ہمارے ایک نہایت ہی مشفق استاد نوجوان بھی ہیں اور معلومات کے چیمپئن بھی. کلاس میں ہر موضوع پر کھل کر بات ہوتی ہے اور تقریباً تمام طلباء ہی اظہارِ خیال اور اس بحث میں حصہ ضرور لیتے ہیں اور یہی اس کلاس کی خوبی ہے. بہرحال، کچھ دن پہلے اس ہی بحث و مباحثہ کے دوران نہ جانے کس بات پر استاد محترم نے کہا کہ میں اس کے خلاف ہوں کہ جبراً تعلیمی اداروں میں اسلامیات پڑھائی جائے. میرا اور ایک اور لڑکے کا موقف تھا کہ اول تو ایسا ہوتا نہیں جو طلباء اسلامیات نہیں پڑھنا چاہتے انکے لئے Ethics یا Ethical Studies کے نام سے مضمون موجود ہے. دوسرے اس تیزی سے بدلتی دنیا میں لوگوں کے پاس اتنا وقت نہیں کہ اپنے بچوں کو اسلامی تعلیم کیلئے کچھ الگ انتظام کریں لہذا کچھ نہ ہونے سے یہ اسکول میں حاصل کردہ اسلامیات کی تعلیم بہتر ہے. مگر سر کا کہنا تھا کہ اسلامیات نہیں بلکہ دینیات یا Ethical Studies کو فروغ دینا چاہئے.
میں نے سر کی رائے جاننے کیلئے پوچھا کہ کیا مدارس میں کمپیوٹر (ٹیکنالوجی اور جدید سائنسی علوم) کی تعلیم دی جانی چاہئے جس پر انہوں نے کا بالکل کیوں کہ یہ وقت کی ضرورت ہے. اس پر میں نے کہا کہ سر اگر آپ کہتے ہیں کہ مدارس میں کمپیوٹر کی تعلیم جبراً ہونی چاہئے تو میں کہتا ہوں کہ انجینئرنگ میڈیکل یونیورسٹیز میں اسلامیات کی تعلیم لازمی ہونی چاہئے (کمپیوٹر اگر وقت کی ضرورت ہے تو اسلامیات دنیا، معاشرے اور ایک فرد کی آخرت کی کامیابی کی ضرورت ہے).
میں نے سر کی رائے جاننے کیلئے پوچھا کہ کیا مدارس میں کمپیوٹر (ٹیکنالوجی اور جدید سائنسی علوم) کی تعلیم دی جانی چاہئے جس پر انہوں نے کا بالکل کیوں کہ یہ وقت کی ضرورت ہے. اس پر میں نے کہا کہ سر اگر آپ کہتے ہیں کہ مدارس میں کمپیوٹر کی تعلیم جبراً ہونی چاہئے تو میں کہتا ہوں کہ انجینئرنگ میڈیکل یونیورسٹیز میں اسلامیات کی تعلیم لازمی ہونی چاہئے (کمپیوٹر اگر وقت کی ضرورت ہے تو اسلامیات دنیا، معاشرے اور ایک فرد کی آخرت کی کامیابی کی ضرورت ہے).
شاید ہمارے اردگرد جو معاشرے کی تنزلی ہم دیکھ رہے ہیں وہ اس ہی وجہ سے ہے کہ ہم اچھے ڈاکٹر انجینئر اور مینیجر تو پیدا کر رہے ہیں لیکن اچھے انسان و مسلمان نہیں. یہی وجہ ہے کہ یہ انجینئر غیرقانونی تعمیرات میں ملوث ہوجاتے ہیں. یہی ڈاکٹر انسانی جانوں سے کھیلتے ہیں اور یہی پروفیشنلز کرپشن میں ملوث ہوجاتے ہیں. ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ایک ایسا اسلامی نظام تعلیم مرتّب کریں جن سے گزر کر عملی زندگی میں قدم رکھنے والا ہر شخص معاشرے کے اخلاقی عروج کا باعث بنے. پھر شاید ہمیں آڈٹس اور فراڈ کنٹرول کیلئے لاکھوں خرچ کرنے کی ضرورت نہ پڑے.
No comments:
Post a Comment