر ان
کے گلوں میں پھندے ڈال دئے گئے۔۔۔
جلاد تیار
کھڑا تھا۔۔۔اشارے کا منتظر ۔۔ اور ۔۔۔۔ مجمع تماشا دیکھنے کھڑا تھا
اچانک وہ
چِلا کر کہنے لگا۔۔۔ "کہہ دو تم سب بہرے ہو ، یا پھر مان لو کہ تم نے بھی وہ آواز
سنی ہے'۔۔ ہاں ۔۔ مان لو۔۔
"
مجمع میں
سے ایک شخص سامنے آیا "میں گواہی دیتا ہوں۔۔۔ میں نے بھی وہ آواز سنی" جلادوں
کے ہنٹر اس پر پڑے۔۔ مجمع کے بیچوں بیچ ایک اور آواز سنائی دی "ہاں میں نے بھی
سنا۔۔۔ "
بادشاہ
نے اشارہ کیا۔۔پہلا پھندا جھول چکا تھا، بےجان لاشہ لٹک رہا تھا
وہ پھر
چِلا کر کہنے لگا۔۔۔ "مان لو کہ تم نے بھی وہ آواز سنی ہے مان لو۔۔ "
مجمع میں
دوسرا شخص آگے آیا۔۔۔ پھر تیسرا اور پھر چوتھا۔۔
"ہاں ہم
نے بھی سنی ہے، ہاں ہم بہرے نہیں، ہاں ہم اس بات کی گواہی دیتے ہیں!!!" سارا مجمع
ایک ساتھ چِلّا رہا تھا۔۔
اُس نے
مسکرا کر اپنے بےجان پڑوسی کے لاشے کی جانب دیکھا۔۔
"تم جیت
گئے دوست!، ہم جیت گئے"۔۔
بادشاہ
اور اس کے حواری میدان چھوڑ کر بھاگ چکے تھے ۔۔
سَب اس
آواز کی جانب چل پڑے تھے
!
No comments:
Post a Comment