پچھلے کئی مہینوں سے میڈیا پر بحث و مباحثہ چل رہے ہیں اور دوسرے الفاظ میں ملک میں رائے عامّہ ہموار کی جارہی ہے کہ اور یہ باور کرانے میں زمین و آسمان ایک کیا جارہا ہے کہ اب آپریشن ہی واحد حل ہے، درج ذیل چند ایسے دلائل جو کہ اس مفروضے کو غلط ثابت کر رہے ہیں ...
عرصہ ہوگیا ہم ان کے خلاف آپریشن کر رہے ہیں لیکن ناکام ہیں لہذا مذاکرات کو موقع دیا جائے، جب ایک اسٹریٹیجی ناکام ہوجاتی ہے تو دوسرے طریقوں پر غور کیا جاتا ہے. اتنا تو ایک فوجی بھی جانتا ہے کہ پلین اے ناکام ہو تو پلین بی کی جانب جایا جائے لیکن وائے نادانی پچھلی ایک دہائی قبل شروع کیا گیا آپریشن لیکن ابھی تک اس میں ایک بھی علاقہ کو کلیئر نہ کیا جاسکا. ہر طرف سے ناکام ہونے کے بعد مذاکرات کا راستہ بدستور موجود ہے، اس لئے یہ ضروری ہے.
ہمارے آئین کو نہیں مانتے جب ہی تو مذاکرات کرنے چاہئے، مان لیں تو جھگڑا ہی کیا. بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ طالبان آئین کو نہیں مانتے تو انکے ساتھ مذاکرات کس طرح ہونگے، تو جناب جہاں اختلاف ہو مذاکرات کا آپشن وہاں ہی قابلِ عمل ہے اور جہاں اختلاف ہی نہ ہو تو پھر وہاں مسئلہ ہی کس بات کا رہ جائے گا.
انہیں عوامی حمایت حاصل ہے، بہت عرصہ تک مقتدر اداروں کی جانب سے مسلسل یہ کہا جاتا رہا کہ طالبان اور دوسرے عسکریت پسند غیر ملکی ہیں. لیکن دوسری جانب ہم دیکھتے ہیں کہ انہیں عوامی حمایت بھی حاصل ہے اور جب بھی دنیا میں کسی گوریلا جنگ میں کسی گروپ کے ساتھ عوام کی ہمدردیاں ہوں تو آپ اس کو بذورِ قوّت نہیں دبا سکتے، بیشتر مثالیں آپکے سامنے موجود ہیں دور کیوں جائیں کشمیر میں ہی دیکھ لیں وہاں بھارتی افواج مجاھدین کے ہاتھوں بےبس نظر آتی ہیں وجہ یہی کہ مجاھدین کو عوامی حمایت حاصل ہے اور وقت آنے پر عام افراد انہیں گھروں میں پناہ دیتے ہیں نتیجتاً انہیں تلاش کرنا نا ممکن ہوجاتا ہے. پاکستانی طالبان بھی کوئی غیر ملکی نہیں بلکہ قبائلی افراد پر مشتمل گروہ ہے جنہیں اپنے اور اطراف کے قبائل کی حمایت حاصل ہے اور کسی بھی آپریشن کے نتیجہ میں عسکریت پسندوں کی چھاپہ مار ٹیمیں حامیوں کے گھروں میں پناہ حاصل کرتی ہیں جس کے بعد فوج کیلئے ان میں تفریق کرنا مشکل ہوجاتا ہے.
عالمی طاقتیں ہماری حمایتی نہیں رہیں، روس ہم سے نالاں ہے، چین ہم سے کھنچا کھنچا ہے وہ ایک طرف ہمارا دوست ملک ہے لیکن جنگ کے معاملہ میں وہ مدد نہیں کرپاۓ گا اور نہ ہی دوسری طاقتوں پر دباؤ ڈال سکے گا. امریکہ، جس کو ہم دوست سمجھ رہے ہیں اسے ہم ڈبل گیم کھیلتے دکھائی دے رہے ہیں. لہذا جب عالمی طاقتیں ہماری ہمنوا نہیں تو ہمیں بھی ان سے الگ ہوکے انکے دباؤ سے متاثر ہوئے بغیر اپنے فیصلے کرنے پڑینگے. مذاکرات صرف اس لئے نہیں چھوڑے جائیں کے امریکہ نہیں چاہتا بلکہ وہ کیا جائے جو ہمارے لئے بہتر ہو، ورنہ اس ڈومور پالیسی کا نتیجہ پہلے ہی بھگت رہے ہیں.
اصل مسئلہ باغی نہیں انکی بغاوت کے اسباب ہیں، میرے خیال میں سب سے بڑا نکتہ یہی ہے. ہمارے بیشتر حکومتی اور سیکیورٹی ادارے یہ سمجھ رہے ہیں کہ اصل مسئلہ طالبان ہیں جبکہ اصل مسئلہ طالبان نہیں بلکہ وہ اسباب ہیں جس نے انہیں ہتھیار اٹھانے پر مجبور کیا اگر ان کے ساتھ شروع سے احتیاط سے چلا جاتا تو بات اس قدر نہ بڑھتی، لہذا اب غلطیوں کو درست کیا جائے، آگ پر مزید ایندھن ڈالنے کے بجاۓ اسے حل کیا جائے.
ہمارے آئین کو نہیں مانتے جب ہی تو مذاکرات کرنے چاہئے، مان لیں تو جھگڑا ہی کیا. بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ طالبان آئین کو نہیں مانتے تو انکے ساتھ مذاکرات کس طرح ہونگے، تو جناب جہاں اختلاف ہو مذاکرات کا آپشن وہاں ہی قابلِ عمل ہے اور جہاں اختلاف ہی نہ ہو تو پھر وہاں مسئلہ ہی کس بات کا رہ جائے گا.
انہیں عوامی حمایت حاصل ہے، بہت عرصہ تک مقتدر اداروں کی جانب سے مسلسل یہ کہا جاتا رہا کہ طالبان اور دوسرے عسکریت پسند غیر ملکی ہیں. لیکن دوسری جانب ہم دیکھتے ہیں کہ انہیں عوامی حمایت بھی حاصل ہے اور جب بھی دنیا میں کسی گوریلا جنگ میں کسی گروپ کے ساتھ عوام کی ہمدردیاں ہوں تو آپ اس کو بذورِ قوّت نہیں دبا سکتے، بیشتر مثالیں آپکے سامنے موجود ہیں دور کیوں جائیں کشمیر میں ہی دیکھ لیں وہاں بھارتی افواج مجاھدین کے ہاتھوں بےبس نظر آتی ہیں وجہ یہی کہ مجاھدین کو عوامی حمایت حاصل ہے اور وقت آنے پر عام افراد انہیں گھروں میں پناہ دیتے ہیں نتیجتاً انہیں تلاش کرنا نا ممکن ہوجاتا ہے. پاکستانی طالبان بھی کوئی غیر ملکی نہیں بلکہ قبائلی افراد پر مشتمل گروہ ہے جنہیں اپنے اور اطراف کے قبائل کی حمایت حاصل ہے اور کسی بھی آپریشن کے نتیجہ میں عسکریت پسندوں کی چھاپہ مار ٹیمیں حامیوں کے گھروں میں پناہ حاصل کرتی ہیں جس کے بعد فوج کیلئے ان میں تفریق کرنا مشکل ہوجاتا ہے.
عالمی طاقتیں ہماری حمایتی نہیں رہیں، روس ہم سے نالاں ہے، چین ہم سے کھنچا کھنچا ہے وہ ایک طرف ہمارا دوست ملک ہے لیکن جنگ کے معاملہ میں وہ مدد نہیں کرپاۓ گا اور نہ ہی دوسری طاقتوں پر دباؤ ڈال سکے گا. امریکہ، جس کو ہم دوست سمجھ رہے ہیں اسے ہم ڈبل گیم کھیلتے دکھائی دے رہے ہیں. لہذا جب عالمی طاقتیں ہماری ہمنوا نہیں تو ہمیں بھی ان سے الگ ہوکے انکے دباؤ سے متاثر ہوئے بغیر اپنے فیصلے کرنے پڑینگے. مذاکرات صرف اس لئے نہیں چھوڑے جائیں کے امریکہ نہیں چاہتا بلکہ وہ کیا جائے جو ہمارے لئے بہتر ہو، ورنہ اس ڈومور پالیسی کا نتیجہ پہلے ہی بھگت رہے ہیں.
اصل مسئلہ باغی نہیں انکی بغاوت کے اسباب ہیں، میرے خیال میں سب سے بڑا نکتہ یہی ہے. ہمارے بیشتر حکومتی اور سیکیورٹی ادارے یہ سمجھ رہے ہیں کہ اصل مسئلہ طالبان ہیں جبکہ اصل مسئلہ طالبان نہیں بلکہ وہ اسباب ہیں جس نے انہیں ہتھیار اٹھانے پر مجبور کیا اگر ان کے ساتھ شروع سے احتیاط سے چلا جاتا تو بات اس قدر نہ بڑھتی، لہذا اب غلطیوں کو درست کیا جائے، آگ پر مزید ایندھن ڈالنے کے بجاۓ اسے حل کیا جائے.
پچھلی ایک دہائی اس بات کی غماز ہے کہ آپریشن کا طریقہ ان بنیاد پرست تنظیموں کیلئے ناقابل استعمال ہے، دوسرا راستہ ہمارے سامنے مذاکرات کا ہے جس جو تمام جمہوریت پسند جماعتوں نے متفقہ طور پر مسائل کے حل کیلئے پسند کیا ہے، لہذا عوامی رائے کا احترام کرتے ہوئے مذاکرات کا راستہ ہموار کیا جائے تاکہ پاکستان ایک متوازن ڈگر پر گامزن ہوسکے.
ابنِ سیّد
No comments:
Post a Comment