غلطیاں لاتعداد، مگر حل کیا ہے؟
مجھے اچھی طرح یاد ہے پہلا ڈرون حملہ ہوا تھا، یہ باجوڑ کا ایک مدرسہ تھا. اس میں تقریباً اسّی طلباء تھے جو موقع پر شہید ہوئے جبکہ زخمیوں کی ایک بڑی تعداد ہوئی. اس موقع پر بعض افراد نے یہ کہہ کر غلط بیانی کی کہ اس علاقہ میں آبادی نہیں لیکن باجوڑ کے ایک رکن قومی اسمبلی نے اسمبلی میں کھڑے ہو کر کہا کہ وہاں آبادی ہے اور اس آبادی کے قریب ہی مدرسہ ہے جس کو نشانہ بنایا گیا اور بے گناہ افراد کو شہید کیا گیا ہے. اس وقت مذہبی اور محب وطن جماعتوں نے "گو امریکہ گو" اور "جو امریکہ کا یار ہے غدار ہے" کا نعرہ بلند کیا جس کا ابتداء میں چند افراد و جماعتوں نے استہزاء اڑایا مگر آج یہ نعرہ ہماری قومی بقا کا نعرہ بن گیا ہے. جب ہمارے ملک کے ایک بڑے شہر سے ایک امریکی شہری نے چند افراد کا قتل کیا لیکن افسوس اس قاتل کو راہِ فرار دی گئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انکی ہمت بڑھی اور انہوں نے ہمارے ملک میں کھلے عام کاروائیاں شروع کردیں. ایبٹ آباد کا واقعہ ہوا جس پر ہمارے حکمرانوں نے کہا "گریٹ وکٹری"، مگر بعد کے واقعات نے ثابت کیا کہ وہ "گریٹ ڈیفیٹ" تھی. اس کے بعد ملک میں کھلے عام غیر ملکی ایجنٹ گھومتے رہے مگر ہم ان سے سوال نہ کر سکے. اسلام آباد کی سڑک پر تین چار امریکی ایک جعلی نمبر پلیٹ والی گاڑی میں پکڑے جاتے ہیں مگر سفارت خانے کی ایک کال پر انہیں چھوڑ دیا جاتا ہے. ممکن ہے وہی امریکی کہیں حملہ یا دھماکہ کردیں اور بھاگ جائیں تو ہم اس کیس کو طالبان سے منسوب کردیتے ہیں تاکہ فائل بھی دب جائے اور کیس بھی انجام کو پہنچ جائے، ہم ممکنات کی نفی نہیں کرسکتے.
ہم اس ملک میں ایک وسیع و عریض امریکی ایمبیسی کی تعمیر کی اجازت دیتے ہیں جس میں سات سو افراد کی رہائش کا انتظام ہے. ہمارے اہلکار اس میں پَر بھی نہیں مار سکتے، ہم انہیں پورا موقع فراہم کر رہے ہیں کہ وہ ہمارے علاقوں میں پھریں گھومتے رہیں، گاؤں دیہات قبائلی علاقہ جات و مضافات میں مٹرگشت کریں ان علاقوں میں جائیں جہاں ہم نہیں جا سکتے ان افراد سے بات کریں جن سے ہم نہیں مل سکتے اور پھر ہم حیران ہیں کہ ان دہشتگردوں کو "بیرونی مدد" کہاں سے مل رہی ہے. شَک ہم انڈیا پر کرتے ہیں جبکہ اس بیرونی مدد کو ہم نے پناہ دارلحکومت میں غیرملکی ایمبیسیوں میں دے رکھی ہے.
ہم نے صلیبی جنگ میں صلیب کا ساتھ دیا، مسلمان ہوتے ہوئے صلیبیوں کو رسد پہنچائی، افغانستان میں ان کے ہاتھ مضبوط کئے، اور اپنے افغان بھائیوں کے قتلِ عام میں امریکی اور نیٹو کی افواج کا ہاتھ بٹایا. اس کے باوجود ہم یہ توقع کرتے ہیں کہ افغان عوام ہم پر بھروسہ کرینگے. ہم نے یہ نہ سوچا کہ لاکھوں افغانی اس ملک میں مہاجرانہ زندگی بسر کر رہے ہیں ہمارے امریکیوں کو مدد کرنے پر وہ بھی بگڑ سکتے ہیں، افغانستان میں اگر انکا رشتہ دار مارا جائے تو انتقامی جذبے میں آکر وہ بھی ملوث ہوسکتے ہیں ہم نے اس بات کو سمجھے بغیر جنگ میں چھلانگ ماری اب اندر باہر ہر طرف سے دشمن مار رہا ہے اور ہمیں پتہ ہی نہیں چلتا کہ کون مار رہا ہے اور ہم حیران ہیں کہ ہم پر حملے کیوں ہوتے ہیں اور ماننے کو تیار نہیں کہ یہ غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہیں اور ان غلط پالیسیوں کو سدھارنے کے بجاۓ نئی پالیسی بنانے کو مسئلہ کا حل سمجھ رہے ہیں، نتیجہ صفر!
ایک ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود بھی دنیا کی بڑی فوج ہونے کے باوجود بھی، ہم بحیثیتِ قوم کسی سے آنکھ اٹھا کر بات نہیں کرسکتے. اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا جس کا مفہوم ہے کہ ایک وقت آئیگا کہ غیرمسلم اقوام تم پر اس طرح ٹوٹ پڑیںگی جیسے بھوکا دسترخوان پر جبکہ اس وقت افرادی طاقت میں بھی سمندری جھاگ کی مانند ہونگے. شاید وہ وقت آچکا ہے.
وجہ کیا ہے؟ ہم نے اسلام کا سبق بھلا دیا ہم نے ملتِ اسلامیہ کے فلسفہ کو پسِ پردہ ڈال دیا، ہر کام بنا سوچے کیا نتیجہ یہ کہ اللہ نے ہم پر بحیثیت قوم ذِلت مقرر کردی. اب حل صرف یہ ہے کہ اپنی شناخت اپنی بنیاد اسلام کی جانب پلٹنا ہوگا. ہمیں اسلام کے مطابق فیصلے کرنے پڑینگے ہمیں اپنے مسائل کا حل اسلام میں تلاش کرنا پڑیگا جب ہی ممکن ہے کہ اللہ ہم سے راضی ہوگا اور ہمیں عروج کی جانب لیجائیگا.
ہم اس ملک میں ایک وسیع و عریض امریکی ایمبیسی کی تعمیر کی اجازت دیتے ہیں جس میں سات سو افراد کی رہائش کا انتظام ہے. ہمارے اہلکار اس میں پَر بھی نہیں مار سکتے، ہم انہیں پورا موقع فراہم کر رہے ہیں کہ وہ ہمارے علاقوں میں پھریں گھومتے رہیں، گاؤں دیہات قبائلی علاقہ جات و مضافات میں مٹرگشت کریں ان علاقوں میں جائیں جہاں ہم نہیں جا سکتے ان افراد سے بات کریں جن سے ہم نہیں مل سکتے اور پھر ہم حیران ہیں کہ ان دہشتگردوں کو "بیرونی مدد" کہاں سے مل رہی ہے. شَک ہم انڈیا پر کرتے ہیں جبکہ اس بیرونی مدد کو ہم نے پناہ دارلحکومت میں غیرملکی ایمبیسیوں میں دے رکھی ہے.
ہم نے صلیبی جنگ میں صلیب کا ساتھ دیا، مسلمان ہوتے ہوئے صلیبیوں کو رسد پہنچائی، افغانستان میں ان کے ہاتھ مضبوط کئے، اور اپنے افغان بھائیوں کے قتلِ عام میں امریکی اور نیٹو کی افواج کا ہاتھ بٹایا. اس کے باوجود ہم یہ توقع کرتے ہیں کہ افغان عوام ہم پر بھروسہ کرینگے. ہم نے یہ نہ سوچا کہ لاکھوں افغانی اس ملک میں مہاجرانہ زندگی بسر کر رہے ہیں ہمارے امریکیوں کو مدد کرنے پر وہ بھی بگڑ سکتے ہیں، افغانستان میں اگر انکا رشتہ دار مارا جائے تو انتقامی جذبے میں آکر وہ بھی ملوث ہوسکتے ہیں ہم نے اس بات کو سمجھے بغیر جنگ میں چھلانگ ماری اب اندر باہر ہر طرف سے دشمن مار رہا ہے اور ہمیں پتہ ہی نہیں چلتا کہ کون مار رہا ہے اور ہم حیران ہیں کہ ہم پر حملے کیوں ہوتے ہیں اور ماننے کو تیار نہیں کہ یہ غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہیں اور ان غلط پالیسیوں کو سدھارنے کے بجاۓ نئی پالیسی بنانے کو مسئلہ کا حل سمجھ رہے ہیں، نتیجہ صفر!
ایک ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود بھی دنیا کی بڑی فوج ہونے کے باوجود بھی، ہم بحیثیتِ قوم کسی سے آنکھ اٹھا کر بات نہیں کرسکتے. اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا جس کا مفہوم ہے کہ ایک وقت آئیگا کہ غیرمسلم اقوام تم پر اس طرح ٹوٹ پڑیںگی جیسے بھوکا دسترخوان پر جبکہ اس وقت افرادی طاقت میں بھی سمندری جھاگ کی مانند ہونگے. شاید وہ وقت آچکا ہے.
وجہ کیا ہے؟ ہم نے اسلام کا سبق بھلا دیا ہم نے ملتِ اسلامیہ کے فلسفہ کو پسِ پردہ ڈال دیا، ہر کام بنا سوچے کیا نتیجہ یہ کہ اللہ نے ہم پر بحیثیت قوم ذِلت مقرر کردی. اب حل صرف یہ ہے کہ اپنی شناخت اپنی بنیاد اسلام کی جانب پلٹنا ہوگا. ہمیں اسلام کے مطابق فیصلے کرنے پڑینگے ہمیں اپنے مسائل کا حل اسلام میں تلاش کرنا پڑیگا جب ہی ممکن ہے کہ اللہ ہم سے راضی ہوگا اور ہمیں عروج کی جانب لیجائیگا.
ابنِ سیّد
No comments:
Post a Comment