آپ موٹر سائیکل پر بیٹھے اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہیں کہ ٹریفک سگنل بند ہوجاتا ہے. سرخ بتّی جل رہی ہے اور اتفاق سے آپکو جگہ بھی سب سے آگے ملی ہے. سگنل بند ہے لیکن آپکے پیچھے گاڑیوں کے ہارن بدستور بج رہے ہیں، یہ ہارن آپکو سگنل توڑ کر آگے چلنے کا کہتے ہیں. بعض دفعہ کوئی بڑی گاڑی اور کبھی ٹرک آپکے پیچھے کھڑا ہوتا ہے. اپنے چنگھاڑتے ہارن بجانے کے ساتھ ساتھ یہ ہلکا ہلکا آگے بڑھتے ہیں اور ایکسیلیٹر پر دباؤ پڑتا ہے، انجن کی زور دار گھن گرج اور آپکے ماتھے پر چمکتا پسینہ آپکی ذہنی اور جسمانی کوفت کا پتا دیتا ہے. اس طرح کی صورتحال بھی قریب آجاتی ہے جب آپ اپنے پیچھے موجود لا تعداد گاڑیوں کے ہارن اور شور سے پریشان ہو کر سگنل توڑ دیتے ہیں اور آگے بڑھ جاتے ہیں،اور سارا ٹریفک آپکے پیچھے چل پڑتا ہے ...
دنیا بھی اس ہی طرح کا ٹریفک ہے، آپ اس کڑے دور میں جہاں ہر دوسرا شخص چھوٹے بڑے گناہوں میں ملوث ہو، جہاں برائی کا اس قدر ریلا آئے کہ آپکو اپنا آپ اس سے بچانا مشکل ہوجائے اور جب آپ ان گناہوں سے بچ رہے ہوں تو بجاۓ تعریف کے ہر طرف سے طعنوں کی بھرمار شروع ہوجاتی ہے، کبھی مولوی ہونے کا طعنہ ملتا ہے تو کبھی دقیانوسی، بنیاد پرستی اور بیک ورڈنیس کا طعنہ. گناہوں کا اس قدر زور ہوتا ہے کے قریب ہوتا ہے کہ اس پیچھے سے آنے والے بھاری ٹریفک سے پریشان ہو کر سگنل توڑ کے آگے بڑھ جائیں. لیکن یہی تو آزمائش ہے. یہی تو وہ بھٹّی ہے جس سے گزرنے کے بعد تانبا تپ کر کندن ہوتا ہے.
صرف عمل نہیں بلکہ رائے عامّہ کے حوالے سے بھی دیکھیں جب ایک غلط رائے اس قدر عام ہوجائے بلکہ دوسرے الفاظ میں جھوٹ اس قدر بولا جائے کے سچ کا سا گمان ہونے لگے. ایسے حالات میں جب سب افراد کی رائے عامّہ مل کر ایک طوفان کی شکل اختیار کرلے اور قریب ہوجائے کہ حق بات کا پرچار کرنے والے بھی اس پراپیگینڈے کا شکار ہونے لگیں. ایسے حالات میں سچ بولنے والے کی حالت اس ہی سگنل پر سب سے آگے کھڑے بائیک والے کی سی ہے جس کے پیچھے دنیا جہاں کا ٹریفک کھڑا شور مچا رہا ہو.
صرف عمل نہیں بلکہ رائے عامّہ کے حوالے سے بھی دیکھیں جب ایک غلط رائے اس قدر عام ہوجائے بلکہ دوسرے الفاظ میں جھوٹ اس قدر بولا جائے کے سچ کا سا گمان ہونے لگے. ایسے حالات میں جب سب افراد کی رائے عامّہ مل کر ایک طوفان کی شکل اختیار کرلے اور قریب ہوجائے کہ حق بات کا پرچار کرنے والے بھی اس پراپیگینڈے کا شکار ہونے لگیں. ایسے حالات میں سچ بولنے والے کی حالت اس ہی سگنل پر سب سے آگے کھڑے بائیک والے کی سی ہے جس کے پیچھے دنیا جہاں کا ٹریفک کھڑا شور مچا رہا ہو.
ایسے وقت میں بس یہ سوچا جائے کے دنیا اور دنیا والوں کی ناراضگی زیادہ نقصان دہ ہے یا دنیا و آخرت میں اللہ تعالی کی ناراضگی. یقیناً آپکو اس کا جواب مل جائے گا.
ذرا سوچئے گا ضرور!
ابنِ سیّد
No comments:
Post a Comment