سیاسی ٹاک شوز میں آج کل بات چل رہی ہے کہ پاکستانی سیاست کے نئے چہرے کیا ہونگے. یہ باتیں کر رہے ہیں بلاول زرداری کے بارے میں جو آج کل پاکستانی سیاست سیکھ رہا ہے (اردو بھی سیکھنا چاہئے). یہ بات کر رہے ہیں حمزہ شہباز اور مریم نواز کے بارے میں، فاطمہ بھٹو کے بارے میں کہ شاید یہ پاکستان میں سیاست کے اگلے چہرے ہوں. دوسری جناب پاکستان کے عوام ہمیشہ سیاست دانوں سے یہ شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ یہ موروثی سیاست ٹھیک نہیں اور باپ کے بعد بیٹا بیٹی اور بھائیوں کے بجاۓ دوسرے زیرک سیاسی کارکنان کو موقع دیا جانا چاہئے. دوسری جانب ہم دیکھتے ہیں بعض اسلامی تنظیمیں انکا حال بھی ایسا ہی ہے جمعیت علماء اسلام (ف) مولانا فضل الرحمن کے والد کے بعد وہ بنے، جمعیت علماء پاکستان میں مولانا نورانی کے بعد انکے بیٹے انس نورانی اور اویس نورانی سامنے آئے.
لیکن ایک جماعت ہے جو موروثی سیاست کی نا صرف زبانی بلکہ عملی طور پر بھی مخالفت کرتی ہے. جماعت اسلامی! جہاں مولانا مودودی کے بعد میاں طفیل (جن کا مودودی صاحب سے صرف اسلامی بھائی چارے کا رشتہ تھا)، بعد کے امراء میں قاضی حسین احمد اور اب منور حسن اور یقیناً یہ خالص جمہوری رویّہ ہی جماعت کا خاصہ ہیں. پاکستانی عوام کو بھی اب یہ شعور حاصل کرنا چاہئے کہ اب ان جماعتوں کا ساتھ چھوڑ کر ان جماعتوں کا ساتھ دیں جہاں ایک کارکن ترقی کرتا جماعت کا امیر بن جائے.
سیاسی جماعتوں کے علاوہ:
اور آخر میں چند غیر سیاسی لوگوں کے اقوال، واصف علی واصف صاحب کا کہنا ہے کہ گدّی نشینی کے موروثی تصوّر کو بھی تبدیل ہونا پڑیگا، کیوں کہ اگر نبوت و خلافت موروثی بنیاد پر نہیں تو گدّی نشینی کیسے ہوسکتی ہے.
یہ بھی کسی سے سنا ہے کہ اشرف المدارس کے الحاج حکیم اختر صاحب نے بھی وفات سے پہلے اپنے ایک "شاگرد" کو اپنی مسند کیلئے پسند کیا.
اور آخر میں چند غیر سیاسی لوگوں کے اقوال، واصف علی واصف صاحب کا کہنا ہے کہ گدّی نشینی کے موروثی تصوّر کو بھی تبدیل ہونا پڑیگا، کیوں کہ اگر نبوت و خلافت موروثی بنیاد پر نہیں تو گدّی نشینی کیسے ہوسکتی ہے.
یہ بھی کسی سے سنا ہے کہ اشرف المدارس کے الحاج حکیم اختر صاحب نے بھی وفات سے پہلے اپنے ایک "شاگرد" کو اپنی مسند کیلئے پسند کیا.
ابنِ سیّد
(میرے الفاظ حرفِ آخر نہیں اگر اس تحریر میں کوئی تصحیح یا اضافہ ہو سکے تو ضرور کیجئے. جزاک اللہ)
No comments:
Post a Comment