ایک رات اور گزر چکی ہے، مگر غم ابھی تک تازہ ہے، وہی بے چینی، وہی بے کلی، اپنے ایک مسلمان تحریکی ساتھی کے بچھڑ جانے کی اطلاع پر ابھی تک یقین کرنے کا دل نہیں کر رہا. سوچتا ہو دل کیوں بُجھا بُجھا سا ہے اس طرح کا غم اس دن بھی طاری ہوا تھا جب لال مسجد کے در و دیوار خون سے رنگین ہوئے تھے اور ایک خبر آئی تھی کہ غازی عبدالرشید ہلاک کردیے گئے. میرا دل اس دن بھی غم سے بوجھل ہوا تھا جب میں نے سنا کہ صدر مرسی کو قید کیا گیا. میں اپنے دل کو اسامہ بن لادن اور حکیم اللہ کی شہادت کے دن بھی نہ قابو کر سکا، یہ دل اس دنیا کے ضوابط نہیں مانتا جس میں ہم رہ رہے ہیں. شیخ احمد یاسین کی شہادت بھی یاد ہے، ایک معذور شخص سے کیا لینا دینا انکا لیکن انکی اصل دشمنی نظریہ سے ہے. اور جب تک نظریہ زندہ رہیگا اس نظریہ کا حق ادا کرنے والے بھی پیدا ہوتے رہیں گے اور حق اور باطل کا یہ معرکہ بھی جاری رہیگا. دنیا سمجھتی ہے شاید چند جانوں کو ہلاک کر کے نظریہ دبایا جا سکتا ہے. ارے احمقوں! ہزاروں لاکھوں بھی شہید کردو مگر یہ نظریہ نہیں مرنے والا کیوں کہ یہ نظریہ قرآن سے لیا گیا ہے اور قرآن ہمیشہ قائم رہے گا اور یقیناً ہمارا نظریہ بھی. اور مرنے والی ہر لاش سے صرف اللہ اکبر کی صدا بلند ہوگی.
اَحد احد احد
No comments:
Post a Comment