بعض لوگوں کا مذہبی بحثوں میں پہلا جملہ یہ ہوتا ہے کہ آپ ڈنڈے کے زور پر لوگوں کو اسلام کی جانب نہیں مائل کر سکتے. یہ غلط ہے وہ غلط ہے اور درپردہ اس کے بعد اس کی آڑ میں اسلامی احکامات کو لتاڑنا شروع کردیتے ہیں.
اسلام کبھی بھی اس چیز کا حمایتی نہیں رہا کہ ایک اسلامی حکومت بھی چلتی رہے اور اس کے نیچے لوگ گناہ میں مبتلا زندگیاں گزاریں. اسلام کا تصوّر حکومت وہی سسٹم ہے جہاں تمام افراد اسلامی احکامات و قوانین کی پابندی کر کے زندگی گزاریں یہ کبھی نہ ہو سکے گا کہ گناہ کے کاروبار بھی آباد رہیں اور اس کو آزاد خیالی کا نام دیا جائے بہرحال لیبل لگانے سے ہیئت نہیں بدل جاتی. جہاں پر شریعت کے منافی کام ہوگا اس کی روک تھام کے لئے مناسب اقدام ایک اسلامی حکومت کا فرض ہے.
اور اسی سے بات آگے بڑھا کر لوگ افغانستان میں طالبان کی حکومت کو اس آیت کے مخالف قرار دے کر باطل قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں.
سب جانتے ہیں کوئی بھی معاشرہ قوانین کے بغیر نہیں چلتا اور ان قوانین کی پابندی کرانے کیلئے ایک فورس ضروری ہے. اب چاہے وہ پولیس ہو یا فوج یا ایف سی وغیرہ کام انکا قوانین کو لاگو کرانا ہے اور اگر کوئی ان قوانین کے مخالف جائے تو یقیناً اس پر الزام عائد ہوگا اور عدالت میں ثابت ہونے پر اس کو سزا دی جائیگی. یقیناً یہاں تک کسی کا اختلاف نہیں.
یہی چیز تو طالبان نے کی اقتدار انکے پاس تھا لہذا اسلامی اور قرآنی قوانین کے حساب سے جو اس کے خلاف جاتا تو اس کو اس ہی حساب سے جرم ثابت ہونے پر سزا دی جاتی. اب یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ایک ملک میں جرائم کی روک تھام اگر پولیس کرے تو کسی کو کوئی اعتراض نہیں لیکن جب یہی کام افغانستان میں منصبِ اقتدار پر فائز طالبان کریں تو اسے "لا اکراہ فی الدین" کے منافی گردانا جان کر اس پر جبر اور ظلم کا لیبل چسپا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے.
ابنِ سیّد
(درج بالا مضمون ایک اسلامی احکام کے بارے میں ہے، اگر اس میں کوئی بات غلط لکھ دی گئی ہے تو ضرور تصحیح فرمادیں. جزاک اللہ)
No comments:
Post a Comment