Thursday, November 28, 2013

کیوں کا جواب ...

بچپن کی بات ہے جمعہ کے دن چھٹی ہوتی تھی لہذا کھانے پر جمعہ کے اخبار پر بات چیت ہوجایا کرتی تھی. بہرحال موضوع کی جانب آتے ہیں آپکو یاد ہوگا جنگ اخبار میں دینی سوال جواب کا حصہ ہوتا تھا جس کے جواب یوسف لدھیانوی صاحب دیا کرتے تھے (انکے بعد مولانا سعید احمد جلالپوری دینے لگے، شاید اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے). ایک دفعہ اخبار میں کچھ اس طرح کا سوال آیا کہ، "اگر ایک شخص کو دنیا میں اسکے جرم کی سزا دی جاتی ہے تو اسکو آخرت میں سزا کیوں ملے گی اور اگر آخرت میں ملے گی تو عذاب قبر جیسا ایڈوانس کیوں ..." اِس طرح کا سوال اور الفاظ کا چناؤ پڑھ کر افسوس بھی ہوا اور دل میں خیال آیا کہ کیا کوئی مسلمان ایسا ہو سکتا ہے جو اللہ کا حکم سن نے کے بعد بھی "کیوں؟" پوچھنے کی جسارت کرے. اس دن ہمارے اس ڈسکشن کا حاصل یہی رہا تھا کہ شاید کچھ غیر مسلم افراد اس طرح کے سوالات بھیجتے ہوں کیونکہ اس وقت تک میں لبرلز، سیکیولرز، اور روشنخیال جیسی مخلوق سے آشنا نہیں تھا... ہمیں کیا خبر تھی کہ ایک دور ایسا بھی آئے گا کہ "سوال" تو کیا کچھ لوگ اس طرح کے ہونگے جو خود کو مسلمان کہتے ہوئے بھی اسلام کے احکامات اور اللہ کے فرمان پر نعوذباللہ انگلی اٹھائیں گے، اس پر تنقید کرینگے اور ان احکامات سے بغاوت کرینگے. مسلم کا تو مطلب ہے جُھک جانے والا یعنی وہ جو اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہر حکم کے آگے سر تسلیم خم کردے. اور جب اللہ کا حکم آجائے تو پھر ہر سوال کا جواب یہی ہونا چاہئے "کیوں کہ اللہ کا حکم ہے!"
واللہ اعلم

ابنِ سیّد

Wednesday, November 27, 2013

این ای ڈی یونیورسٹی کا ایک واقعہ


این ای ڈی یونیورسٹی کے دور میں جمعیت کے پلیٹ فارم سے ہم داخلہ ٹیسٹ والے دن طلبہ کی رہنمائی کیلئے کیمپ لگایا کرتے تھے. اس دوران تقریباً تمام طلبہ تنظیمیں بھی اسی مقصد کی خاطر کیمپ لگا کر طلبہ کی رہنمائی میں مصروف ہوتے تھے.دس بارہ تنظیموں کے کیمپ اور انکے کئی سو کارکن، ایک میلے کا سا سماع ہوا کرتا تھا.
ایک دفعہ ہر سال کی طرح ٹیسٹ والے دن جمعیت نے کیمپ لگائے. میں انہی کیمپوں میں سے ایک کیمپ پڑ کھڑا تھا کہ ایک طالب علم میرے پاس آیا اور اپنا موبائل جو کہ کافی قیمتی تھا میری جانب بڑھا کر بولا کہ میرے ابو سے بات کرلیں. اس شخص کو میں زندگی میں پہلی دفعہ دیکھ رہا تھا. بہرحال اس کے والد سے بات کی تو کہنے لگے کہ یہ موبائل اپنے پاس رکھیں (ٹیسٹ میں آپ موبائل اندر نہیں لیجا سکتے) میں آپ سے آ کر لے لونگا. انہوں نے نام پوچھ کر فون بند کردیا. وہ لڑکا اپنا موبائل مجھے امانتاً چھوڑ کر ٹیسٹ دینے چلا گیا جس کے کچھ دیر بعد اس کے والد میرا پوچھتے ہوئے آۓ اور موبائل وصول کیا کچھ دیر کیمپ میں بیٹھے اور چلے گئے.
انکے جانے کے بعد مجھے اندازہ ہوا کہ جمعیت اور جمعیت کے کارکنان پر ایک عام فرد کتنا بھروسہ کرتا ہے.جہاں اتنی ساری تنظیمیں اپنے کیمپ لگا کے بیٹھیں تھیں اس شخص نے اپنی قیمتی شے کو رکھونے کیلئے جمعیت کو ہی اتنا امانت کا پاسدار سمجھا.

ابنِ سیّد
 

Monday, November 25, 2013

غلطیاں لاتعداد، مگر حل کیا ہے؟

غلطیاں لاتعداد، مگر حل کیا ہے؟

مجھے اچھی طرح یاد ہے پہلا ڈرون حملہ ہوا تھا، یہ باجوڑ کا ایک مدرسہ تھا. اس میں تقریباً اسّی طلباء تھے جو موقع پر شہید ہوئے جبکہ زخمیوں کی ایک بڑی تعداد ہوئی. اس موقع پر بعض افراد نے یہ کہہ کر غلط بیانی کی کہ اس علاقہ میں آبادی نہیں لیکن باجوڑ کے ایک رکن قومی اسمبلی نے اسمبلی میں کھڑے ہو کر کہا کہ وہاں آبادی ہے اور اس آبادی کے قریب ہی مدرسہ ہے جس کو نشانہ بنایا گیا اور بے گناہ افراد کو شہید کیا گیا ہے. اس وقت مذہبی اور محب وطن جماعتوں نے "گو امریکہ گو" اور "جو امریکہ کا یار ہے غدار ہے" کا نعرہ بلند کیا جس کا ابتداء میں چند افراد و جماعتوں نے استہزاء اڑایا مگر آج یہ نعرہ ہماری قومی بقا کا نعرہ بن گیا ہے. جب ہمارے ملک کے ایک بڑے شہر سے ایک امریکی شہری نے چند افراد کا قتل کیا لیکن افسوس اس قاتل کو راہِ فرار دی گئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انکی ہمت بڑھی اور انہوں نے ہمارے ملک میں کھلے عام کاروائیاں شروع کردیں. ایبٹ آباد کا واقعہ ہوا جس پر ہمارے حکمرانوں نے کہا "گریٹ وکٹری"، مگر بعد کے واقعات نے ثابت کیا کہ وہ "گریٹ ڈیفیٹ" تھی. اس کے بعد ملک میں کھلے عام غیر ملکی ایجنٹ گھومتے رہے مگر ہم ان سے سوال نہ کر سکے. اسلام آباد کی سڑک پر تین چار امریکی ایک جعلی نمبر پلیٹ والی گاڑی میں پکڑے جاتے ہیں مگر سفارت خانے کی ایک کال پر انہیں چھوڑ دیا جاتا ہے. ممکن ہے وہی امریکی کہیں حملہ یا دھماکہ کردیں اور بھاگ جائیں تو ہم اس کیس کو طالبان سے منسوب کردیتے ہیں تاکہ فائل بھی دب جائے اور کیس بھی انجام کو پہنچ جائے، ہم ممکنات کی نفی نہیں کرسکتے.
ہم اس ملک میں ایک وسیع و عریض امریکی ایمبیسی کی تعمیر کی اجازت دیتے ہیں جس میں سات سو افراد کی رہائش کا انتظام ہے. ہمارے اہلکار اس میں پَر بھی نہیں مار سکتے، ہم انہیں پورا موقع فراہم کر رہے ہیں کہ وہ ہمارے علاقوں میں پھریں گھومتے رہیں، گاؤں دیہات قبائلی علاقہ جات و  مضافات میں مٹرگشت کریں ان علاقوں میں جائیں جہاں ہم نہیں جا سکتے ان افراد سے بات کریں جن سے ہم نہیں مل سکتے اور پھر ہم حیران ہیں کہ ان دہشتگردوں کو "بیرونی مدد" کہاں سے مل رہی ہے. شَک ہم انڈیا پر کرتے ہیں جبکہ اس بیرونی مدد کو ہم نے پناہ دارلحکومت میں غیرملکی ایمبیسیوں میں دے رکھی ہے.
ہم نے صلیبی جنگ میں صلیب کا ساتھ دیا، مسلمان ہوتے ہوئے صلیبیوں کو رسد پہنچائی، افغانستان میں ان کے ہاتھ مضبوط کئے، اور اپنے افغان بھائیوں کے قتلِ عام میں امریکی اور نیٹو کی افواج کا ہاتھ بٹایا. اس کے باوجود ہم یہ توقع کرتے ہیں کہ افغان عوام ہم پر بھروسہ کرینگے. ہم نے یہ نہ سوچا کہ لاکھوں افغانی اس ملک میں مہاجرانہ زندگی بسر کر رہے ہیں ہمارے امریکیوں کو مدد کرنے پر وہ بھی بگڑ سکتے ہیں، افغانستان میں اگر انکا رشتہ دار مارا جائے تو انتقامی جذبے میں آکر وہ بھی ملوث ہوسکتے ہیں ہم نے اس بات کو سمجھے بغیر جنگ میں چھلانگ ماری اب اندر باہر ہر طرف سے دشمن مار رہا ہے اور ہمیں پتہ ہی نہیں چلتا کہ کون مار رہا ہے اور ہم حیران ہیں کہ ہم پر حملے کیوں ہوتے ہیں اور ماننے کو تیار نہیں کہ یہ غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہیں اور ان غلط پالیسیوں کو سدھارنے کے بجاۓ نئی پالیسی بنانے کو مسئلہ کا حل سمجھ رہے ہیں، نتیجہ صفر!
ایک ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود بھی دنیا کی بڑی فوج ہونے کے باوجود بھی، ہم بحیثیتِ قوم کسی سے آنکھ اٹھا کر بات نہیں کرسکتے. اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا جس کا مفہوم ہے کہ ایک وقت آئیگا کہ غیرمسلم اقوام تم پر اس طرح ٹوٹ پڑیںگی جیسے بھوکا دسترخوان پر جبکہ اس وقت افرادی طاقت میں بھی سمندری جھاگ کی مانند ہونگے. شاید وہ وقت آچکا ہے.
وجہ کیا ہے؟ ہم نے اسلام کا سبق بھلا دیا ہم نے ملتِ اسلامیہ کے فلسفہ کو پسِ پردہ ڈال دیا، ہر کام بنا سوچے کیا نتیجہ یہ کہ اللہ نے ہم پر بحیثیت قوم ذِلت مقرر کردی. اب حل صرف یہ ہے کہ اپنی شناخت اپنی بنیاد اسلام کی جانب پلٹنا ہوگا. ہمیں اسلام کے مطابق فیصلے کرنے پڑینگے ہمیں اپنے مسائل کا حل اسلام میں تلاش کرنا پڑیگا جب ہی ممکن ہے کہ اللہ ہم سے راضی ہوگا اور ہمیں عروج کی جانب لیجائیگا.

ابنِ سیّد

میری بنائی ہوئی ویبسائٹ - Error 404

 میری بنائی ہوئی ویبسائٹ
Erorr-404
 
یہ لکھتے ہوئے مجھے بہت عجیب لگ رہا ہے لیکن شاید یہ پڑھ کر کسی کی اصلاح ہوجائے لہذا اس نیت سے بیان کئے دے رہا ہوں ...
میں نے تقریباً گیارہ سال کی عمر میں کمپیوٹر کا استعمال شروع کیا. تیرہ سال کی عمر میں انٹرنیٹ کا استعمال، ویب ڈیزائننگ بھی اسی دور میں شروع کی، اس ہی درمیانی عرصہ کی بات ہے میں نے ایک ویب سائٹ بنائی، اس وقت اتنا کچھ دین کا علم نہیں تھا لہذا اس ویبسائٹ میں گانوں، گلوکاروں کے حوالے سے بھی کافی لِنک اور مواد رکھا ہوا تھا.
زندگی رواں ہوگئی اور ہم پڑھائی وغیرہ میں مصروف، کچھ دن پہلے عرصہ بعد دوبارہ اس ویبسائٹ کا خیال آیا. چیک کرنے پر پتا چلا کہ Geocities جو کہ یاھو! کا پراجیکٹ تھا وہ بند ہوچکا ہے. ایک پرائیوٹ ویبسائٹ Oocities نے وہ تمام پیجس اپنے پاس آرکائیو کرلئے ہیں.
Oocities.com/owaisjal کھول کے دیکھا تو میری بنائی ہوئی ویبسائٹ میرے سامنے تھی کافی دیر تک دیکھتا رہا، تمام پیج دیکھے، عجیب و غریب نقش و نگاریاں اور جاوا اسکرپٹس کی کارستانیاں دیکھتا رہا. پھر گانوں کے لِنکس پر نظر پڑی، کچھ دیر سوچا اور پھر Oocities کے مین پیج پر گیا سامنے ہی لکھا تھا کہ ہم آپکی پرائیوسی کی قدر کرتے ہیں اگر آپ اپنی ویبسائٹ بند کرنا چاہیں تو رابطہ کریں. میں نے ای میل میں لکھا کہ میں یہ ویبسائٹ ختم کرنا چاہتا ہوں، جواب آیا کہ کوئی مخصوص پیج یا تصویر یا لِنک یا پھر مکمل ویبسائٹ؟ مکمل ویب سائٹ، میرا جواب تھا!  کچھ دن بعد کسی ششمیتا کی ای میل موصول ہوئی جس میں لکھا تھا کہ وہ ویبسائٹ نہ صرف ویب بلکہ ان کہ ریکارڈ، آرکائیو سے بھی ہٹا دی گئی ہے.
اس مرتبہ لِنک کھول کر دیکھا تو Error 404 سامنے آگیا. دل کو تسلی سی ہوئی، اپنی تخلیق کی گئی چیز کو ختم کرنا جیسا فیصلہ کرنا مشکل کام ہے لیکن جو خالقِ کائنات کی مرضی ہو اسکے سامنے سر تسلیم خم کردینا ہی صحیح ہے.
شاید اس سے ان لوگوں کو کچھ احساس ہو جو انٹرنیٹ پر اچھی بری ہر طرح کی چیز کچھ سوچے بغیر ڈال دیتے ہیں یہ سوچے بغیر کہ اس کے اثرات کیا ہونگے. اگر آپ کی بھی ایسی ویبسائٹ یا ویب پیج موجود ہے تو اسکا بھی کچھ بندوبست کریں. اللہ ہم سب کو ہدایت دے.
ابنِ سیّد

Friday, November 22, 2013

اور اب صوبہ خیبر پختونخوا میں ڈرون حملہ

امریکہ نے اپنے ڈرون حملوں کا احاطہ بڑھا کر اب پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے علاقہ ھنگو میں ایک مدرسے کو نشانہ بنایا. اس حملے میں آٹھ افراد ہلاک اور تقریباً اتنے ہی زخمی ہوئے. یہ بات نہ جانے کس طرح میڈیا نے پتا لگا لی کہ ان میں سے شہید ہونے والوں کا جرم انکا حقانی نیٹورک سے تعلق ٹھہرا، لیکن پھر شہید اور زخمی ہونے والے طلباء کا جرم کیا تھا. اس ڈرون حملے کی مزمت تو مذہبی حلقوں اور چند سیاسی جماعتوں کی جانب سے تو آئی لیکن حکومتی ادارے اور قومی دفاع کے ادارے اب تک خاموش ہیں. یہ وہی دفاعی ادارے ہیں جو چند ہفتے پہلے ایک سیاسی جماعت کے قائد کے بیان پر پریس کانفرنس کر رہے تھے. لیکن اس حملے نے سب کے منہ پر تالے لگا دئے. سب امریکہ کے خوف کا شکار ہیں.
ایک جانب ہم اپنے ہتھیاروں کی نمائش کر رہے ہیں تو دوسری جانب امریکہ کے جان سوز حملے ہمارے لوگوں کو شہید کر رہے ہیں. اقبال نے تو کہا تھا مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی، مسلمان کو ہتھیار کی نہیں ہمت و مردانگی کی ضرورت ہوتی ہے اور افغان غریب عوام نے امریکہ کے دانت کھٹے کر کہ یہ ثابت بھی کر دیا لیکن ہم شاید ان سی.بھی گئے گزرے نکلے. کاش کہ لوگ جانتے  کہ جنگیں ہتھیاروں سے نہیں جیتی جاتیں.....
ابنِ سیّد

Wednesday, November 20, 2013

سب سے پہلے اسلام

سب سے پہلے اسلام

افسوس ہوتا ہے جب میں کسی کے منہ سے سنتا ہوں کہ "پہلے پاکستان کی فکر کرو". کیا یہ اسلامی فلسفہ ہے ؟ بالکل نہیں! اسلام تو کہتا ہے کہ امتِ مسلمہ ایک جسم ایک جسدِ واحد کی مانند ہے کہ ایک حصہ میں تکلیف ہوتی ہے تو پورا جسم بے چین ہوجاتا ہے، یہ مفہوم ِحدیث ہے.
اگر یہی بات صحیح مان لی جائے تو پھر مسئلہ کشمیر اور اسرائیل کو نہ تسلیم کرنے پر پاکستان کے موقف کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے؟
کیا ہم نے کبھی سوچا اگر محمد بن قاسم مظلوم مسلمانوں کی آواز پر عرب کے صحراؤں سے سندھ نہ آتا تو شاید یہاں اسلام اس طرح پنپ نہ پاتا. وہ بھی سوچ سکتا تھا کہ اس کے پاس بھی کافی مسائل ہیں، ریاست کی ذمہ داریاں  ہیں اسکے باوجود اس نے جہاد کیا اور سندھ کے مسلمانوں کو ظلم سے آزادی دلائی.
اگر ہم مصر میں ہونے والے خون خرابے پر چپ رہیں، شام کے معاملہ پر آواز نہ اٹھائیں، بنگلہ دیش اور برما کے مسلمانوں کی آواز دنیا تک نہ پہنچائیں یہ تو مسلمانیت تو کیا انسانیت کے بھی اصولوں کے خلاف ہے.
اور اگر ہم ان مسائل سے نظریں چرا لیں تو کیا پاکستان کے مسائل یک دم حل ہوجائیں گے؟ اگر ایسا ہے تو یقیناً اسکا تجربہ کرنا چاہئے، لیکن ایسا نہیں! یہی وجہ ہے کہ امتِ مسلمہ کے تصوّر کو برحق سمجھنے والے دل میں درد رکھنے والے افراد ساری دنیا میں کہیں بھی اگر مسلمانوں پر ظلم ہوتا ہے تو اسکی آواز میں آواز ملاتے ہیں اور انکی آواز کو ہر پلیٹ فارم پر اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں، یہ نہ صرف اس امّت کے نظریہ کیلئے فائدہ مند ہے بلکہ ان مظلوموں کیلئے امید کی کرن ہے. شاید یہ عمل انکے زخم مندمل نہ کر سکیں لیکن مرحم کا کام ضرور دینگے!
ابنِ سیّد

Sunday, November 17, 2013

اسلامی نظام تعلیم کیوں ضروری ہے؟

ہمارے ایک نہایت ہی مشفق استاد نوجوان بھی ہیں اور معلومات کے چیمپئن بھی. کلاس میں ہر موضوع پر کھل کر بات ہوتی ہے اور تقریباً تمام طلباء ہی اظہارِ خیال اور اس بحث میں حصہ ضرور لیتے ہیں اور یہی اس کلاس کی خوبی ہے. بہرحال، کچھ دن پہلے اس ہی بحث و مباحثہ کے دوران نہ جانے کس بات پر استاد محترم نے کہا کہ میں اس کے خلاف ہوں کہ جبراً تعلیمی اداروں میں اسلامیات پڑھائی جائے. میرا اور ایک اور لڑکے کا موقف تھا کہ اول تو ایسا ہوتا نہیں جو طلباء اسلامیات نہیں پڑھنا چاہتے انکے لئے Ethics یا Ethical Studies کے نام سے مضمون موجود ہے. دوسرے اس تیزی سے بدلتی دنیا میں لوگوں کے پاس اتنا وقت نہیں کہ اپنے بچوں کو اسلامی تعلیم کیلئے کچھ الگ انتظام کریں لہذا کچھ نہ ہونے سے یہ اسکول میں حاصل کردہ اسلامیات کی تعلیم  بہتر ہے. مگر سر کا کہنا تھا کہ اسلامیات نہیں بلکہ دینیات یا Ethical Studies  کو فروغ دینا چاہئے.
میں نے سر کی رائے جاننے کیلئے پوچھا کہ کیا مدارس میں کمپیوٹر (ٹیکنالوجی اور جدید سائنسی علوم) کی تعلیم دی جانی چاہئے جس پر انہوں نے کا بالکل کیوں کہ یہ وقت کی ضرورت ہے. اس پر میں نے کہا کہ سر اگر آپ کہتے ہیں کہ مدارس میں کمپیوٹر کی تعلیم جبراً ہونی چاہئے تو میں کہتا ہوں کہ انجینئرنگ میڈیکل یونیورسٹیز میں اسلامیات کی تعلیم لازمی ہونی چاہئے (کمپیوٹر اگر وقت کی ضرورت ہے تو اسلامیات دنیا، معاشرے اور ایک فرد کی آخرت کی کامیابی کی ضرورت ہے).
شاید ہمارے اردگرد جو معاشرے کی تنزلی ہم دیکھ رہے ہیں وہ اس ہی وجہ سے ہے کہ ہم اچھے ڈاکٹر انجینئر اور مینیجر تو پیدا کر رہے ہیں لیکن اچھے انسان و مسلمان نہیں. یہی وجہ ہے کہ یہ انجینئر غیرقانونی تعمیرات میں ملوث ہوجاتے ہیں. یہی ڈاکٹر انسانی جانوں سے کھیلتے ہیں اور یہی پروفیشنلز کرپشن میں ملوث ہوجاتے ہیں. ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ایک ایسا اسلامی نظام تعلیم مرتّب کریں جن سے گزر کر عملی زندگی میں قدم رکھنے والا ہر شخص معاشرے کے اخلاقی عروج کا باعث بنے. پھر شاید ہمیں آڈٹس اور فراڈ کنٹرول کیلئے لاکھوں خرچ کرنے کی ضرورت نہ پڑے.

جماعت اسلامی نے اس ملک کو کیا دیا؟

پچھلے کچھ دنوں سے بعض لوگوں کی جانب سے سوال آیا کہ جماعت اسلامی نے اس ملک کیلئے کیا خدمات انجام دیں. اگر یہ لوگ اپنے اطراف میں نگاہ دوڑائیں اور اپنے ذہن کو تعاصب سے پاک کریں تو انہیں کئی مثالیں مل جائیں گی. لیکن اس کیلئے تعصب کی پٹی آنکھوں سے ہٹانا شرط ہے.
جماعت اسلامی ہی کی وجہ سے اس ملک کو اسلامی تشخص ملا. قرارداد مقاصد جس نے پاکستان کو ایک اسلامی شناخت دی اس کا سہرہ جماعت اسلامی کے سر ہی جاتا ہے. شاید کوئی اور جماعت تمام سیاسی قوتوں کو ایک ایشو پر اکھٹا نہ کر سکتی، لیکن جماعت کی محب وطن قیادت نے اس کام کو بھی سر انجام دیا.
ملک کی ضروریات اور وسائل کی کمی کو محسوس کرتے ہوئے جماعت اسلامی نے ملک کے طول و عرض میں الخدمت کے نام سے فلاحی کاموں کا بیڑا اٹھایا اور اس پلیٹ فارم سے غریبوں کی مالی مدد کی، یتیموں کے لئے یتیم خانوں کی تعمیر کے ساتھ ساتھ اسکا نظام چلایا. قدرتی آفات میں یہ جماعت اسلامی ہی ہے جو  قوم کی مدد میں ہر اول دستہ تشکیل دیتی ہے. بیواؤں کی کفالت سے لیکر غریب گھرانوں کی لڑکیوں کی شادی کیلئے مالی مدد فراہم کرنا.
کراچی سے لے کر خیبر تک مستحق طلبا کیلئے مدارس اور اسکول کے مضبوط ادارے قائم کرنا تاکہ ہر بچہ تعلیم حاصل کرکے اپنے مستقبل کو بہتر بنا کر اس ملک کے کام آسکے.
اکھتّر کی جنگ میں جب مشرقی پاکستان میں انڈیا کی ملی بھگت سے انارکی برپا ہوئی تو اسلامی جمعیت طلبہ اور جماعت اسلامی کے کارکنان فوج کی مدد کیلئے 'البدر' کے نام سے ہر اول دستہ بنے، جن علاقوں میں فوج نہیں جاسکی ان علاقوں میں کاروائیاں کرکے انڈیا کی بالادستی کو کم کیا اور پاک فوج کیلئے راہ ہموار کی اور اس کوشش میں جمعیت اور جماعت کے دس ہزار سے زیادہ کارکنان نے ملک و ملت اور اسلام کی خاطر اپنی جانوں کا نظرانہ پیش کیا. آج بھی اس ہی پاداش میں جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے رہنماؤں کو سزائے موت سنائیں جارہی ہیں.
افغان جھاد میں بھی اس ہی روایت کو برقرار رکھا اور اپنے مسلمان افغان بھائیوں کے شانہ بشانہ روس سے جنگ کی، اور اسکو گرم پانیوں تک نہ آنے دیا، یہ سب کچھ اسلام اور پاکستان کے دفاع کی خاطر کیا.
اس ملک میں اگر افراد کو کتاب سے شغف ہے تو اس تعلق کو برقرار رکھنے میں بھی جماعت اسلامی کا ایک بڑا کردار ہے، جماعت اسلامی پڑھے لکھے اور اعلی تعلیم یافتہ لوگوں کی جماعت ہے اور تعلیم کا فروغ جماعت کی اساس میں سے ہے.
جہاں بہت سی سیاسی جماعتوں کے رہنما اپنے دامن پر جعلی ڈگری کا تمغہ سجائے ہوئے ہیں اس اندھیر نگری میں جماعت کے امیدواران روشنی کی کرن بن کر ابھرے. الیکشن میں جماعت اسلامی وہ واحد جماعت رہی جس کا ہر امیدوار اعلی تعلیم یافتہ تھا.
جماعت اسلامی نے سابقہ حکومت میں صوبہ سرحد کی حکومت کا نظام بہتر طور پر چلا کر اپنی اہلیت ثابت کی.
جماعت اسلامی کے نامزد کردہ سٹی ناظم جناب نعمت اللہ خان کی کراچی کو ایک بار پھر روشنیوں کا شہر بنانے کی کوشش کسی سے چھپی نہیں. سڑکوں اور فلائی اوور کی تعمیر، ہر علاقے میں پارک کی مخصوص جگہوں پر قیام، واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ کا قیام اور اس کے علاوہ کئی سو بڑے پراجیکٹس کا افتتاح اور بجٹ پاس کیا جو آنے والی سٹی گورنمنٹ نے اپنے حصہ میں لکھوالیا لیکن بہرحال شہر کراچی کی تعمیر مقصد تھی جس کو جماعت نے بااحسن وخوبی انجام کیا.
قادیانی مسئلہ ایک بہت بڑا اور پیچیدہ مسئلہ تھا جس کو جمعیت نے اٹھایا اور جماعت نے اس مسئلہ کو پارلیمنٹ کے ذریعہ حل کروایا، اس موقع پر ملک کی تمام جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد بھی جماعت اسلامی نے ہی کیا.
ملکی سلامتی کے معاملات پر جماعت نے بڑے بڑے اتحاد قائم کئے.اکھتّر کے آئین پر تمام سیاسی قوتوں کو جماعت نے متحد کیا. جو قوم مختلف انداز میں بٹی ہوئی تھی اس قوم کو اور بیشتر اسلامی قوتوں کو متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم پر متحد کیا. ملک کے دفاع کی خاطر دفاع پاکستان کونسل کے نام سے اکھٹا کیا.
اس ملک کے عوام لاکھ دوسری جماعتوں کو ووٹ دیں لیکن جب ملک کے لئے حساس معاملات میں فیصلے کرنے کا وقت آتا ہے یا جس وقت کسی ملکی معاملے میں عوام کو کسی ایک راۓ کا انتخاب کرنا پڑتا ہے تو رہنمائی کیلئے سب کی نگاہیں جماعت اسلامی کی قیادت کی جانب ہی اٹھتیں ہیں کیوں کہ جماعت اسلامی ووٹوں پر اور نہ ہی سیٹوں پر بلکہ اس ملک کی عوام کے دلوں پر حکمرانی کرتی ہے.
جہاں اس ملک میں کرپشن کے قصے عام ہیں ان سب میں جماعت اسلامی وہ واحد جماعت ہے جس کا دامن ہر طرح کی عصبیت اور کرپشن سے پاک ہے، جماعت کے مخالفین بھی اسکا اعتراف کرتے ہیں. ..
عربی کا ایک مشہور محاورہ ہے
"والحق ماشھدت بہ الاعدآء" یعنی "سچائی تو وہ ہے جس کی گواہی دشمن بھی دے".
یہ تو چند ملکی خدمات ہیں، جماعت اسلامی ملک و ملت کی خدمت پر یقین رکھنے والی جماعت ہے، شاید جماعت کی خدمات ایک کالم میں پوری نہ لکھ سکوں لیکن  اگر اس قدر تفصیل کے بعد بھی کوئی سوال کرے کہ "یہ تو ٹھیک ہے لیکن جماعت نے ملک کو کیا دیا؟" تو ایسے افراد کے سوال کا جواب ہے: "السلام علیکم و رحمتہ اللہ"

Wednesday, November 13, 2013

کڑوا سچ بولنے پر معذرت


کڑوا سچ بولنے پر معذرت؟
(سیّد اویس مختار) 

منور حسن جواب دیں، انہیں سچ بولنے کا حق کس نے دیا اور وہ بھی اتنا بڑا اور کھرا سچ جس نے امریکہ، اسٹیبلیشمنٹ اور امریکہ نواز تمام اتّحادیوں کو ہِلا کہ رکھ دیا اور نہ صرف جھنجوڑا بلکہ انہیں حقِ نمک ادا کرنے کا فریضہ یاد دلا دیا. منور حسن جواب دیں کہ کس نے انہیں حق دیا کہ وہ یہ معاملہ اس وقت اٹھائیں جب سب اتحادی امریکہ کی گود میں بیٹھے خواب خرگوش کے مزے لے رہے تھے کے یک دم کس نے انکی کرسیوں کو ہلا دیا، جب سب جماعتیں اور حکومتی اتحادی امریکہ کی ہاں میں ہاں کو ہی کامیابی سمجھ رہے تھے تو اس وقت کس نے کہا تھا کہ کلمہِ حق کہیں!
آئی ایس پی آر کہتی ہے جواب دیں، منور حسن جواب دیں کہ انہیں کس نے حق دیا کہ کسی کو شہادت کا سرٹیفیکیٹ دیں جبکہ یہ حق تو صرف آئی ایس پی آر، میڈیا اور چند سیاسی جماعتوں کہ پاس ہے. یہ حق تو صرف اس جیو چینل کہ پاس ہے جو کچھ دن پہلے ٹِکر چلاتا ہے کہ "گلشن کے علاقے میں فائرنگ ایک فرد ہلاک اور ذوالجناح شہید"، یہ حق تو ان "سچائی کہ علمبرداروں" کہ پاس ہے کہ اپنی مرضی سے شہادت کا لیبل چسپا کریں.
یہ حق تو شاید صرف ان لسانی سیاسی جماعتوں کے پاس ہے جو ہر ٹارگٹ کلنگ میں مرنے والے کارکن کو شہادت کا سرٹیفیکیٹ جاری کردیتے ہیں. یہ حق تو صرف حکومتی نمائندوں کہ پاس ہے جو اسلامی قانون کو کالا قانون کہتے ہیں اور جب کوئی جذباتی انسان اس توہین کا ان سے بدلہ لیتا ہے تو جواب میں انکو شہادت کا رتبہ مل جاتا ہے.
اس طرح کے بیان سے تو پاک آرمی کے.مقصد "وار آن ٹیرر" کو ٹھیس پہنچے گی اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ امریکہ امداد بند کردے. پھر یہ کرنل جنرل کے بڑے بڑے پروٹوکول کا خرچ کہاں سے پورا ہوگا...
یہ سوال نہ اٹھتا تو نہ جانے کب تک امریکہ کی مسلط کی گئی جنگ کو ہم نہ جانے کب تک اپنی جنگ سمجھ کر لڑتے یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس جنگ میں اور نیٹو سپلائی کا راستہ فراہم کرنے پر اور امریکہ کے ہاتھ مضبوط کرنے میں ہم اپنے افغان مسلمان بھائیوں کے قتل عام میں مدد فراہم کر رہے ہیں. اور اس جنگ میں کام آنے والے سپاہیوں کا مستقبل کیا ہے یہ اب تک ایک سوالیہ نشان ہے کیوں کہ دونوں جانب مرنے والا مسلمان ہے اور کلمہ گو ہے دونوں جانب صدا نعرہ تکبیر کی ہی بلند ہوتی یے. اس معاملہ کو اب کسی نہ کسی کروٹ بٹھانا ہوگا، ہماری فوج اور عوام کو کھل کر امریکی امداد اور پالیسیوں کا بائیکاٹ کرنا پڑیگا.
اور معافی تو بالکل مانگنی چاہئے کہ ہمیں معاف کرو ہم اب تک اس فوج کو اسلام کا سپاہی سمجھتے رہے جبکہ صد افسوس کہ حقیقت میں یہ امریکہ کے سپاہی نکلے.

ناکامی کی وجوہات

ناکامی کی وجوہات
(سیّد اویس مختار) 

ایک صاحب سے کسی نے پوچھا کہ میں زندگی میں کیا کروں کونسی فیلڈ جوائن کروں اور کونسا پیشہ اپناؤں، جس پر ان صاحب نے الٹا سوال کیا کہ تم خود سے یہ سوال کرو کہ تم کیا بننا چاہتے ہو. یہ تمہاری زندگی ہے اور اس کے فیصلے اگر کوئی اور کریگا تو اس سے تم متفق نہ ہوگے، اور آگے جا کر ناکامی تمہارا مقدر بنے گی.
جب میں نے اس تھیوری کو بڑے تناظر میں دیکھا تو درست پایا. کسی بھی علاقے کے مستقبل کا فیصلہ وہاں کے عوام کو ہی کرنا چاہیے، اگر پاکستان کے حالات سے نمٹنے کے فیصلے واشنگٹن میں ہونگے تو یقیناً وہ ناکام ہونگے. اسی طرح اگر پاکستان کی اقتصادی پالیسیاں پاکستان کے اقتصادی ماہرین کے بجاۓ آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک والے جنیوا میں بیٹھ کر بنائیں تو یقیناً وہ پالیسیاں ناقابل عمل ثابت ہونگی.
اگر پاکستان کے اسٹریٹیجگ اور ملٹری کے فیصلہ اگر پینٹاگون کریگا تو غلط ہی کریگا اور ظاہر سی بات ہے جو ان اداروں سے جا کر مشورے لیتا ہوگا اس کی عقل پر ماتم کے سوا اور کیا کیا جا سکتا ہے.
صرف یہی نہیں، اگر بلوچستان اور بلوچوں کے مستقبل کے فیصلے اگر اسلام آباد کے ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر ہونگے تو وہ ناقابل عمل ہونگے اور انکا حقیقت پر مبنی ہونا مشکل ہے.
فاٹا کے مسائل کا حل وہاں کے رہائشی قبائلی رہنما ہی بہتر طور پر نکال سکتے ہیں اگر کوئی دانشور امپورٹ کیا جائیگا تو وہی حال ہوتا ہے جو ہم آج دیکھ رہے ہیں.
یہی ہمارے ملک کا المیہ ہے ہم نے اپنے فیصلے خود کرنے کے بجاۓ بیرونی طاقتوں سے مدد مانگی اور ان پر انحصار کرنا چاہا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہماری ہر پالیسی جو ہم نے بیرونی طاقتوں سے مستعار لی تھی اس کو وہاں کے رہنے والوں نے مسترد کردیا اور جب ہم نے وہ پالیسیاں بزورِ قوت.نافظ کرنا چاہیں تو نہ صرف یہ کہ لوگوں نے اس کو قبول نہ کیق بلکہ بعض مواقع پر مسلّح جدوجہد شروع کردی، جس کو روکنے کیلئے مزید مسلّح طاقت کا استعمال کیا گیا نتیجہ یہ کہ "مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی".
آگج پاکستان جس دلدل میں دھنس چکا ہے اس کا واحد حل یہی ہے کہ عوام کو ان کے مسائل کا حل تلاش کرنا چاہئے ،ہم اپنے فیصلے خود کریں ورنہ نتیجہ ہم بھگت چکے ہیں مزید نقصان سے بچا جاسکے گا.

Sunday, November 3, 2013

بزدل آمر حکمران

دیکھا جائے تو مشرف تاریخ کا سب سے بزدل حکمران نکلا. ایسا حکمران جس نے ایک امریکی کال پر ملک کا سودا کیا. چلیں پرانی باتیں چھوڑیں ابھی ہی دیکھ لیں، جب اس پر ایک کے بعد ایک کیس کھلے اور اس کو موت کا چہرہ دکھا تو بھیگی بلّی بن کر کہنے لگا، "والدہ بیمار ہیں علاج کرانے باہر جانے کی اجازت دی جائے".
ایک بہادر شخص اپنے نظریات سے پیچھے نہیں ہٹتا مگر اس کا حال عجیب ہے، یہاں اس کے حامیان لال مسجد سانحہ کو درست اقدام کہہ رہے ہیں اور دوسری جانب یہ عدالت میں کہہ رہا ہے کہ میں نے آرڈر نہیں دیا. کچھ دن اور رکیں "رحم کی اپیلیں" بھی کرے گا!
کہاں گئی آل پاکستان مسلم لیگ؟ سنا ہے اس کے ارکان آج کل متحدہ میں شمولیت اختیار کررہے ہیں.
جاوید چودھری نے اپنے ایک کالم میں بڑی عجیب بات لکھی تھی، کہتا ہے "جو شخص غلط کام کرے لوگ اس کے باپ کو برا کہتے ہیں" آج لوگ پرویز مشرف کے والد "مشرف" کو برا کہہ رہے ہیں جبکہ اسکا اصلی نام "پرویز" ہے...
(ابنِ سیّد)

عالمی کرپشن آرگینائیزیشن

کرپشن تمام دنیا میں ہورہی ہے لیکن پاکستان میں اس کا کافی اسکوپ ہے. کسی اور چیز میں نہ سہی کرپشن اور کرپٹ لوگوں کی پیداوار میں خودکفیل  ہو چکا ہے بلکہ اب تو ایکسپورٹ بھی کر رہے ہیں جیسے شارٹ کٹ عزیز وغیرہ.
پاکستان کی بات چھوڑیں اس کھیل میں تو باقی ممالک بھی شامل ہیں ساری دنیا سے "کالا دھن" سوئیس اکاؤنٹس میں آتا ہے، اور یہ رقم کوئی معمولی نہیں ہوتی، معمولی ہوتی تو یہاں نہ ہوتی(ظاہر ہے!) بظاہر دیکھا جائے تو ان کی کوئی خاص انڈسٹری نہیں ان کی تمام معیشیت اس ہی پیسہ پر چل رہی ہے جو تمام دنیا کے کرپٹ اشخاص وہاں جمع کراتے ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ اس پیسہ کی اور ان کے مالکوں کی معلومات کی جان سے زیادہ حفاظت کرتے ہیں.
ورلڈ بنک کا مرکزی دفتر بھی پڑوس میں واقع ہے مگر شاید وہ دنیا کی معیشیت سمبھالنے میں اس قدر مصروف ہیں کہ سوئیس اکاؤنٹ میں جھانکنے کا وقت نہیں ملتا، یا پھر وہ بھی اس کھیل میں شامل ہیں.
(ابنِ سیّد)
Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...

Facebook Comments