Friday, January 31, 2014

کیا مدارس دہشتگردی کا گڑھ ہیں ؟

علماء انبیاء کے وارثین ہیں جبکہ مدارس علماء کی جائے پیدائش ہیں. ایک عالم کو پیدا تو اسکے والدین کرتے ہیں لیکن شعوری و علمی طور پر روشناس اساتذہ کراتے ہیں.
موجودہ دور میں جتنے زیادہ تیر مدارس کی جانب اٹھے ہیں شاید ہی کسی اور دور میں یہ صورتحال ہو کہ مدارس کیساتھ ایسا رویّہ رکھا گیا ہو.
بدقسمتی سے یہ اعتراضات ان چند افراد کی جانب سے کئے جاتے ہیں جن کا مدارس سے کبھی تعلق نہیں رہا. نہ یہ افراد اسلام کے اصولوں کو سمجھ سکے نہ مدارس کے نصاب کو چھونا انہیں نصیب ہوا. اب ایسے افراد جب اپنی رائے دیں گے تو کیا یہ جانبدارانہ رائے نہ ہوگی؟ اور انکی کم علمی اور کم فہمی کے باعث کیا انکے الفاظ اعتبار کے لائق ہیں؟
لیکن یہ سوال کہ ،"کیا واقعی مدارس دہشتگردی کی ترویج میں شامل ہیں" اس کیلئے چند باتوں کی وضاحت ضروری ہے.
سب سے پہلے اس لفظ "دہشتگردی" کی تعریف معلوم ہونا ضروری ہے. جن افراد کی جانب سے اعتراضات کے تِیر مدارس کی جانب چلائے جاتے ہیں انکی نظر میں دہشتگردی کا اصل مفہوم کیا ہے. کیا یہ وہی "دہشتگردی" ہے جس کیخلاف جنگ امریکی استعمار نے ساری دنیا پر مسلط کی ہوئی ہے. اگر جواب ہاں میں ہے تو معذرت کے ساتھ یہ مفہوم دہشتگردی کی تعریف نہیں.معروف اسکالر خرّم مراد (مرحوم) اپنی کتاب اسلام اور دہشتگردی میں لکھتے ہیں کہ اسلام دشمن سیکیولر میڈیا کی جانب سے مجاہد کی تصویر کشی ایک ایسے شخص کی طرح کی گئی جو بپھرے بال اور بڑھی ہوئی داڑھی کےساتھ ہاتھ میں تلوار لئے آتا ہے اور جہاں اسے غیر مسلم دِکھتا ہے اس کے گلے پر تلوار رکھ کر کہتا ہے کہ پڑَھ کلمہ ورنہ ... باطل نے یہ تصویر بڑی چالاکی سے بنائی اور ہم اس سے اتنا ڈرے کے کہنے لگے "حضور ہمارا کیا تعلق تلوار سے ہم تو ٹھہرے امن پسند سادھو". یہی کچھ ہمارے ساتھ ہوا "جہاد" جو کہ ہر مسلمان پر فرض ہے اور اسکے حوالے سے قرآن و حدیث میں بیشتر احکامات موجود ہیں، لیکن پھر ہوا کچھ یوں کہ مسلمانوں کو جہاد اور اس کے تصوّر سے دور کیا گیا. پہلے جو مجاہد تھا وہ میڈیا کی کوششوں سے شدت پسند اور پھر عسکریت پسند کہلایا اور بالآخر اسلام کا مجاہد "دہشتگرد" کہلانے لگا.
باطل کردارکشی کے اس مقام پر تو کامیاب رہا لیکن یہ بات اس کو ہمیشہ تکلیف دیتی رہی کہ مسلمان ممالک کا تعلیمی نصاب ان کے اندر اسلامی سوچ پیدا کرتا ہے جس کے نتیجہ میں وہ ضرورت کے موقع پر اپنی جان دینے سے بھی دریغ نہیں کرتا. اس کیلئے انہوں نے تعلیمی نصاب میں تبدیلیاں کروائیں، اسلامیات کو ایک مضمون بنا دیا گیا اور اسلامی نظام تعلیم ایک خواب بن کر رہ گیا، اسباق میں سے غیر محسوس انداز میں جہاد کے متعلق آیات کا اخراج کیا جس کا فائدہ انہیں اس طرح ہوا کہ اعلی تعلیم یافتہ نسل اسلامی تعلیمات بالخصوص جہادی تعلیمات سے بے بہرہ رہی. لیکن جب یہی حرکت انہوں نے مدارس کےخلاف کرنا چاہی تو یہاں انہیں ایک الگ صورتحال کا سامنا کرنا پڑا. اس بار انہیں مدارس پر اپنا حکم چلانے کا موقع نہ ملا اس کی پہلی وجہ مدارس میں اسلام کی تعلیم کا ہونا جبکہ دوسری بڑی وجہ مدارس کا بنیاد پرستانہ رویہ ہے.
ایک طالبعلم مدرسہ سے فارغ التحصیل ہو کر ایک عالم بنتا ہے اور دینی تعلیم سے بہرہ مند ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اسلامی سوچ کا حامل ہوتا ہے. اور ہاں "جہاد" جس کو یہ افراد "دہشتگردی"! کہتے ہیں اس کی تعلیم بھی لے کر نکلتا ہے. لہذا اگر کوئی کہے کہ مدارس دہشتگردی کی تعلیم دیتے ہیں تو بالکل غلط کہتے ہیں اور اگر وہ کہیں کہ مدارس جہاد کی تعلیم دیتے ہیں تو درست ہے. اس لفظ کی درستگی کے بعد دوسری بات پر آتے ہیں، پاکستانی معاشرے میں مدارس کا کیا کردار ہے.
پاکستانی معاشرے میں مدارس کا کردار کسی مشفق ماں کی طرح ہے. ایک علمی درسگاہ ہونے کے ساتھ ساتھ مدارس لاوارث اور یتیم بچوں کیلئے ایک اچھی جائے پناہ ہیں، پاکستان کے طول و عرض میں پھیلا یہ مدرسوں کا نیٹورک بلاشبہ پاکستان کا سب سے بڑا فلاحی ادارہ ہے. یہ مدارس ان طلبہ کے کھانے پینے، رہائش اور تعلیم کے تمام خرچ اٹھاتے ہیں جو مخیّر حضرات کے تعاون سے مشکل سے ممکن ہوتا ہے. اس طرح کے ادارے جو ملک کو قوم کیلئے بہت بڑی خدمت کر رہے ہیں کے بارے میں اگر چند افراد کی کم علمی کے باعث بپھتی تمام مدارس پر کَسی جائے تو یہ نا صرف ایک تعصبانہ اور جانبدارانہ سوچ کی عکاس ہے بلکہ انصاف کے اصولوں سے بھی بالاتر ہے.

ابنِ سیّد

No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...

Facebook Comments