Friday, January 31, 2014

کیا مدارس دہشتگردی کا گڑھ ہیں ؟

علماء انبیاء کے وارثین ہیں جبکہ مدارس علماء کی جائے پیدائش ہیں. ایک عالم کو پیدا تو اسکے والدین کرتے ہیں لیکن شعوری و علمی طور پر روشناس اساتذہ کراتے ہیں.
موجودہ دور میں جتنے زیادہ تیر مدارس کی جانب اٹھے ہیں شاید ہی کسی اور دور میں یہ صورتحال ہو کہ مدارس کیساتھ ایسا رویّہ رکھا گیا ہو.
بدقسمتی سے یہ اعتراضات ان چند افراد کی جانب سے کئے جاتے ہیں جن کا مدارس سے کبھی تعلق نہیں رہا. نہ یہ افراد اسلام کے اصولوں کو سمجھ سکے نہ مدارس کے نصاب کو چھونا انہیں نصیب ہوا. اب ایسے افراد جب اپنی رائے دیں گے تو کیا یہ جانبدارانہ رائے نہ ہوگی؟ اور انکی کم علمی اور کم فہمی کے باعث کیا انکے الفاظ اعتبار کے لائق ہیں؟
لیکن یہ سوال کہ ،"کیا واقعی مدارس دہشتگردی کی ترویج میں شامل ہیں" اس کیلئے چند باتوں کی وضاحت ضروری ہے.
سب سے پہلے اس لفظ "دہشتگردی" کی تعریف معلوم ہونا ضروری ہے. جن افراد کی جانب سے اعتراضات کے تِیر مدارس کی جانب چلائے جاتے ہیں انکی نظر میں دہشتگردی کا اصل مفہوم کیا ہے. کیا یہ وہی "دہشتگردی" ہے جس کیخلاف جنگ امریکی استعمار نے ساری دنیا پر مسلط کی ہوئی ہے. اگر جواب ہاں میں ہے تو معذرت کے ساتھ یہ مفہوم دہشتگردی کی تعریف نہیں.معروف اسکالر خرّم مراد (مرحوم) اپنی کتاب اسلام اور دہشتگردی میں لکھتے ہیں کہ اسلام دشمن سیکیولر میڈیا کی جانب سے مجاہد کی تصویر کشی ایک ایسے شخص کی طرح کی گئی جو بپھرے بال اور بڑھی ہوئی داڑھی کےساتھ ہاتھ میں تلوار لئے آتا ہے اور جہاں اسے غیر مسلم دِکھتا ہے اس کے گلے پر تلوار رکھ کر کہتا ہے کہ پڑَھ کلمہ ورنہ ... باطل نے یہ تصویر بڑی چالاکی سے بنائی اور ہم اس سے اتنا ڈرے کے کہنے لگے "حضور ہمارا کیا تعلق تلوار سے ہم تو ٹھہرے امن پسند سادھو". یہی کچھ ہمارے ساتھ ہوا "جہاد" جو کہ ہر مسلمان پر فرض ہے اور اسکے حوالے سے قرآن و حدیث میں بیشتر احکامات موجود ہیں، لیکن پھر ہوا کچھ یوں کہ مسلمانوں کو جہاد اور اس کے تصوّر سے دور کیا گیا. پہلے جو مجاہد تھا وہ میڈیا کی کوششوں سے شدت پسند اور پھر عسکریت پسند کہلایا اور بالآخر اسلام کا مجاہد "دہشتگرد" کہلانے لگا.
باطل کردارکشی کے اس مقام پر تو کامیاب رہا لیکن یہ بات اس کو ہمیشہ تکلیف دیتی رہی کہ مسلمان ممالک کا تعلیمی نصاب ان کے اندر اسلامی سوچ پیدا کرتا ہے جس کے نتیجہ میں وہ ضرورت کے موقع پر اپنی جان دینے سے بھی دریغ نہیں کرتا. اس کیلئے انہوں نے تعلیمی نصاب میں تبدیلیاں کروائیں، اسلامیات کو ایک مضمون بنا دیا گیا اور اسلامی نظام تعلیم ایک خواب بن کر رہ گیا، اسباق میں سے غیر محسوس انداز میں جہاد کے متعلق آیات کا اخراج کیا جس کا فائدہ انہیں اس طرح ہوا کہ اعلی تعلیم یافتہ نسل اسلامی تعلیمات بالخصوص جہادی تعلیمات سے بے بہرہ رہی. لیکن جب یہی حرکت انہوں نے مدارس کےخلاف کرنا چاہی تو یہاں انہیں ایک الگ صورتحال کا سامنا کرنا پڑا. اس بار انہیں مدارس پر اپنا حکم چلانے کا موقع نہ ملا اس کی پہلی وجہ مدارس میں اسلام کی تعلیم کا ہونا جبکہ دوسری بڑی وجہ مدارس کا بنیاد پرستانہ رویہ ہے.
ایک طالبعلم مدرسہ سے فارغ التحصیل ہو کر ایک عالم بنتا ہے اور دینی تعلیم سے بہرہ مند ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اسلامی سوچ کا حامل ہوتا ہے. اور ہاں "جہاد" جس کو یہ افراد "دہشتگردی"! کہتے ہیں اس کی تعلیم بھی لے کر نکلتا ہے. لہذا اگر کوئی کہے کہ مدارس دہشتگردی کی تعلیم دیتے ہیں تو بالکل غلط کہتے ہیں اور اگر وہ کہیں کہ مدارس جہاد کی تعلیم دیتے ہیں تو درست ہے. اس لفظ کی درستگی کے بعد دوسری بات پر آتے ہیں، پاکستانی معاشرے میں مدارس کا کیا کردار ہے.
پاکستانی معاشرے میں مدارس کا کردار کسی مشفق ماں کی طرح ہے. ایک علمی درسگاہ ہونے کے ساتھ ساتھ مدارس لاوارث اور یتیم بچوں کیلئے ایک اچھی جائے پناہ ہیں، پاکستان کے طول و عرض میں پھیلا یہ مدرسوں کا نیٹورک بلاشبہ پاکستان کا سب سے بڑا فلاحی ادارہ ہے. یہ مدارس ان طلبہ کے کھانے پینے، رہائش اور تعلیم کے تمام خرچ اٹھاتے ہیں جو مخیّر حضرات کے تعاون سے مشکل سے ممکن ہوتا ہے. اس طرح کے ادارے جو ملک کو قوم کیلئے بہت بڑی خدمت کر رہے ہیں کے بارے میں اگر چند افراد کی کم علمی کے باعث بپھتی تمام مدارس پر کَسی جائے تو یہ نا صرف ایک تعصبانہ اور جانبدارانہ سوچ کی عکاس ہے بلکہ انصاف کے اصولوں سے بھی بالاتر ہے.

ابنِ سیّد

Sunday, January 19, 2014

البدر

سقوط ڈھاکہ ویسے تو پاکستان کی تاریخ کا سب سے بھیانک  سانحہ ہے. سلیم منصور کی کتاب البدر پڑھنا شروع کی تو معلوم ہوا کہ سقوط اصل میں ہوا کیسے. جب اپنوں کی غلطیاں اور غیروں کا موقع سے فائدہ اٹھانا سقوط کی وجہ بنی، یہ کوئی ایسا واقعہ نہیں تھا کہ چند دن میں رونما ہوگیا ہو، اگر بغور دیکھا جائے تو اسکے تانے بانے نہ صرف قیامِ پاکستان بلکہ اس سے بھی پہلے سے ملتے ہیں. قیام کے بعد اس صوبہ کو خاطرخواہ اہمیت نہ ملنا، بنگلہ زبان کا دیرینہ مسئلہ، اسلامی تعلیمات کا بنگلہ زبان میں کم ہونا، قوم پرستانہ لٹریچر کی بھرمار اور اس سے متعلق حکومت کی عدم توجہی، بے تحاشہ سیاسی مسائل اور بنیادی حقوق کی عدم فراہمی اور غربت جیسے مسائل نے یہاں علیحدگی پسندی کو فروغ دیا. ملک میں یکّے بعد دیگرے مارشل لأز نے جمہوریت کو تاراج کیا اور عوام کو بد دل کیا. اس دوران ملک میں کوئی جماعت ایسی نہ تھی جو ان دونوں صوبوں کی زنجیر بنتی، مزید یہ کہ آخری الیکشن میں پیپلز پارٹی مغربی پاکستان میں کامیاب رہی اور مشرق میں ایک بھی سیٹ نہ لے سکی. جبکہ عوامی لیگ نے مشرقی حصہ میں کامیابی پائی اور مغربی حصہ میں ایک بھی سیٹ نہ لے سکی جبکہ یہ دونوں ملک کی بڑی جماعتیں تھیں. اس کے بعد دونوں جماعتوں اور مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے درمیان اقتدار کی کشمکش شروع ہوئی، حالات خراب ہوئے اور فوجی آپریشن شروع ہوگیا، مکتی باہنی بنی اور فوج پر حملے شروع ہوگئے. اس کیساتھ ہی بھارت نے حملہ کردیا، اس نازک مرحلے پر اسلامی جمعیت طلبہ کے پاس تین راستے تھے پہلا، موجودہ دھارے میں بہتے ہوئے علیحدگی پسندوں کا ساتھ دیا جائے، دوسرا، اس تمام صورتحال سے لاتعلق رہا جائے، تیسرا، پاکستانی ریاست کا ساتھ دیا جائے اور فوج کا ساتھ دیتے ہوئے اپنی جانیں پاکستان کی سالمیت کیلئے قربان کردی جائیں. اور پھر جمعیت نے تیسرا راستہ اختیار کیا. بعد ازاں جمعیت البدر کے نام سے سامنے آئی، پاکستان آرمی کیساتھ داد شجاعت دیتے ہوئے بہادری کی تاریخیں رقم کیں. ناکافی ٹریننگ کے باوجود مختلف مراحل میں پیشہ ور فوجیوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا اور اس بات کا ثبوت دیا کہ "مؤمن ہو تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی".
حالات بد سے بد تر ہونے لگے لیکن فوج اور البدر ڈٹے رہے، حکومتی ادارے عالمی طاقتوں کے سامنے بقا کی بھیک مانگنے لگے. تیرہ دسمبر بھٹو صاحب سیکیورٹی کونسل کے اجلاس میں شعلہ بیان تقریر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ "ہم ہار نہیں مانیں گے، ہم لڑیں گے"، اور اس کے ٹھیک دو دن بعد سولہ دسمبر بھارتی فوجیں ڈھاکہ میں داخل ہوجاتی ہیں اور پاکستانی فوج ہتھیار ڈال دیتی ہے... لیکن البدر کا کیا ہوا؟ یہاں سے ایک خونچکاں باب کا آغاز ہوتا ہے...
البدر نے ہندوستانی فوج کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے، البدر تحلیل کردی گئی اور تمام افراد انجانی راہوں میں نکل گئے، ان میں سے بعض کو اس ہی وقت دشمن نے شہید کردیا تو بعض کو کئی عرصہ بعد، کچھ کو مجمع کے سامنے مارا گیا تو کچھ کو اکیلے میں، بعض کو انکے گھروں اور دوسری پناہ گاہوں سے نکال کر مارا گیا، کچھ کو دفنایا گیا اور بہت سوں کی قبر ندّی کا پانی بنی، بیشتر کو تشدّد کرکر ے شہید کیا گیا. یہ شہداء چودہ سال کے نوجوان سے لے کے معمر افراد پر مشتمل تھے لیکن ان کی اکثریت نو عمر نوجوانوں پر مشتمل تھی. بعض شہداء چھٹّی جماعت کے طلبہ تھے تو بعض نے کچھ عرصہ پہلے ہی انٹر کا امتحان دیا تھا.
البدر کے نوجوان کئی طرح سے شہید کئے گئے سب سے زیادہ تعداد ان افراد کی تھی جو بھارتی فوج یا مکتی باہنی سے گوریلا جنگ کرتے ہوئے شہید ہوئے، اور کچھ تعداد ان کی بھی ہے جن کو اردو بولنے والے علاقوں میں محض بنگالی ہونے کی وجہ سے مارا گیا اور بعض ایسے بھی ہیں جو پاکستان آرمی کے آپریشن کے دوران صرف مکتی باہنی کے شک میں مارے گئے. یہ مارا ماری صرف جنگ کے دوران نہیں بلکہ مہینوں تک جاری رہی.
ان میں سے کئی افراد کی تصاویر اخبارات میں چھپیں اور ان کے سروں پر انعام کی قیمتیں لگیں، پھر کچھ کی لاشیں ملیں، کچھ ندّی میں گم ہوئے اور بہت سے لاپتہ...
اس کتاب میں بیان ہوئے چند یاد رہ جانے والے واقعات، مکتی باہنی کا ایک لیڈر عرصہ سے پاکستان فوج کیلئے دردِسر بنا ہوا تھا قمرالاسلام نامی ایک البدر مجاہد نے ملک دشمن مکتی باہنی کے اس لیڈر کو پکڑا، جب تفتیش شروع ہوئی تو اس شخص نے کہا میں دشمن ہوں تو صحیح لیکن میں اس مجاہد کا بھائی بھی ہوں، یہ سن کر فوج کے جوان حیرت سے گنگ ہوگئے، میجر صاحب نے کہا کہ میں ایک مجاھد کے بھائی پر ہاتھ نہیں اٹھا سکتا، لیکن اسکا مجاہد بھائی گن تھام کر کھڑا ہوگیا، اس نے اپنے بھائی کو کہا کہ پاکستان کیخلاف نہ جاؤ ورنہ میں جان لینے میں دیر نہ کروں گا، بھائی نے منع کردیا جس پر مجاہد نے کہا تم میرے بھائی صحیح لیکن پاکستان کا رشتہ خونی رشتہ سے بڑھ کر ہے. اس کے ساتھ ہی گولی چلی اور پاکستان کا دشمن ہلاک جبکہ اس کا محب وطن مجاہد بھائی سسکیاں لینے لگا. یہ منظر دیکھ کر دیگر فوجی بھی رونے لگے...
ایک دفعہ مکتی باہنی کے خلاف ایک آپریشن کے بعد صبح دیکھتے ہیں کہ مکتی باہنی والوں کی لاشوں میں ایک البدر مجاہد کے والد کی بھی لاش ہے، جبکہ انکا بیٹا البدر کی جانب سے اس ہی آپریشن کا حصہ تھا. اس جیسے واقعات نے اسلام کے اوّلین دور کی یاد دلادی.
شوکت عمران شہید بھائی ہیں جو سقوط کے بعد اس وقت تک کہیں نہیں جانے کا عہد کیے ہوئے ہیں جب تک باقی ساتھی محفوظ مقامات پر نہیں پہنچ جاتے ...
عبدالمالک شہید بھائی ہیں جو کہ سقوط سے تقریباً ایک سال پہلے ہی مادر علمی میں مباحثہ میں شرکت کرنے گئے تھے جہاں ان کو شہید کیا گیا..
فینی کے محمد الیاس شہید جسے ٹرک کے پیچھے باندھ کر رگڑا گیا جس سے ان کا گوشت جگہ جگہ سے ادھڑ گیا...
شہید ابوطاہر جنہیں انکے والد نے مکتی باہنی میں شمولیت کا مشورہ دیا تھا. سقوط کے بعد ملک دشمنوں نے انہیں قتل کرکے اجتماعی قبر میں دھکیل دیا.. انعام الحق شہید جنہیں فضائیہ کے حملے میں شہادت ملی، غریب والدین نے کیلے کے پتوں میں لپیٹ کر دفن کیا...فضل الکریم شہید جن کو مسجد میں گھس کر شہید کیا گیا... شاہ جلال اور انکے ساتھی جو بھارتی فضائی حملے میں شہید ہوئے ...میاں دھونو شہید جنہیں عوامی لیگ والوں نے درخت سے الٹا لٹکائے رکھا اور وہ اسی حالت میں خالق حقیقی سے جا ملے...عطا الرحمن جن کی پہلے ایک انگلی ہتھوڑے سے توڑی گئی پھر ہاتھ پاؤں کاٹے گئے اور اس طرح اذیت دے کر انہیں شہید کیا گیا ...عبدالحق کو جے بنگلہ کا نعرہ لگانے کا کہا لیکن انہوں نے انکار کیا جواب میں انہیں شہید کردیا گیا، انکی عمر صرف چودہ سال تھی ...اور اس طرح کے ہزاروں شہداء جنہوں نے اسلام اور پاکستان کو بچانے کی خاطر جانیں دیں...
اصل میں یہ ملک پاکستان اسلام کے نام پر بنا ہے اور یہاں صرف اسلامی نظام ہی پنپ سکتا ہے، کوئی اور نظام چاہے کتنا بھی اچھا ہو اگر اسلام کے مطابق نہیں ہوگا تو وہ ہماری مذہبی اقدار اور باہمی اتحاد کو غارت کرتا رہیگا، الّا یہ کہ ہم اسلام کی جانب واپس پلٹ آئیں. سقوط ڈھاکہ کا واقعہ ہمیں اپنی غلطیوں کو نہ دہرانے کی تلقین کرتا ہے...

ابنِ سیّد

Thursday, January 16, 2014

The loser, The Winner, and the unsung Hero!

There are many they work their whole life for making big houses in this world, getting big cars is the vision of their life, a mouthful of bank account and foreign trips is all they desire, they worked whole life to fill their worldly desires until the time came when they die...
and,
Then there are some who live their whole life working for others, the vision of getting a place in heaven is all they have, they sell their lives to Allah and get heaven in return, and when they die they have nothing in hand, but millions of people praising them and attending their funeral.
and,
Then there are a some who are similar to the above in character they sell their lives to Allah and get Jannah in return, but when they die, no one knows they died, they might have few people in their funeral, they are like unsung heroes.
Some random thoughts about some random characters we see in our lives.

Tuesday, January 14, 2014

کون سا اسلام؟

جب بھی اسلامی نظام کو ملک میں نافذ کرنے کا موضوع سامنے آتا ہے تو بعض لوگ یہ کہہ کر موضوع کو مزید مشکل بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور انکا من پسند سوال یہ ہوتا ہے "کون سا اسلام؟ " پھر اس کئے گئے سوال کو اپنی دانست میں مزید مشکل سے مشکل تر بنانے کیلئے کہتے ہیں "کیا سنّی اسلام یا شیعہ، کیا دیوبندی یا بریلوی یا اہلحدیث یا یہ یا وہ وغیرہ وغیرہ"
کسی بھی سوال کو کرنے کا ایک طریقہ ہوتا ہے اور جواب سنے بغیر اگلا سوال کرنا سوالی کی نیت ظاہر کرتا ہے کہ وہ جواب کا منتظر نہیں بلکہ بحث برائے بحث کا قائل ہے.
کون سا اسلام؟ جواب یقیناً یہی ہے کہ وہی اسلام نافذ کیا جائیگا جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم تک پہنچایا، وہی اسلام جو قرآن و حدیث میں بیان ہے، اور وہی اسلام جو مدینہ کی اسلامی ریاست میں رسول اللہ نے نافذ کر کے دکھایا تھا. اگر اس جواب سے بھی تشفی نہیں تو چلیں آگے پڑہیں.
اب آئیں انکے دوسرے سوال کی جانب جن میں بعض افراد مختلف فرقوں کا نام لے کر کہتے ہیں کہ ان میں سے کون سا اسلام، شاید اس طرح کا سوال کرنے والے بالکل بھی دین کا مطالعہ نہیں کرتے. "چور کا ہاتھ کاٹ دو" "قاتل سے قصاص لو" "سود کو روک دو" میرا خیال ہے ان قوانین پر تو سب متفق ہیں یہاں یہ سوال بے معنی ہوجاتا ہے کہ کون سے فرقہ کا قانون یقیناً بیشتر قوانین اصول و ضوابط میں تمام مسالک میں اتفاق رائے ہے.
اب رہ گئے چند وہ اصول و ضوابط جن میں اختلاف ہیں، تو ایسے مسائل کے حل کیلئے علماء اور قانونی ماہرین کی ایک کمیٹی بنا دی جائے گی جو باہمی مشاورت سے ان مسائل کا حل تلاش کریگی اور حکومتی ادارے اس کو
نافذ کریں گے.
کس ریاست میں اختلاف اور مسائل نہیں ہوتے، کیا جس جمہوری نظام میں ہم جی رہے ہیں کیا سب اس سے متفق ہیں، یقیناً نہیں! یقیناً خلافت کے ادوار میں بھی اختلافات آتے تھے اور ان کو حل بھی کیا جاتا تھا. لیکن جب نیّت اچھی ہو تو مشکل سے مشکل کام کے بھی راستے نکل آتے ہیں لیکن جب ذہن ایک بات کو تسلیم کرنے پر آمادہ ہی نہ ہو اور بغیر سوچے سمجھے پہلے سے ذہن بنا لیا جائے تو پھر ایسے ہی سوال اٹھتے ہیں کہ "کون سا اسلام؟"

ابنِ سیّد

(تمام اسلامی موضوعات اپنے ناکافی علم کے باوجود اچھی نیت سے شائع کئے جاتے ہیں. اگر کسی دوست کو دئے گئے موضوع میں اختلاف ہے تو اپنی رائے کا اظہار ضرور کریں تاکہ تصحیح کی جاسکے. اللہ غلطیوں کو معاف کرے اور کوشش کو قبول کریں. آمین)

Sunday, January 12, 2014

مذاکرات کیوں ضروری ہیں ...

پچھلے کئی مہینوں سے میڈیا پر بحث و مباحثہ چل رہے ہیں اور دوسرے الفاظ میں ملک میں رائے عامّہ ہموار کی جارہی ہے کہ اور یہ باور کرانے میں زمین و آسمان ایک کیا جارہا ہے کہ اب آپریشن ہی واحد حل ہے، درج ذیل چند ایسے دلائل جو کہ اس مفروضے کو غلط ثابت کر رہے ہیں ...
عرصہ ہوگیا ہم ان کے خلاف آپریشن کر رہے ہیں لیکن ناکام ہیں لہذا مذاکرات کو موقع دیا جائے، جب ایک اسٹریٹیجی ناکام ہوجاتی ہے تو دوسرے طریقوں پر غور کیا جاتا ہے. اتنا تو ایک فوجی بھی جانتا ہے کہ پلین اے ناکام ہو تو پلین بی کی جانب جایا جائے لیکن وائے نادانی پچھلی ایک دہائی قبل شروع کیا گیا آپریشن لیکن ابھی تک اس میں ایک بھی علاقہ کو کلیئر نہ کیا جاسکا. ہر طرف سے ناکام ہونے کے بعد مذاکرات کا راستہ بدستور موجود ہے، اس لئے یہ ضروری ہے.
ہمارے آئین کو نہیں مانتے جب ہی تو مذاکرات کرنے چاہئے، مان لیں تو جھگڑا ہی کیا. بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ طالبان آئین کو نہیں مانتے تو انکے ساتھ مذاکرات کس طرح ہونگے، تو جناب جہاں اختلاف ہو مذاکرات کا آپشن وہاں ہی قابلِ عمل ہے اور جہاں اختلاف ہی نہ ہو تو پھر وہاں مسئلہ ہی کس بات کا رہ جائے گا.
انہیں عوامی حمایت حاصل ہے، بہت عرصہ تک مقتدر اداروں کی جانب سے مسلسل یہ کہا جاتا رہا کہ طالبان اور دوسرے عسکریت پسند غیر ملکی ہیں. لیکن دوسری جانب ہم دیکھتے ہیں کہ انہیں عوامی حمایت بھی حاصل ہے اور جب بھی دنیا میں کسی گوریلا جنگ میں کسی گروپ کے ساتھ عوام کی ہمدردیاں ہوں تو آپ اس کو بذورِ قوّت نہیں دبا سکتے، بیشتر مثالیں آپکے سامنے موجود ہیں دور کیوں جائیں کشمیر میں ہی دیکھ لیں وہاں بھارتی افواج مجاھدین کے ہاتھوں بےبس نظر آتی ہیں وجہ یہی کہ مجاھدین کو عوامی حمایت حاصل ہے اور وقت آنے پر عام افراد انہیں گھروں میں پناہ دیتے ہیں نتیجتاً انہیں تلاش کرنا نا ممکن ہوجاتا ہے. پاکستانی طالبان بھی کوئی غیر ملکی نہیں بلکہ قبائلی افراد پر مشتمل گروہ ہے جنہیں اپنے اور اطراف کے قبائل کی حمایت حاصل ہے اور کسی بھی آپریشن کے نتیجہ میں عسکریت پسندوں کی چھاپہ مار ٹیمیں حامیوں کے گھروں میں پناہ حاصل کرتی ہیں جس کے بعد فوج کیلئے ان میں تفریق کرنا مشکل ہوجاتا ہے.
عالمی طاقتیں ہماری حمایتی نہیں رہیں، روس ہم سے نالاں ہے، چین ہم سے کھنچا کھنچا ہے وہ ایک طرف ہمارا دوست ملک ہے لیکن جنگ کے معاملہ میں وہ مدد نہیں کرپاۓ گا اور نہ ہی دوسری طاقتوں پر دباؤ ڈال سکے گا. امریکہ، جس کو ہم دوست سمجھ رہے ہیں اسے ہم ڈبل گیم کھیلتے دکھائی دے رہے ہیں. لہذا جب عالمی طاقتیں ہماری ہمنوا نہیں تو ہمیں بھی ان سے الگ ہوکے انکے دباؤ سے متاثر ہوئے بغیر اپنے فیصلے کرنے پڑینگے. مذاکرات صرف اس لئے نہیں چھوڑے جائیں کے امریکہ نہیں چاہتا بلکہ وہ کیا جائے جو ہمارے لئے بہتر ہو، ورنہ اس ڈومور پالیسی کا نتیجہ پہلے ہی بھگت رہے ہیں.
اصل مسئلہ باغی نہیں انکی بغاوت کے اسباب ہیں، میرے خیال میں سب سے بڑا نکتہ یہی ہے. ہمارے بیشتر حکومتی اور سیکیورٹی ادارے یہ سمجھ رہے ہیں کہ اصل مسئلہ طالبان ہیں جبکہ اصل مسئلہ طالبان نہیں بلکہ وہ اسباب ہیں جس نے انہیں ہتھیار اٹھانے پر مجبور کیا اگر ان کے ساتھ شروع سے احتیاط سے چلا جاتا تو بات اس قدر نہ بڑھتی، لہذا اب غلطیوں کو درست کیا جائے، آگ پر مزید ایندھن ڈالنے کے بجاۓ اسے حل کیا جائے.
پچھلی ایک دہائی اس بات کی غماز ہے کہ آپریشن کا طریقہ ان بنیاد پرست تنظیموں کیلئے ناقابل استعمال ہے، دوسرا راستہ ہمارے سامنے مذاکرات کا ہے جس جو تمام جمہوریت پسند جماعتوں نے متفقہ طور پر مسائل کے حل کیلئے پسند کیا ہے، لہذا عوامی رائے کا احترام کرتے ہوئے مذاکرات کا راستہ ہموار کیا جائے تاکہ پاکستان ایک متوازن ڈگر پر گامزن ہوسکے.

ابنِ سیّد

Saturday, January 11, 2014

روٹ کاز اینالائسز (Root Cause Analysis for Pakistan)

جو افراد کوالٹی کا کام کرتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ کوالٹی مینجمنٹ میں ایک چیز ہوتی ہے کریکٹیو ایکشن یعنی غلط کو درست کرنا، دوسری چیز ہے پریوینٹیو ایکشن یعنی احتیاطی تدابیر کرنا، جبکہ تیسری اور سب سے اہم چیز ہے روٹ کاز اینالائسز یعنی مسئلہ کی جڑ تلاش کرنا. کوالٹی کے جاپانی قائدین کے وضع کردہ اصولوں کے مطابق کسی بھی غلطی کو مکمل درستگی کیلئے روٹ کاز اینالائسز ضروری ہے ورنہ اور ایکشن صرف کچھ دیر کا فائدہ دیں گے.
پاکستان اس وقت کافی مسائل میں گھرا ہوا ہے ان سب مسائل میں ایک مسئلہ جو کہ شاید کافی بڑا یا سب سے بڑا مسئلہ ہے وہ ہے "دہشتگردی".
وطن عزیز میں دہشتگردی تمام جگہ پر ہے اور حکومت اور فوج اس کو ختم کرنے کے درپے ہیں لیکن دوسری جانب ہم دیکھتے ہیں کہ حکومت اور فوج کی تمام کوششوں کے باوجود دہشتگردی بجاۓ کم ہونے کے بڑھتی چلی جارہی ہے جس کی صرف ایک وجہ ہے ہم مسئلہ کو ایڈ ہاک انداز میں حل کرنا چاہ رہے ہیں. دوسری جانب بعض عناصر کی جانب سے آپریشن آپریشن کی رٹ لگائی جارہی ہے(جیسے ماضی کے آپریشن کے تجربے کامیاب رہے ہوں).
دہشتگردی کی ایک وجہ طالبان بتائے جاتے ہیں لیکن ان سب کے باوجود کسی حکومتی کارندے نے اس سوال کا جواب نہیں ڈھونڈنے کی کوشش کی کہ طالبان کون ہیں، کیا ہیں، کہاں سے آئے اور آخر کس طرح بنے. کسی نے اس بات کی تہہ میں جانے کی کوشش نہیں کی کہ وہ کیا وجوہات ہیں جن کی وجہ سے بالآخر ایک شخص بندوق اٹھا کر پوری ریاست کا وجود ماننے سے انکار کر دیتا ہے اور بغاوت کر بیٹھتا ہے اور طالبان بن جاتا ہے. شاید یہ تمام باتیں غیر ضروری سمجھی جارہیں ہیں، اور اس ہی کا نتیجہ ہے کہ حالات ہمارے سامنے ہیں پچھلے دس بارہ سال سے چالیس ہزار دہشتگردوں کو مارنے گئے اور آج اس قوم کو اپنی جان بچانا مشکل محسوس ہورہا ہے.
جب تک مسئلہ کی جڑ (روٹ کاز اینالائسز) تک پہنچنے کی کوشش نہیں کی جائے گی اور درخت کی شاخوں پر توجہ دی جائیگی تو شاخیں تو دوبارہ نکل آئیں گی جڑ وہیں رہیگی،پائیدار حل کیلئے مسئلہ کی جڑ تلاش کرکے اس کو حل کیا جائے، اس سے میرا ہرگز مطلب نہیں کے آپریشن پر آپریشن کیا جائے یا خون کی ندّیاں بہائی جائیں، بلکہ اصل مسائل کو حل کیا جائے تاکہ آئندہ کوئی باغی بننے پر مجبور نہ ہو.

ابنِ سیّد

Tuesday, January 7, 2014

کمانڈو فور...

کمانڈو فور... منیر احمد راشد کا ایک نہایت ہی سبق آموز ناول جو ساتھی رسالے میں قست وار چھپا اور بعد ازاں کتابی شکل میں کئی دفعہ اشاعت ہوئی. یہ ناول ہے ایک ایسے شخص کی داستان جو پاکستان کی بقا کیلئے لڑا جس نے تمام سازشوں کو بے نقاب کیا. انڈیا ہو یا اسرائیل یا روس ان سب کی چالوں کو ناکام کرنے میں اس کا کردار رہا. وہ دشمنان کی سازشوں کیخلاف ایک چٹان بن گیا... لیکن بیرونی دشمنوں نے تو اس کا کچھ نہ بگاڑا لیکن اندرونی دشمنوں نے اسکے ملک کو بھی اور خود اسے بھی اندر سے پاش پاش کردیا. یہ کہانی ہے اس شخص کی جس نے سرزمینِ بنگال میں جہاد کیا، اس نے البدر کو منظّم کیا، جب سیاسی قیادت کےساتھ ساتھ عسکری قیادت نے بھی ہار مان لی لیکن یہ منچلے لڑتے رہے یہ جنگلوں دریاؤں میں نکل گئے، انہیں گھروں سے نکال نکال کے مارا گیا. "غدار" کا خطاب دیا گیا. یہ کلمہ ء شہادت پڑھتے رہے یہ پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگاتے رہے اور ان سے تشدد کروا کر جے بنگلہ کہلوایا جاتا. یہ شدید ٹارچر پر بھی نہ ٹوٹے لیکن جب ملک ٹوٹ گیا تو یہ بھی خود کو نہ سنبھال سکے جب اپنوں ہی ساتھ چھوڑ دیا، جب فوج نے ہتھیار ڈال دئے....
جمعیت کا ہر فرد اس طرح کی کہانیاں اور ناول پڑھ کر جوان ہوتا ہے یہی وجہ ہے پاکستان اور اسلام سے محبت اس کا خاصّہ بن جاتی ہے. اور پھر وہ نوجوان چلتا پھرتا نظریہ اسلام اور نظریہ پاکستان کا نمونہ بن جاتا ہے. اس کہانی کو اگر پڑھنا تو کہانی سمجھ کر نہ پڑھنا، یہ سچے واقعات ہیں جس کے کردار آج بھی جمعیت کے نوجوانوں کی شکل میں تابندہ ہیں، اس ملک کی طرف جب بھی کوئی آنکھ اٹھاۓ گا تو اس مسجد کی حفاظت ہر اسلام پسند نوجوان حفاظت کریگا چاہے کوئی ساتھ دے یا "ہتھیار ڈال دے"...

ابنِ سیّد 

خاک و خوں -- از محمد مقصود احمد

اس داستان کو پڑھ کر بہت سے لوگوں کے جہاد کے ببارے میں خدشات درست ہونگے، عملاً دشمن کے خلاف مسلّح جہاد میں ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا کہ آپ بندوق اٹھاۓ مصروف عمل ہوں اور نہ ہی ایسا ہوتا ہے کہ دشمن کے مارے سے ہی شہادت ملے، اس میں مصنف اپنا واقعہ بیان کرتا ہے، کبھی تو ان کے پاس ایک بندوق بھی نہیں ہوتی. بیشتر شہداء صحرا میں بھٹکنے اور بھوک پیاس یا بیماری کی وجہ سے شہید ہوئے.
ایک ایسے شخص کی داستان جو افغانستان جھاد پر گیا. پہاڑوں کو سر کیا صحراؤں میں بھٹکا، مرگ کے قریب پہنچ گیا. یہاں تک کہ پاکستان میں دوستوں احباب نے ایثال ثواب کی محفلیں منعقد کرنا شروع کردیں کہ اچانک وہ گھر پہنچ گیا. ایک ایسی داستان جسے آپ پڑھیں گے تو پڑھتے چلے جائیں گے. دلوں کو گرما دینے والی یہ داستان میں نے پڑھی اور کافی مزہ آیا، آپ سب کیلئے بھی Recommend کروں گا.


ابنِ سیّد

Monday, January 6, 2014

جرم پھر جرم ہے

مجھے ٹریفک پولیس نے سگنل توڑتے پکڑ لیا. جب وہ چالان کاٹنے لگا تو میں مچل اٹھا میں نے ایک طرف اشارہ کر کے کہا کہ اسے کیوں نہ روکا وہ بھی تو سگنل توڑ رہا ہے، وہ دیکھو اس گاڑی کی لائیٹ ہی نہیں، وہ دیکھو اسکا ہیلمیٹ نہیں ..پولیس والا کہنے لگا سر کیا آپ نے سگنل نہیں توڑا کیا آپ مجرم نہیں لیکن میں بضد رہا کہ اگر میرا چالان کر رہے ہو تو ان کا بھی کرو... میرا سوال بھی غلط تھا اور میری بحث بھی غلط تھی... مجرم میں تھا لیکن صرف کیوں کہ باقی بچ رہے تھے میں چاہ رہا تھا کہ میں بچ جاؤں باقی سب پکڑے جائی...
جب میں لوگوں کے منہ سے سنتا ہوں کہ صرف مشرف کیوں تو مجھے یہ واقعہ یاد آجاتا ہے...
جرم تو جرم ہے اسکی سزا تو ملے گی، صرف اس بنیاد پر کے ایک قیدی نے جیل توڑ دی باقی کو تو رہا نہیں کیا جانا چاہے ..کیوں؟

ابنِ سیّد

جھالت اور اسکی ضِد حق پرستی

میں کافی دیر سوچتا رہا کہ جھالت کے کیا معانی ہیں، کیا اعلی تعلیم جھالت کو ختم کر سکتی ہے کیا اعلی عہدہ جھالت کو ختم کرسکتا ہے. اس کا جواب مجھے اس دن مِلا جب ڈیفنس میں بڑے بڑے بنگلوں کے درمیان میں نے گٹر کا پانی بہتے دیکھا. جب میں نے گِزری کے علاقے میں اونچے مکانوں کے درمیان اندھیر گلیاں دیکھی، جہاں ایک پیدل چلنے والے کو ٹھوکر لگے اور گٹر کے پانی سے عام راہگیر کا چلنا دوبھر ہوجاتا ہو. کیا وہاں کے باسیوں کو باشعور سمجھا جا سکتا ہے؟
یہی سوچتا ہوا میں ایک ٹریفک سگنل پر رکا جہاں بڑی بڑی گاڑیاں ٹریفک کے اصولوں کی دھجیاں اڑا کر جارہی تھیں. میں سمجھ گیا زیادہ پیسہ بھی جھالت کو کم نہیں کرسکتا میرا یقین اس وقت پختہ ہوگیا جب میں نے اسی طرح کے دو پڑھے لکھے لوگوں کو دست و گریباں دیکھا جبکہ ہماری اصطلاح میں جنکو ہم جاھل گردانا کرتے ہیں جیسے خوانچہ فروش اور بس کنڈکٹر وہ انہیں الگ کر رہے تھے. پس مجھے یقین ہوچلا کہ دولت شعور کا معیار نہیں...
اپنے خیالوں میں غلطاں میں ایک مارکیٹ جا پہنچا تھوڑا سودا لینے کے بعد میں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شخص ایک فقیر کو جھڑکتا ہے اور اسے اپنی گاڑی سے اور اپنے بچّوں سے دور رہنے کا کہتا ہے، شاید وہ کوئی ڈاکٹر ہو، شاید انجینئر، یا بینکر، یا پھر کوئی بڑا مینیجر یا چیف، لیکن اسکے منہ سے نکلے چند الفاظ نے اس کے شعور کی پوٹلی کھول کر رکھ دی...
ابو جہل کا اصلی نام عمر تھا، وہ لکھنا جانتا تھا جبکہ بیشتر صحابہ رضی اللہ عنھا اس فن سے محروم تھے لیکن جب اس نے حق کو ماننے سے انکار کیا اور ہٹ دھرمی دکھائی تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو وہ نام دیا جس نام سے آج ہم اس کو جانتے ہیں (ابو جہل). 'حق' کو تسلیم نہ کرنا اور باطل پر اڑ جانے کا ہی اصل نام جھالت ہے.

ابنِ سیّد

Sunday, January 5, 2014

تُم پاکستانی ... تُم مسلمان

(اے پیغمبر) کافروں کا شہروں میں چلنا پھرنا تمہیں دھوکا نہ دے (یہ دنیا کا) تھوڑا سا فائدہ ہے پھر (آخرت میں) تو ان کا ٹھکانا دوزخ ہے اور وہ بری جگہ ہے (سورۃ آل عمران،آیت 196-197)

وہ بہت دیر سے مجھے لیکچر دے رہا تھا. کہنے لگا یار تم مسلمان کتنی گندگی کرتے ہو عید قرباں ہو ہر طرف گندگی کے ڈھیر نظر آتے ہیں، یہاں کی سڑکیں خراب اور لوگ گندے، سیاسی نظام کتنا برا ہے. سب سے زیادہ خاندانی جھگڑے بھی تم میں ہوتے ہیں. اور نہ جانے کیا الا بلا... پھر اس نے پینترا بدلا اور یوروپین و امریکی اقوام کا نمائندہ بن بیٹھا جیسے خود تو کبھی پاکستان میں پیدا ہی نہ ہوا ہو. کہنے لگا ایک طرف ہم ہیں جہاں دیکھو کچرا جلا کے رکھا ہوا ہے اور دوسری جانب امریکی ہیں وہ تو ماچس بھی احتیاط سے جلاتے ہیں کہ کہیں ماحولی آلودگی کا باعث نہ بنے، اور تو اور آپکے ہاتھوں اگر ایک بلّی بھی مر جائے تو ان کی پکڑ سے نہیں بچ سکتے سوچوں جب جانور کا وہ اتنا خیال رکھتے ہیں تو انسان کی کتنی اہمیت ہوگی ان میں. کہنے لگا وہاں عورت آزاد ہے وہ اپنی مرضی کی مالک ہے وہاں سب کماتے ہیں. وہاں کا بینکنگ نظام کمال ہے وہاں کا شہری خوش ہے...
میں نے مسکراتے ہوئے اسے دیکھا اور کہا تقریر تو اچھی ہے مگر یہ ماچس بھی احتیاط سے جلانے والی قوم سے سوال کرو کہ افغانستان پر بموں کی بارش سے ماحولی آلودگی میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا؟ تم خاندانی جھگڑوں پر تنقید کر رہے ہو، جہاں سے تم آۓ ہو وہاں کا تو خاندانی نظام ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، جہاں خاندان ہی نہ ہو وہاں خاندانی جھگڑے کا کیا سوال؟ اور ہاں تم نے خوب کہا کہ وہ جانور کا خیال رکھتے ہیں بیشک لیکن دنیا کے کئی ممالک میں موجود انکی فوجیں اور ڈیزی کٹر بموں نے کتنی ہی بستیوں کو ویران کردیا... شاید کیوں کہ وہ مرنے والے عام انسان تھے، امریکی بلی یا کتے نہیں ...
اور عورت کی آزادی کی بات کرنے سے پہلے وہاں پر عورت کی حیثیت اور اس پر ہونے والے جنسی حملوں کا ریکارڈ ضرور چیک کرنا، یہ آزادی کی قیمت کافی بڑی دینی پڑتی ہے، جس سے اب وہ بھی باز آرہے ہیں ...
میری باتوں سے وہ کچھ نہ بول سکا، شاید اسے اپنی غلطی کا احساس ہورہا تھا!
اس امریکہ پلٹ نوجوان کو دیکھ کر میں سوچنے لگا کیا یہ لوگ یہی علم اور یہی ڈگری حاصل کرنے گئے تھے کہ اپنے اسلامی اقتدار کو پرے چھوڑ کر اسی ملک و ملت کی برائی کرنے میں لگ جائیں، اور اس میں بھی عدل کا دامن چھوڑ کا تعصب کی عینک لگا لیں. کیا اسلامی شعائر کا مذاق اڑانا اور اپنی پاکستانی اساس کو اہمیت نہ دینا کیا یہ ملک و قوم کی خدمت ہے یا کیا ہے... اور قدرے حیرت سے میں اسے دیکھتا رہ گیا...

ابنِ سیّد

اسلام اور سیکیولر ازم

جس طرح اسلام ایک مکمل زندگی گزارنے کا طریقہ ہے اسی طرح سیکیولرازم بھی ایک مختلف زندگی گزارنے کا طریقہ ہے.
سیکیولرازم اور اسلام کا موازنہ کیا جائے تو بہت سی چیزیں ایسی ملیں گی جو اسلامی رویہ یا تعلیمات سے متصادم ہوں، الگ ہوں.
سیکیولرازم اسلام سے الگ نظریہ ہے،اسلی تعلیمات الگ ہیں. جس طرح کفر اور اسلام ایک جگہ نہیں ہوسکتے یعنی ایک شخص مسلمان اور کافر ایک ساتھ نہیں ہوسکتا اسی طرح ایک شخص مسلمان اور سیکیولر ایک ساتھ نہیں ہوسکتا، اسے کوئی ایک راہ اپنے لئے متعین کرنی ہوگی کہ یا تو اسلام میں مکمل آجائے اور سیکیولرازم سے کنارہ کرلے.
بعض لوگوں کا کہنا ہوتا ہے: "جناب ہمارے سیاسی نظریات سیکیولر ہیں" یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ایک شخص مسلمانیت کا دعوی بھی کرے اور دوسری جانب یہ بھی کہے کہ میرا کھانا سیکیولر ہے میں کھانے میں حلال حرام نہیں دیکھتا (نعوذباللہ). سیکیولرازم کا سب سے بنیادی نظریہ یہ ہے کہ مذہب اور ریاست الگ الگ ہیں اس کو اگر ہم مزید واضح کریں تو کچھ یوں ہوگا کہ "ریاست اس بات سے آزاد ہے کہ مذہب کے مطابق چلے" یعنی اس ریاست میں سودی لین دین کیخلاف کوئی نہیں بول سکتا "کہ یہ حرام ہے" کیوں کہ مذہب کی بنیاد پر کیا جانے والا آرگیومنٹ رد کیا جائیگا، ہاں وہ یہ کہہ سکتا ہیکہ سودی نظام خراب ہے کیوں کہ "اسکے اثرات مضر ہیں" اور اگر جمہوریت بھی رائج ہے تو ٥١٪ ملکر اسے بدل سکتے ہیں. اور اسی طرح باقی کاروبار زندگی کے حوالے سے بھی ریاست مذہب سے مادر پدر آزاد ہوگی.
سب سے بڑی بات اس کا موازنہ اسلام سے کرلیا جائے اگر متصادم ہو تو چھوڑ دیا جائے (اگر اسلام پر عمل کرنا ہے اور اس اسلامی نظام کو نافظ کرنا ہے) ورنہ پھر مسلمانیت کا دعوی بے جا ہے!

ابنِ سیّد
Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...

Facebook Comments