جب بھی اسلامی نظام کو ملک میں نافذ کرنے کا موضوع سامنے آتا ہے تو بعض لوگ یہ کہہ کر موضوع کو مزید مشکل بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور انکا من پسند سوال یہ ہوتا ہے "کون سا اسلام؟ " پھر اس کئے گئے سوال کو اپنی دانست میں مزید مشکل سے مشکل تر بنانے کیلئے کہتے ہیں "کیا سنّی اسلام یا شیعہ، کیا دیوبندی یا بریلوی یا اہلحدیث یا یہ یا وہ وغیرہ وغیرہ"
کسی بھی سوال کو کرنے کا ایک طریقہ ہوتا ہے اور جواب سنے بغیر اگلا سوال کرنا سوالی کی نیت ظاہر کرتا ہے کہ وہ جواب کا منتظر نہیں بلکہ بحث برائے بحث کا قائل ہے.
کون سا اسلام؟ جواب یقیناً یہی ہے کہ وہی اسلام نافذ کیا جائیگا جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم تک پہنچایا، وہی اسلام جو قرآن و حدیث میں بیان ہے، اور وہی اسلام جو مدینہ کی اسلامی ریاست میں رسول اللہ نے نافذ کر کے دکھایا تھا. اگر اس جواب سے بھی تشفی نہیں تو چلیں آگے پڑہیں.
اب آئیں انکے دوسرے سوال کی جانب جن میں بعض افراد مختلف فرقوں کا نام لے کر کہتے ہیں کہ ان میں سے کون سا اسلام، شاید اس طرح کا سوال کرنے والے بالکل بھی دین کا مطالعہ نہیں کرتے. "چور کا ہاتھ کاٹ دو" "قاتل سے قصاص لو" "سود کو روک دو" میرا خیال ہے ان قوانین پر تو سب متفق ہیں یہاں یہ سوال بے معنی ہوجاتا ہے کہ کون سے فرقہ کا قانون یقیناً بیشتر قوانین اصول و ضوابط میں تمام مسالک میں اتفاق رائے ہے.
اب رہ گئے چند وہ اصول و ضوابط جن میں اختلاف ہیں، تو ایسے مسائل کے حل کیلئے علماء اور قانونی ماہرین کی ایک کمیٹی بنا دی جائے گی جو باہمی مشاورت سے ان مسائل کا حل تلاش کریگی اور حکومتی ادارے اس کو نافذ کریں گے.
کس ریاست میں اختلاف اور مسائل نہیں ہوتے، کیا جس جمہوری نظام میں ہم جی رہے ہیں کیا سب اس سے متفق ہیں، یقیناً نہیں! یقیناً خلافت کے ادوار میں بھی اختلافات آتے تھے اور ان کو حل بھی کیا جاتا تھا. لیکن جب نیّت اچھی ہو تو مشکل سے مشکل کام کے بھی راستے نکل آتے ہیں لیکن جب ذہن ایک بات کو تسلیم کرنے پر آمادہ ہی نہ ہو اور بغیر سوچے سمجھے پہلے سے ذہن بنا لیا جائے تو پھر ایسے ہی سوال اٹھتے ہیں کہ "کون سا اسلام؟"
اب آئیں انکے دوسرے سوال کی جانب جن میں بعض افراد مختلف فرقوں کا نام لے کر کہتے ہیں کہ ان میں سے کون سا اسلام، شاید اس طرح کا سوال کرنے والے بالکل بھی دین کا مطالعہ نہیں کرتے. "چور کا ہاتھ کاٹ دو" "قاتل سے قصاص لو" "سود کو روک دو" میرا خیال ہے ان قوانین پر تو سب متفق ہیں یہاں یہ سوال بے معنی ہوجاتا ہے کہ کون سے فرقہ کا قانون یقیناً بیشتر قوانین اصول و ضوابط میں تمام مسالک میں اتفاق رائے ہے.
اب رہ گئے چند وہ اصول و ضوابط جن میں اختلاف ہیں، تو ایسے مسائل کے حل کیلئے علماء اور قانونی ماہرین کی ایک کمیٹی بنا دی جائے گی جو باہمی مشاورت سے ان مسائل کا حل تلاش کریگی اور حکومتی ادارے اس کو نافذ کریں گے.
کس ریاست میں اختلاف اور مسائل نہیں ہوتے، کیا جس جمہوری نظام میں ہم جی رہے ہیں کیا سب اس سے متفق ہیں، یقیناً نہیں! یقیناً خلافت کے ادوار میں بھی اختلافات آتے تھے اور ان کو حل بھی کیا جاتا تھا. لیکن جب نیّت اچھی ہو تو مشکل سے مشکل کام کے بھی راستے نکل آتے ہیں لیکن جب ذہن ایک بات کو تسلیم کرنے پر آمادہ ہی نہ ہو اور بغیر سوچے سمجھے پہلے سے ذہن بنا لیا جائے تو پھر ایسے ہی سوال اٹھتے ہیں کہ "کون سا اسلام؟"
ابنِ سیّد
(تمام اسلامی موضوعات اپنے ناکافی علم کے باوجود اچھی نیت سے شائع کئے جاتے ہیں. اگر کسی دوست کو دئے گئے موضوع میں اختلاف ہے تو اپنی رائے کا اظہار ضرور کریں تاکہ تصحیح کی جاسکے. اللہ غلطیوں کو معاف کرے اور کوشش کو قبول کریں. آمین)
No comments:
Post a Comment