Thursday, February 6, 2014

لبرلز انتہاپسندی

لبرلزم کا لغوی مطلب تو روشنخیالی یا آزادخیالی ہے لیکن ہر دوسری چیز کی طرح جب یہ چیز پاکستان امپورٹ ہوکر آئی تو اس کا بھی وہی حشر ہوا جو میٹروبس کے ساتھ ہوا. دیکھا جائے تو روشنخیالی کا عمومی مطلب ہے "جیو اور جینے دو" یعنی اپنے نظریات پر چلو اور دوسروں کے کام میں دخل نہ دو لیکن اصل میں ہوا کیا، پاکستان میں اور تقریباً تمام مسلمان ممالک میں لبرلزم کے حامی بزورِ قوت اپنا ایجنڈا نافظ کرانے کے چکر میں رہے اور اس میں عوامی حمایت کا خیال رکھنا تو درکنار آمروں کا ساتھ دینے میں بھی نہ چوکے! اپنے اچھوتے کردار اور منہ پھٹ رویّہ کی وجہ سے ذرائع ابلاغ میں یہ مناسب کوریج پالیتے ہیں. ان کی انہیں کوششوں کی وجہ سے روشنخیالی کو اب خام خیالی کہا جائے تو بہتر رہیگا. آئیں ان کے چند خدّوخال کا جائزہ لیتے ہیں ...
عسکریت پسندی ہمارے ملک کا دیرینہ مسئلہ ہے اگر کسی لبرل سے پوچھا جائے تو وہ سارے تانے بانے افغان جہاد اور ضیاالحق سے جوڑے گا لیکن کیا کسی کو معلوم ہے کہ الذوالفقار نامی عسکری تنظیم کی بنیاد رکھنے والے ہمارے نہایت ہی لبرل اور پروگریسیو جناب بھٹو صاحب تھے،تو صاحبو! ایک نان اسٹیٹ ملٹری ونگ اور اسکی نمود ونما کا شاخسانہ لبرلز سے جا کر ملتا ہے. اور یہ وہی تنظیم ہے جِسکے کامریڈ جناب ٹیپو نے پی آئی اے کے طیارے کی ہائی جیکنگ کا کارنامہ سرانجام دیا تھا. اب ان سے پوچھا جائے تو کہیں گے کہ وہ تنظیم تو ایک آمر کے خلاف بنی تھی لیکن کوئی یہ پوچھے کے کیا ایک فرد کی قانون شکنی کے جواب میں دوسرے کو بھی قانون کی دھجّیاں اڑانا جائز ہوجاتا ہے، شاید اس نام نہاد لبرلزم کے اصول و ضوابط میں وضع ہو!
کیپیٹل پنشمنٹ جس میں ریاست خود ایک فریق بن جاتی ہے. ساری دنیا میں یہ ایک متنازعہ موضوع ہے لہذا اس حوالے سے یہ ہی رائے بہتر ہے کہ کوئی تیسری قوت (تھرڈ پارٹی) ان مقدمات کا فیصلہ کرے جیسے یو این او وغیرہ لیکن بنگلہ دیش کے کیس میں ہم نے دیکھا کہ جب پاکستان میں پارلیمنٹ میں عبدالقادر مولاہ کی سزا کیخلاف قرارداد منظور ہوئی تو اس کی سب سے زیادہ مخالفت لبرلز کی جانب سے آئی جبکہ ساری دنیا میں لبرلز کیپیٹل پنشمنٹ کیخلاف ہیں. دوسری جانب سزائے موت کے قانون کے حوالے سے ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان میں لبرلز سزائے موت کے قانون کیخلاف تحاریک چلاتے رہے لیکن اس کے ساتھ ہی ایک کھلا تضاد یہ دِکھنے میں آیا کہ پچھلے دس سالوں میں کسی کو سزائے موت نہیں ملی جس میں بعض جہادی تنظیم کے سرکردہ افراد ہیں اور ایک ان میں ممتاز قادری بھی ہیں ان کے معاملے میں لبرلز کی جانب سے کافی پریشر ڈالا جاتا ہے کہ سزائے موت دی جائے. یعنی سزائے موت والے موقف سے اس صورت میں منہ پھیر لیتے ہیں جب مجرم کسی دائیں بازو کا ہو!
یہی دوہرا رویہ ملٹری آپریشن کے معاملے میں بھی نظر آتا ہے، جب کوئی اسلام کا نام لے کر قانون کو ہاتھ میں لے تو اس پر ان کا موقف ہوتا ہے کہ ایسے افراد کو جینے کا حق نہیں نہ ہی صفائی پیش کرنے کا حق ہے لہذا آپریشن کردیا جاۓ چاہے اس میں بیگناہ مارے جائیں. لیکن جب یہی قانون کو ہاتھ میں لینے والی حرکت کرنے والا کوئی گروہ اگر قوم پرست، کمیونسٹ یا اشتراکیت کا علم بردار ہو تو یہی لبرلز ملٹری آپریشن کی مخالفت اور مذاکرات کی راہ ہموار کرتے دکھائی دیتے ہیں.
الغرض، چاہے وہ قائداعظم کے اسلامی پاکستان کس تصور ہو، یا نصاب میں اسلامی اسباق کی شمولیت یا پھر حدود آرڈیننس کا معاملہ ہو، ان کی کوششیں ہمیشہ الٹی گنگا بہانے میں صرف ہوتی ہیں.
ایک دفعہ ایک دوست نے دیسی لبرلز کی تعریف ان الفاظ میں واضح کی تھی کہ گھر میں جس بچے پر والدین کم توجہ دیتے ہیں وہ اونگ پٹانگ حرکات کرکے والدین کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے. پاکستانی معاشرے میں بھی دیسی لبرلز کا معاملہ اس بچے جیسا ہے!
ابنِ سیّد

No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...

Facebook Comments