بچپن کی بات ہے جمعہ کے دن چھٹی ہوتی تھی لہذا کھانے پر جمعہ کے اخبار پر بات چیت ہوجایا کرتی تھی. بہرحال موضوع کی جانب آتے ہیں آپکو یاد ہوگا جنگ اخبار میں دینی سوال جواب کا حصہ ہوتا تھا جس کے جواب یوسف لدھیانوی صاحب دیا کرتے تھے (انکے بعد مولانا سعید احمد جلالپوری دینے لگے، شاید اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے). ایک دفعہ اخبار میں کچھ اس طرح کا سوال آیا کہ، "اگر ایک شخص کو دنیا میں اسکے جرم کی سزا دی جاتی ہے تو اسکو آخرت میں سزا کیوں ملے گی اور اگر آخرت میں ملے گی تو عذاب قبر جیسا ایڈوانس کیوں ..." اِس طرح کا سوال اور الفاظ کا چناؤ پڑھ کر افسوس بھی ہوا اور دل میں خیال آیا کہ کیا کوئی مسلمان ایسا ہو سکتا ہے جو اللہ کا حکم سن نے کے بعد بھی "کیوں؟" پوچھنے کی جسارت کرے. اس دن ہمارے اس ڈسکشن کا حاصل یہی رہا تھا کہ شاید کچھ غیر مسلم افراد اس طرح کے سوالات بھیجتے ہوں کیونکہ اس وقت تک میں لبرلز، سیکیولرز، اور روشنخیال جیسی مخلوق سے آشنا نہیں تھا... ہمیں کیا خبر تھی کہ ایک دور ایسا بھی آئے گا کہ "سوال" تو کیا کچھ لوگ اس طرح کے ہونگے جو خود کو مسلمان کہتے ہوئے بھی اسلام کے احکامات اور اللہ کے فرمان پر نعوذباللہ انگلی اٹھائیں گے، اس پر تنقید کرینگے اور ان احکامات سے بغاوت کرینگے. مسلم کا تو مطلب ہے جُھک جانے والا یعنی وہ جو اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہر حکم کے آگے سر تسلیم خم کردے. اور جب اللہ کا حکم آجائے تو پھر ہر سوال کا جواب یہی ہونا چاہئے "کیوں کہ اللہ کا حکم ہے!"
واللہ اعلم
ابنِ سیّد