مذاکرات کا فیصلہ کیا ہوا بعض جگہ تو صف ماتم بچھ گئی. شاید بعض افراد امن گولی سے لانا چاہتے ہیں لیکن انکا مقصد کیسے پورا ہو جبکہ گولی کا استعمال ہی خود مزید جنگ کو فروغ دیتا ہے. تقریباً تمام میڈیا اینکرز مذاکرات کا فیصلہ ہونے کے بعد سیاست دانوں سے یہ سوال کرتے نظر آتے ہیں کہ "جب پوری قوم آپریشن کا فیصلہ توقع کر رہی تھی تو یہ مذاکرات کیسے بیچ میں آگئے" جبکہ اصل وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ حیران و پریشان ہیں کہ اتنی بڑی اور آپریشن کے حق میں بھاری انویسٹمنٹ کرنے کے بعد بھی انہیں مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہوئے اور حکومت نے مذاکرات کا دانشمندانہ فیصلہ کرلیا. اس سوال کے جواب میں حکومت کے ایک عہدیدار نے جواب دیا کہ "یہ آپکی سوچ ہوگی کہ آپریشن کا فیصلہ کرنا ہے جبکہ حکومت کے پاس موجود دونوں راستوں میں سے ایک راستے کا انتخاب کیا گیا". دوسری جانب عوام کے نمائندگان اے پی سی میں جب مذاکرات کو واحد حل قرار دے چکے ہیں تو پھر میڈیا اور دوسرے حلقوں کو آپریشن کی توقع کیوں رہی. دوسری جانب ہم نے دیکھا کہ مذاکرات کے فیصلہ کے ساتھ ہی تمام چینلز حکومتی کمیٹی اور مذاکرات کے اندر معاونت کرنے والی مذہبی شخصیات کے کردار پر پروگرام شروع ہوگئے اور بعض چینل اس میں اتنے آگے بڑھ گئے کے صحافت کے کوڈ آف کنڈکٹ کو بھی ایک جانب رکھ دیا، بیشتر ٹی وی چینل پر سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والے ان رہنماؤں کو جن کو معاونت کیلئے طالبان نے نامزد کیا تھا ان کو ببانگ دہل طالبان کمیٹی کا نام دیا جارہا ہے جبکہ اصلاً یہ ایک ثالثی کمیٹی ہے جو دونوں فریقین (حکومت و طالبان) میں رابطہ کا کام دیگی اور ان مذاکرات میں معاونت کریگی لیکن میڈیا کا کردار سوالیہ نشان ہے.
میرا خیال یہی ہے کہ اب عوام کو اس اسکرین سے آگے بڑھ کر سوچنا ہوگا اور اس جانب دیکھنا ہوگا کہ کس کی ایماء پر عوام کا ذہن دوسری جانب منتقل کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں. میڈیا کا کردار کھل کر سامنے آچکا ہے اور مختلف چینلز کی جانب سے جانبدارانہ رویہ اب انکے کردار کو مشکوک بنا رہا ہے.
ابنِ سیّد
No comments:
Post a Comment