Sunday, January 19, 2014

البدر

سقوط ڈھاکہ ویسے تو پاکستان کی تاریخ کا سب سے بھیانک  سانحہ ہے. سلیم منصور کی کتاب البدر پڑھنا شروع کی تو معلوم ہوا کہ سقوط اصل میں ہوا کیسے. جب اپنوں کی غلطیاں اور غیروں کا موقع سے فائدہ اٹھانا سقوط کی وجہ بنی، یہ کوئی ایسا واقعہ نہیں تھا کہ چند دن میں رونما ہوگیا ہو، اگر بغور دیکھا جائے تو اسکے تانے بانے نہ صرف قیامِ پاکستان بلکہ اس سے بھی پہلے سے ملتے ہیں. قیام کے بعد اس صوبہ کو خاطرخواہ اہمیت نہ ملنا، بنگلہ زبان کا دیرینہ مسئلہ، اسلامی تعلیمات کا بنگلہ زبان میں کم ہونا، قوم پرستانہ لٹریچر کی بھرمار اور اس سے متعلق حکومت کی عدم توجہی، بے تحاشہ سیاسی مسائل اور بنیادی حقوق کی عدم فراہمی اور غربت جیسے مسائل نے یہاں علیحدگی پسندی کو فروغ دیا. ملک میں یکّے بعد دیگرے مارشل لأز نے جمہوریت کو تاراج کیا اور عوام کو بد دل کیا. اس دوران ملک میں کوئی جماعت ایسی نہ تھی جو ان دونوں صوبوں کی زنجیر بنتی، مزید یہ کہ آخری الیکشن میں پیپلز پارٹی مغربی پاکستان میں کامیاب رہی اور مشرق میں ایک بھی سیٹ نہ لے سکی. جبکہ عوامی لیگ نے مشرقی حصہ میں کامیابی پائی اور مغربی حصہ میں ایک بھی سیٹ نہ لے سکی جبکہ یہ دونوں ملک کی بڑی جماعتیں تھیں. اس کے بعد دونوں جماعتوں اور مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے درمیان اقتدار کی کشمکش شروع ہوئی، حالات خراب ہوئے اور فوجی آپریشن شروع ہوگیا، مکتی باہنی بنی اور فوج پر حملے شروع ہوگئے. اس کیساتھ ہی بھارت نے حملہ کردیا، اس نازک مرحلے پر اسلامی جمعیت طلبہ کے پاس تین راستے تھے پہلا، موجودہ دھارے میں بہتے ہوئے علیحدگی پسندوں کا ساتھ دیا جائے، دوسرا، اس تمام صورتحال سے لاتعلق رہا جائے، تیسرا، پاکستانی ریاست کا ساتھ دیا جائے اور فوج کا ساتھ دیتے ہوئے اپنی جانیں پاکستان کی سالمیت کیلئے قربان کردی جائیں. اور پھر جمعیت نے تیسرا راستہ اختیار کیا. بعد ازاں جمعیت البدر کے نام سے سامنے آئی، پاکستان آرمی کیساتھ داد شجاعت دیتے ہوئے بہادری کی تاریخیں رقم کیں. ناکافی ٹریننگ کے باوجود مختلف مراحل میں پیشہ ور فوجیوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا اور اس بات کا ثبوت دیا کہ "مؤمن ہو تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی".
حالات بد سے بد تر ہونے لگے لیکن فوج اور البدر ڈٹے رہے، حکومتی ادارے عالمی طاقتوں کے سامنے بقا کی بھیک مانگنے لگے. تیرہ دسمبر بھٹو صاحب سیکیورٹی کونسل کے اجلاس میں شعلہ بیان تقریر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ "ہم ہار نہیں مانیں گے، ہم لڑیں گے"، اور اس کے ٹھیک دو دن بعد سولہ دسمبر بھارتی فوجیں ڈھاکہ میں داخل ہوجاتی ہیں اور پاکستانی فوج ہتھیار ڈال دیتی ہے... لیکن البدر کا کیا ہوا؟ یہاں سے ایک خونچکاں باب کا آغاز ہوتا ہے...
البدر نے ہندوستانی فوج کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے، البدر تحلیل کردی گئی اور تمام افراد انجانی راہوں میں نکل گئے، ان میں سے بعض کو اس ہی وقت دشمن نے شہید کردیا تو بعض کو کئی عرصہ بعد، کچھ کو مجمع کے سامنے مارا گیا تو کچھ کو اکیلے میں، بعض کو انکے گھروں اور دوسری پناہ گاہوں سے نکال کر مارا گیا، کچھ کو دفنایا گیا اور بہت سوں کی قبر ندّی کا پانی بنی، بیشتر کو تشدّد کرکر ے شہید کیا گیا. یہ شہداء چودہ سال کے نوجوان سے لے کے معمر افراد پر مشتمل تھے لیکن ان کی اکثریت نو عمر نوجوانوں پر مشتمل تھی. بعض شہداء چھٹّی جماعت کے طلبہ تھے تو بعض نے کچھ عرصہ پہلے ہی انٹر کا امتحان دیا تھا.
البدر کے نوجوان کئی طرح سے شہید کئے گئے سب سے زیادہ تعداد ان افراد کی تھی جو بھارتی فوج یا مکتی باہنی سے گوریلا جنگ کرتے ہوئے شہید ہوئے، اور کچھ تعداد ان کی بھی ہے جن کو اردو بولنے والے علاقوں میں محض بنگالی ہونے کی وجہ سے مارا گیا اور بعض ایسے بھی ہیں جو پاکستان آرمی کے آپریشن کے دوران صرف مکتی باہنی کے شک میں مارے گئے. یہ مارا ماری صرف جنگ کے دوران نہیں بلکہ مہینوں تک جاری رہی.
ان میں سے کئی افراد کی تصاویر اخبارات میں چھپیں اور ان کے سروں پر انعام کی قیمتیں لگیں، پھر کچھ کی لاشیں ملیں، کچھ ندّی میں گم ہوئے اور بہت سے لاپتہ...
اس کتاب میں بیان ہوئے چند یاد رہ جانے والے واقعات، مکتی باہنی کا ایک لیڈر عرصہ سے پاکستان فوج کیلئے دردِسر بنا ہوا تھا قمرالاسلام نامی ایک البدر مجاہد نے ملک دشمن مکتی باہنی کے اس لیڈر کو پکڑا، جب تفتیش شروع ہوئی تو اس شخص نے کہا میں دشمن ہوں تو صحیح لیکن میں اس مجاہد کا بھائی بھی ہوں، یہ سن کر فوج کے جوان حیرت سے گنگ ہوگئے، میجر صاحب نے کہا کہ میں ایک مجاھد کے بھائی پر ہاتھ نہیں اٹھا سکتا، لیکن اسکا مجاہد بھائی گن تھام کر کھڑا ہوگیا، اس نے اپنے بھائی کو کہا کہ پاکستان کیخلاف نہ جاؤ ورنہ میں جان لینے میں دیر نہ کروں گا، بھائی نے منع کردیا جس پر مجاہد نے کہا تم میرے بھائی صحیح لیکن پاکستان کا رشتہ خونی رشتہ سے بڑھ کر ہے. اس کے ساتھ ہی گولی چلی اور پاکستان کا دشمن ہلاک جبکہ اس کا محب وطن مجاہد بھائی سسکیاں لینے لگا. یہ منظر دیکھ کر دیگر فوجی بھی رونے لگے...
ایک دفعہ مکتی باہنی کے خلاف ایک آپریشن کے بعد صبح دیکھتے ہیں کہ مکتی باہنی والوں کی لاشوں میں ایک البدر مجاہد کے والد کی بھی لاش ہے، جبکہ انکا بیٹا البدر کی جانب سے اس ہی آپریشن کا حصہ تھا. اس جیسے واقعات نے اسلام کے اوّلین دور کی یاد دلادی.
شوکت عمران شہید بھائی ہیں جو سقوط کے بعد اس وقت تک کہیں نہیں جانے کا عہد کیے ہوئے ہیں جب تک باقی ساتھی محفوظ مقامات پر نہیں پہنچ جاتے ...
عبدالمالک شہید بھائی ہیں جو کہ سقوط سے تقریباً ایک سال پہلے ہی مادر علمی میں مباحثہ میں شرکت کرنے گئے تھے جہاں ان کو شہید کیا گیا..
فینی کے محمد الیاس شہید جسے ٹرک کے پیچھے باندھ کر رگڑا گیا جس سے ان کا گوشت جگہ جگہ سے ادھڑ گیا...
شہید ابوطاہر جنہیں انکے والد نے مکتی باہنی میں شمولیت کا مشورہ دیا تھا. سقوط کے بعد ملک دشمنوں نے انہیں قتل کرکے اجتماعی قبر میں دھکیل دیا.. انعام الحق شہید جنہیں فضائیہ کے حملے میں شہادت ملی، غریب والدین نے کیلے کے پتوں میں لپیٹ کر دفن کیا...فضل الکریم شہید جن کو مسجد میں گھس کر شہید کیا گیا... شاہ جلال اور انکے ساتھی جو بھارتی فضائی حملے میں شہید ہوئے ...میاں دھونو شہید جنہیں عوامی لیگ والوں نے درخت سے الٹا لٹکائے رکھا اور وہ اسی حالت میں خالق حقیقی سے جا ملے...عطا الرحمن جن کی پہلے ایک انگلی ہتھوڑے سے توڑی گئی پھر ہاتھ پاؤں کاٹے گئے اور اس طرح اذیت دے کر انہیں شہید کیا گیا ...عبدالحق کو جے بنگلہ کا نعرہ لگانے کا کہا لیکن انہوں نے انکار کیا جواب میں انہیں شہید کردیا گیا، انکی عمر صرف چودہ سال تھی ...اور اس طرح کے ہزاروں شہداء جنہوں نے اسلام اور پاکستان کو بچانے کی خاطر جانیں دیں...
اصل میں یہ ملک پاکستان اسلام کے نام پر بنا ہے اور یہاں صرف اسلامی نظام ہی پنپ سکتا ہے، کوئی اور نظام چاہے کتنا بھی اچھا ہو اگر اسلام کے مطابق نہیں ہوگا تو وہ ہماری مذہبی اقدار اور باہمی اتحاد کو غارت کرتا رہیگا، الّا یہ کہ ہم اسلام کی جانب واپس پلٹ آئیں. سقوط ڈھاکہ کا واقعہ ہمیں اپنی غلطیوں کو نہ دہرانے کی تلقین کرتا ہے...

ابنِ سیّد

No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...

Facebook Comments