ایک دفعہ امام غزالی رح ایران سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد عراق کی جانب گامزن سفر تھے کہ اس قافلے پر ڈاکوؤں کا حملہ ہوگیا، تمام مسافروں سے قیمتی اشیاء لینے کے بعد انہوں نے امام غزالی رح سے بھی ان کا سامان لے لیا جس میں ایک ان کی کتاب بھی تھی. امام کو اس بات کا بہت رنج ہوا لہذا ڈاکوؤں کے سردار کے پاس جا پہنچے اور اپنی کتاب کا تقاضا کرتے ہوئے کہا کہ میں نے جو کچھ علم حاصل کیا تھا وہ اس کتاب میں تھا. یہ سن کر سردار نے کہا عالم کا علم تو اس کے سینے میں ہوتا ہے تم کیسے عالم ہو کہ تم سے ایک کتاب چھین لی گئی تو تم کچھ بھی نہ رہے، یہ کہہ کر کتاب واپس دلوادی. اس بات کا امام پر کافی اثر ہوا اور کچھ ہی دن میں انہوں نے اس تمام علم کو حفظ کرلیا.
اگر آج ہم اپنی حالت پر نگاہ دوڑائیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ ہر دوسرا شخص حافظہ کی کمزوری میں مبتلا نظر آتا ہے. پہلے تو یہ بزرگوں میں عام تھا لیکن اب تو جوان اور ادھیڑ عمر افراد بھی اس کا شکار ہوتے جارہے ہیں. ہمارا حافظہ گوگل، وکی پیڈیا اور ہمارے موبائل کا محتاج ہوتا جارہا ہے. کوئی فون کرے اور اتفاق سے ہمارے پاس اس کا رابطہ نمبر محفوظ نہ ہو تو ہم اس کی آواز اس وقت تک نہیں پہچان پاتے جب تک کہ وہ خود نہ تعارف کرا دے. مختلف ایام اور تاریخی واقعات کا ذکر ہو تو ہم گوگل دیکھے بنا نہیں بتا پائیں گے. موبائل کے کیلنڈر میں اگر محفوظ نہ ہو یا ریمائنڈر نہ لگا ہوا ہو تو ہم بہت سے لوگوں سے کیے وعدے بھول جاتے ہیں اور پھر شرمندہ ہونا پڑتا ہے.
انسانی اعضاء بالخصوص دماغ استعمال کرنے سے حرکت میں رہتے ہیں اور اگر ان کو تناؤ میں نہ رکھا جائے تو رفتہ رفتہ یہ زوال کی جانب سفر شروع کردیتے ہیں. ہم نے مختلف اوقات میں اپنے ذہن کے بجاۓ دوسرے ذرائع پر دھیان دیا اور آج ہم ان تمام چیزوں کے محتاج ہوچکے ہیں اور ہماری حالت یہ ہوچکی ہے کہ اگر ہم سے ہمارا موبائل چھین لیا جائے تو ہم اس قابل بھی نہیں رہ پاتے کے کسی عزیز کو فون کرکے خیریت کی اطلاع دیں. کوئی مشکل سا سوال پوچھ لے تو ہم گوگل کھول کے بیٹھ جاتے ہیں. اور ہاں گرائمر کی تو فکر ہی کیا جب ورڈ ایپلیکیشن میں یہ سب ایک کلک کا کام ہو.
خدارا اپنے دماغ کو استعمال میں رکھیں، اس پر زور ڈالیں اور تناؤ میں رکھیں. ورنہ یہ نہ ہو کے اگر ہم سے موبائل، کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے لیا جائے تو ہم ایک قدم اٹھانے کے بھی قابل نہ رہیں.
ابنِ سیّد
No comments:
Post a Comment