Friday, February 21, 2014

داڑھی

وقت کے ساتھ ساتھ دین پر عمل کرنے والوں کیساتھ آزمائشوں میں بھی تبدیلیاں آئیں. کس نے سوچا ہوگا کہ ایک مسلمان ہی نیک کام کرنے پر دوسرے مسلمان کے طعنے اور تضحیک کا نشانہ بنے گا.
داڑھی سنّت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے، علماء اس بارے میں مختلف رائے رکھتے ہیں بعض اس کو واجبات میں شامل رکھتے ہیں، بعض کے نزدیک ایک مٹھی سے کم رکھنا گناہ جبکہ بعض کے مطابق مقدار کا تعین نہیں. لیکن عمومی طور پر سب اس کی فرضیت کے حوالے سے متفق ہیں.
اللہ کے رسول نے ایک غیر مسلم وفد کی جانب سے اس لئے منہ پھیر لیا تھا کیوں کہ انکی داڑھیاں مونڈھی ہوئی تھیں.
موجودہ دور میں داڑھی پر تنقید، آئیں صرف مسلمانوں کی بات کریں ہم سب ایک مسلم معاشرے میں رہتے ہیں، اس معاشرے میں داڑھی کوئی عجوبہ نہیں جبکہ اس کے باوجود داڑھی رکھنے والوں کیساتھ تضحیک کا سلسلہ جاری ہے. مُلّا، مولوی، مولانا، طالبان جیسے نام رکھنا. کبھی انہیں بکرے کا لقب دینا تو کبھی ملا نصیر الدین کے نام سے پکارنا. میں ایسے چند افراد کو جانتا ہوں جنہوں نے نوکری کے حصول کی خاطر داڑھیاں منڈوا لیں. یہ سب اسلامی جمہوریہ پاکستان میں! کیا ایسا بھی کوئی مسلمان ہوسکتا ہے جو دینی فریضے کی ادائیگی کرنے پر اپنے مسلمان بھائی کو نوکری پر نہ رکھے،اگر یہ سچ ہے تو تُف ہے ایسے افراد کی ذہنیت پر!
میرے ایک دوست نے ایک جگہ شادی کا پیغام بھیجا جو مسترد ہوگیا. بعد ازاں معلوم ہوا کہ 'ناں' لڑکی کی جانب سے ہوئی ہے کیوں کہ لڑکا باریش جو تھا!
شاید اوپر بتائے واقعات میں کچھ اونچ نیچ ہوگئی ہو مگر یہ ایک معاشرے کا رویہ جس پر مجھے سخت اعتراض ہوا اور میں نے اپنا فرض سمجھا کے سب کو اس سے آگاہ کروں، شاید بعض کے نزدیک اس کی اہمیت نہ ہو مگر جن کے نزدیک اس کی اہمیت ہے اسکا احترام سب پر فرض ہے.
آخر میں ایک لطیفہ عرض ہے، ایک باریش شخص سائیکل پر جارہا تھا کہ ایک خاتون سامنے آگئیں اور ٹکر ہوگئی. خاتون نے کہا اتنی بڑی داڑھی رکھی ہوئی ہے اور ٹکر مار دی. جواب ملا "محترمہ یہ داڑھی ہے! بریکیں نہیں!"
بات تو سچ ہے!

ابنِ سیّد

No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...

Facebook Comments