دنیا میں کہیں بھی جنگ شروع ہو تو اس دوران دو گروپ سامنے آتے ہیں اس میں سے ایک گروپ وہ ہوتا ہے جو اس جنگ کی حمایت کرتا ہے جبکہ اس سے برعکس دوسرا گروپ وہ ہوتا ہے جو جنگ کی مخالفت کرتا ہے.
دنیا کی بڑی بڑی جنگوں کا مطالعہ کرنے اور اس میں شامل اقوام اور اسٹیک ہولڈرز کے بارے میں معلومات کرنے کے بعد آپ اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ جو افراد جنگ کی حمایت کرتے ہیں ان کے ذاتی دنیاوی مفاد اس جنگ سے وابستہ ہوتے ہیں. بیشتر مقامات پر آپکو اس قدر حیرت انگیز واقعات نظر آئیں گے جب آپکو معلوم ہوگا کہ جنگ کے حمایتیوں کی حمایت کی اصل وجہ ان کا نظریہ نہیں بلکہ اسلحہ کی خرید و فروخت سے مالی فائدہ سمیٹنا ہے لہذا اس طرح کے افراد چاہتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ دیر تک جنگ کی جائے اور ایک نہیں بلکہ کئی کئی مقامات پر جنگ کی جائے، ہتھیاروں کا بے دریغ استعمال کیا جائے کیوں کہ جتنا زیادہ ہتھیار استعمال ہوگا اور جتنی دیر تک جنگ جاری رہیگی یہ لوگ اتنا زیادہ مالی فائدہ اسلحہ کی خرید و فروخت کے ذریعہ سمیٹ سکیں گے.
تاریخ گواہ ہے کہ روس نے دس دسمبر ١٩٩٤ کو جب چیچنیا پر حملہ کیا تھا اس وقت جو آرمی جنرل جنگ کے حق میں بڑھ چڑھ کر دلائل دے رہے تھے بعد میں وہی جنرلز چیچنیا کے لوگوں سے اسلحہ کی خرید و فروخت میں ملوث پائے گئے.
امریکہ کا جنگی جنون بھی اس ہی مفاد پرستی کے جذبے کا مرہون منت ہے کیوں کہ امریکہ اس وقت دنیا میں اسلحہ سازی کا سب سے بڑا مرکز ہے.
میں نہیں چاہتا کے میں کسی ایک خاص ملک اور خاص واقعہ کی منظر کشی کرکے آپکے ذہن کے دریچوں کو قید میں ڈالوں بلکہ یہ سب بتانے کا مقصد یہ ہے کہ جب بھی جنگ کے بارے میں بات ہو تو جذباتیت سے پرے ہٹ کر اس تیسرے زاویہ سے بھی سوچیں کہ آخر وہ کون کون سے لوگ ہیں جنہیں اس جنگ سے مالی فائدہ پہنچ سکتا ہے اور پہنچ رہا ہے اور وہ کیا وجوہات ہیں جس کی وجہ سے جنگ کی حمایت کی جارہی ہے. یقیناً آپ کے سامنے کئی انکشافات ہوں گے اور صورتحال مزید واضح ہوگی.
ایک بار سوچئے گا ضرور!
ابنِ سیّد
No comments:
Post a Comment