ہم دنیا میں غلامی کے خاتمے کیلئے بڑی بڑی تحریکیں چلاتے ہیں لیکن کیا کسی نے اس بات کا بھی بغور جائزہ لیا کہ ہماری موجودہ زندگیاں بھی تو غلامی سے کم نہیں، صبح اٹھ کے آفس جانا، نو دس گیارہ گھنٹے کے بعد واپس آنا،اور اسکے نتیجے میں کھانا رہائش بمشکل پورا ہونا. اور اس ہی شیڈیول کی پابندی کرتے ہوئے اسی ایک چکر میں کولہو کے بیل کی طرح گھومتے رہتے ہوئے بھی ہم خود کو آزاد سمجھتے ہیں. ہم اپنی خواہشات کے برعکس ساری زندگی وہ کام کرتے رہتے ہیں جو ہمیں ایک آنکھ نہیں بھاتا،اس کام سے واپس لوٹنے کے بعد ہم ذہنی طور پر نہ صرف تھکے ہوئے ہوتے ہیں بلکہ بے اطمینان بھی ہوتے ہیں. یہی تو ذہنی غلامی ہے بیشک ہمارے ہاتھوں اور پاؤوں میں زنجیر نہیں لیکن اس روزانہ کے شیڈیول سے ایک انچ بھی آگے پیچھے ہوتے ہوۓ ہمیں کئی بار سوچنا پڑتا ہے. اس نظامِ غلامی نے ہماری سوچ کو صرف اتنا محدود کر دیا کہ ہماری بات چیت میں صرف اس بات کا ذکر ہوتا ہے کہ کس چیز کی قیمت بڑھی اور کس کی قیمت بڑھنے والی ہے. مگر اس سب کے باوجود بھی ہم اگر خود کو ایک آزاد فرد تصور کریں تو اچنبھے کی بات ہے...
(ابن سیّد)
No comments:
Post a Comment