یہ ان دنوں کا واقعہ ہے جب ہمارا ملک گوں نا گوں کیفیات سے گزر رہا تھا یہ وہی دور تھا جس کو بڑے لوگ تاریخ کا نازک ترین موڑ کہتے ہیں جب پاکستان میں ہر طرف خوف کا راج تھا عوام بھوکی مرتی تھی ایسے میں ایک سالارِ اعظم سامنے آیا اور اس نے پاکستان کو ملک کے وسیع تر مفاد میں مشرف با مشرف کیا. یہ شخص جو ایک نڈر سپاہی تھا اب قوم کی امیدوں کا مرکز بنا! اس کے اقتدار میں آتے ہی امریکہ، انڈیا، اسرائیل کے ایوان ہل کے رہگئے. جب امریکہ نے اس کو فون کر کہ کہا ک پتھر کے دور میں پہنچا دونگا تو اس نے پاکستانی فلم کے ہیرو کی طرح للکار کر کہا "نہیییییییں" اور پھر گرج کر "سب سے پہلے اسلام" کا نعرہِ مستانہ بلند کردیا. آخر کار امریکہ کو اس کے قدموں میں بیٹھنا پڑا. اور جب امریکہ نے کہا کہ وہ افغانستان پر حملہ کریگا تو اس بہادر سالار نے کہا کہ "ہماری لاشوں سے گزرنا پڑیگا" اور جب امریکہ نے ڈرون کے لئے ہوائی اڈا مانگا تو اس نے تاریخی جملہ کہا "میں خود کو مسلمانوں کا قاتل نہیں کہلانا چاہتا" اور جب امریکہ نے کہا کہ ہمیں نیٹو سپلائی لیجانے کا رستہ دو تو اس نے کہا کہ اگر اس پاک سرزمین سے مسلمانوں کے قتل کا سامان گزرا تو میرے منہ پر لعنت. انہی دنوں ملکی چینلوں پر نت نئے پروگرامات آئے جس میں لوگوں کو اسلام کا درس دیا جاتا. تمام ملک کے لوگ اسلام کے سچے پیروکار بن گئے اور مخلوط میراتھن جیسی چیزوں کا بائیکاٹ کردیا. اس نے ملک کی وفادار جماعتوں کے ساتھ وفا کی اور انہیں کراچی میں امن کا چارج دیا جس کے بعد کراچی میں امن کا راج ہوا اور ٹارگٹ کِلّر بھوکوں مرنے لگے. بھتّہ دینے والے ڈھونڈتے پھرتے تھے مگر کوئی بھتہ لینے والا نہ ملتا.
یہی وہ شخص تھا کہ جب رخصت ہوا تو قوم.کی آنکھوں میں آنسو تھے اور وہ دامن پھیلا پھیلا کر دعائیں دے رہے تھے. دعائیں؟ جی ہاں دعائیں!
Note: All characters appearing in this work are fictitious. Any resemblance to real persons, living or dead, is purely coincidental.
No comments:
Post a Comment