ناکامی کی وجوہات
(سیّد اویس مختار)
(سیّد اویس مختار)
ایک صاحب سے کسی نے پوچھا کہ میں زندگی میں کیا کروں کونسی فیلڈ جوائن کروں اور کونسا پیشہ اپناؤں، جس پر ان صاحب نے الٹا سوال کیا کہ تم خود سے یہ سوال کرو کہ تم کیا بننا چاہتے ہو. یہ تمہاری زندگی ہے اور اس کے فیصلے اگر کوئی اور کریگا تو اس سے تم متفق نہ ہوگے، اور آگے جا کر ناکامی تمہارا مقدر بنے گی.
جب میں نے اس تھیوری کو بڑے تناظر میں دیکھا تو درست پایا. کسی بھی علاقے کے مستقبل کا فیصلہ وہاں کے عوام کو ہی کرنا چاہیے، اگر پاکستان کے حالات سے نمٹنے کے فیصلے واشنگٹن میں ہونگے تو یقیناً وہ ناکام ہونگے. اسی طرح اگر پاکستان کی اقتصادی پالیسیاں پاکستان کے اقتصادی ماہرین کے بجاۓ آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک والے جنیوا میں بیٹھ کر بنائیں تو یقیناً وہ پالیسیاں ناقابل عمل ثابت ہونگی.
اگر پاکستان کے اسٹریٹیجگ اور ملٹری کے فیصلہ اگر پینٹاگون کریگا تو غلط ہی کریگا اور ظاہر سی بات ہے جو ان اداروں سے جا کر مشورے لیتا ہوگا اس کی عقل پر ماتم کے سوا اور کیا کیا جا سکتا ہے.
صرف یہی نہیں، اگر بلوچستان اور بلوچوں کے مستقبل کے فیصلے اگر اسلام آباد کے ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر ہونگے تو وہ ناقابل عمل ہونگے اور انکا حقیقت پر مبنی ہونا مشکل ہے.
فاٹا کے مسائل کا حل وہاں کے رہائشی قبائلی رہنما ہی بہتر طور پر نکال سکتے ہیں اگر کوئی دانشور امپورٹ کیا جائیگا تو وہی حال ہوتا ہے جو ہم آج دیکھ رہے ہیں.
یہی ہمارے ملک کا المیہ ہے ہم نے اپنے فیصلے خود کرنے کے بجاۓ بیرونی طاقتوں سے مدد مانگی اور ان پر انحصار کرنا چاہا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہماری ہر پالیسی جو ہم نے بیرونی طاقتوں سے مستعار لی تھی اس کو وہاں کے رہنے والوں نے مسترد کردیا اور جب ہم نے وہ پالیسیاں بزورِ قوت.نافظ کرنا چاہیں تو نہ صرف یہ کہ لوگوں نے اس کو قبول نہ کیق بلکہ بعض مواقع پر مسلّح جدوجہد شروع کردی، جس کو روکنے کیلئے مزید مسلّح طاقت کا استعمال کیا گیا نتیجہ یہ کہ "مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی".
آگج پاکستان جس دلدل میں دھنس چکا ہے اس کا واحد حل یہی ہے کہ عوام کو ان کے مسائل کا حل تلاش کرنا چاہئے ،ہم اپنے فیصلے خود کریں ورنہ نتیجہ ہم بھگت چکے ہیں مزید نقصان سے بچا جاسکے گا.
جب میں نے اس تھیوری کو بڑے تناظر میں دیکھا تو درست پایا. کسی بھی علاقے کے مستقبل کا فیصلہ وہاں کے عوام کو ہی کرنا چاہیے، اگر پاکستان کے حالات سے نمٹنے کے فیصلے واشنگٹن میں ہونگے تو یقیناً وہ ناکام ہونگے. اسی طرح اگر پاکستان کی اقتصادی پالیسیاں پاکستان کے اقتصادی ماہرین کے بجاۓ آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک والے جنیوا میں بیٹھ کر بنائیں تو یقیناً وہ پالیسیاں ناقابل عمل ثابت ہونگی.
اگر پاکستان کے اسٹریٹیجگ اور ملٹری کے فیصلہ اگر پینٹاگون کریگا تو غلط ہی کریگا اور ظاہر سی بات ہے جو ان اداروں سے جا کر مشورے لیتا ہوگا اس کی عقل پر ماتم کے سوا اور کیا کیا جا سکتا ہے.
صرف یہی نہیں، اگر بلوچستان اور بلوچوں کے مستقبل کے فیصلے اگر اسلام آباد کے ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر ہونگے تو وہ ناقابل عمل ہونگے اور انکا حقیقت پر مبنی ہونا مشکل ہے.
فاٹا کے مسائل کا حل وہاں کے رہائشی قبائلی رہنما ہی بہتر طور پر نکال سکتے ہیں اگر کوئی دانشور امپورٹ کیا جائیگا تو وہی حال ہوتا ہے جو ہم آج دیکھ رہے ہیں.
یہی ہمارے ملک کا المیہ ہے ہم نے اپنے فیصلے خود کرنے کے بجاۓ بیرونی طاقتوں سے مدد مانگی اور ان پر انحصار کرنا چاہا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہماری ہر پالیسی جو ہم نے بیرونی طاقتوں سے مستعار لی تھی اس کو وہاں کے رہنے والوں نے مسترد کردیا اور جب ہم نے وہ پالیسیاں بزورِ قوت.نافظ کرنا چاہیں تو نہ صرف یہ کہ لوگوں نے اس کو قبول نہ کیق بلکہ بعض مواقع پر مسلّح جدوجہد شروع کردی، جس کو روکنے کیلئے مزید مسلّح طاقت کا استعمال کیا گیا نتیجہ یہ کہ "مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی".
آگج پاکستان جس دلدل میں دھنس چکا ہے اس کا واحد حل یہی ہے کہ عوام کو ان کے مسائل کا حل تلاش کرنا چاہئے ،ہم اپنے فیصلے خود کریں ورنہ نتیجہ ہم بھگت چکے ہیں مزید نقصان سے بچا جاسکے گا.
No comments:
Post a Comment